Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 93
وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا
وَمَنْ : اور جو کوئی يَّقْتُلْ : قتل کردے مُؤْمِنًا : کسی مسلمان کو مُّتَعَمِّدًا : دانستہ (قصداً ) فَجَزَآؤُهٗ : تو اس کی سزا جَهَنَّمُ : جہنم خٰلِدًا : ہمیشہ رہے گا فِيْھَا : اس میں وَغَضِبَ اللّٰهُ : اور اللہ کا غضب عَلَيْهِ : اس پر وَلَعَنَهٗ : اور اس کی لعنت وَاَعَدَّ لَهٗ : اور اس کے لیے تیار کر رکھا ہے عَذَابًا : عذاب عَظِيْمًا : بڑا
اور جو شخص مسلمان کو قصدا مار ڈالے گا تو اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ (جلتا) رہے گا اور خدا اس پر غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور ایسے شخص کے لیے اس نے بڑا (سخت) عذاب تیار کر رکھا ہے
(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) اونٹوں کے سوادیت کی ادائیگی امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ دیت اونٹوں دراہم، ودینار کی صورت میں ادا کی جاسکتی ہے درہموں کی مقدار دس ہزار اوردینار کی ایک ہزرا ہے امام ابوحنیفہ کے نزدیک دیت صرف اونٹوں اور سونے یا چاندی کی صورت میں ادا کی جاسکتی ہے ۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ سونے کی مقدار ایک ہزار دینار ہے اور چاندی کی مقدار بارہ ہزار درہم ہے امام مالک کا قول ہے کہ اہل شام اور اہل مصر سونے والے اور اہل عراق چاندی والے ہیں اور صحراؤں میں رہنے والے اونٹوں والے ہیں۔ امام مالک کا یہی بھی قول ہے کہ دیت میں اونٹوں والوں سے صرف اونٹ ، چاندی والوں سے صرف چاندی اور سونے والوں سے صرف سونا قبول کیا جائے گا، امام ابویوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ چاندی کی صورت میں دی جانے والی دیت کی مقدار دس ہزار درہم سونے کی ایک ایک ہزار دینار اور اونٹوں کی ایک سواونت ہیں جن لوگوں کے پاس گائیں ہوں گی وہ دوسوگائیں جن کے پاس بکریاں ہوں گی وہ دوہزار بکریاں اور جن کے پاس کپڑوں کے جوڑے ہوں گے وہ دوسویمنی جوڑے ادا کریں گے۔ دیت کے اندر بکریوں اور گایوں میں صرف وہی جانور قبول کیے جائیں گے جو ثنی ہوں یعنی گائے دو سال کی اور بکری ایک سال کی ، یا اس سے زائد عمر کے ہوں گے اور کپڑوں کے جوڑوں کی صورت میں صرف یمنی جوڑے قبول کیے جائیں گے جس میں ہرجوڑے کی قیمت پچاس یا اس سے زائد درہم ہوگی۔ ابن ابی لیلی سے مروی ہیے انہوں نے شعبی سے روایت کی ہے انہوں نے عبیدہ سلمانی سے انہوں نے حضرت عمر سے کہ آپ نے سونے والوں پر ہزار دینار ، چاندی والوں پر دس ہزار درہم گائے والوں پر دوسوگائیں بکری والوں پر دوہزار بکریاں کپڑے والوں پر دوسوجوڑے اور اونٹ والوں پر ایک سواونٹ مقرر کیے تھے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ دیت درحقیقت جان کی قیمت ہے اور تمام کا اس پر اتفاق ہے کہ اس کی ایک متعین مقدار ہے جس پر نہ اضافے کی گنجائش ہے اور نہ ہی کمی کی ، نیز اسے اجتہاد رائے کے حوالے سے نہیں کیا گیا ہے، جس طرح تلف شدہ اشیاء کی قیمتوں اور مہرمثل کی مقدار کے تعین میں اجتہاد رائے سے کام لیا گیا ہے دس ہزار درہم کے اثبات پر سب کا اتفاق ہے اور اس سے زائد میں اختلاف ہے اس لیے دس ہزار سے زائد کا اثبات صرف توقیف کے ذریعے جائز ہوسکتا ہے۔ ہیشم نے یونس سے انہوں نے حسن سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر نے دیت میں دیے جانے والے سواونٹوں کی قیمت فی اونٹ بارہ سو کے حساب سے بارہ ہزار درہم لگائی تھی جب کہ حضرت عمر سے دیت میں دس ہزار درہم کی روایت موجود ہے یہ ممکن ہے کہ جن لوگوں نے آپ سے بارہ ہزار کی روایت نقل کی ہے انہوں نے دس درہم کو چھ مثقال کے ہم وزن لیا ہے ، جو دس درہم سات مثقال کے ہم وزن ہونے کی صورت میں دس ہزار درہم بن جاتے ہوں۔ حسن نے اس روایت میں ذکر کیا ہے حضرت عمر نے چاندی کی صورت میں دی جانے والی دیت کا مقدار کا حساب اونٹوں کی قیمت سے لگایا ہے لیکن اس بنا پر نہیں کہ دیت میں اونٹ اصل ہوتے ہیں۔ اس روایت کے علاوہ ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عمر نے دیت کو چاندی کی صورت میں مقرر کیا تھا، یعنی دیت میں چاندی یادرہم ادا کرنے کا حکم دیا تھا، عکرمہ نے حضرت ابوہریرہ سے دیت کے سلسلے میں دس ہزار درہم کی روایت کی ہے۔ اگر کوئی شخص اس روایت سے استدلال کرے جسے محمد بن مسلم طائفی نے عمرو بن دینار سے انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے کہ حضور نے فرمایا، دیت کی رقم بارہ ہزار درہم ہے ، یا اس روایت سے جسے ابن ابی نجیح نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر نے دیت میں بارہ ہزار درہم کا فیصلہ سنایا تھا۔ نافع بن جبیر نے حضرت ابن عباس سے اور شعبی نے حارث سے اور انہوں نے حضرت علی سے اسی طرح کی روایت کی ہے ان روایات کے سلسلے میں یہ جواب دیاجائے گا، کہ عکرمہ کی حدیث کو ابن عیینہ وغیرہ عمرو بن دینار سے ، وہ عکرمہ سے اور وہ حضور سے روایت کرتے ہیں اس سلسلہ روایت میں حضرت ابن عباس کا ذکر نہیں ہے اس طرح یہ روایت مرسل ہوگی۔ کہاجاتا ہے اس حدیث کو موصول قرار دینے میں ایک راوی محمد بن مسلم سے غلطی ہوئی ہے علاوہ ازیں اگر یہ ساری روایتیں درست بھی ہوجائیں تو اس میں یہ احتمال موجود ہے کہ بارہ ہزار درہم اس حساب سے بنتے ہوں کہ دس درہم چھ مثقال کے ہم وزن ہوں جب یہ احتمال پیدا ہوجائے تواحتمال کی بنا پر اضافے کا اثبات جائز نہیں ہوتا اور دس ہزار کا اثبات ہوجائے گا جس پر سب کا اتفاق ہے ۔ نیز سب کا اس پر اتفاق ہے کہ دینار کی صورت میں دیت کی مقدار ایک ہزار ہے دوسری طرف شریعت میں ہر دس درہم کو ایک دینار کی قیمت بنایا گیا ہے آپ نہیں دیکھتے کہ زکوۃ بیس مثقال سونے اور دوسودرہم میں واجب ہوتی ہے۔ اس طرح دوسودرہموں کو بیس دینار کے بالمقابل نصاب قرار دیا گیا ہے گویا ہر دس درہم ایک دینار کے بالمقابل ہوگئے اس لیے یہ چاہیے کہ دیت کے اندر بھی ہر دینار کے بالمقابل دس درہم رکھے جائیں۔ امام ابوحنیفہ نے تین اوصاف یعنی اونٹ ، سونا، اور چاندی کے علاوہ کسی اور جانور یا چیز کو دیت کے لیے مقرر نہیں کیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ دیت جان کی قیمت ہوتی ہے اور قیاس کا تقاضا تھا کہ اس کی روایت درہم ودینار کی شکل میں کی جائے جس طرح تمام دوسری تلف شدہ اشیاء کی قیمتیں ان سکوں میں ادا کی جاتی ہیں لیکن جب حضور نے جان کی قیمت اونٹوں کی شکل میں ادا کرنے کا حکم دیا تو امام ابوحنیفہ نے اس روایت پر عمل پیرا ہوکر ان کے سوا کسی اور صورت میں دیت کی ادائیگی کو واجب نہیں کیا۔ واللہ اعلم۔ اہل کفر کی دیتیں امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد، زفر، عثمان البتی ، سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ کافر کی دیت ، مسلمان ، یہودی ، عیسائی ، معاہد اور ذمی کی دیت کی طرح ہے اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ اہل کتاب کی دیت مسلمان کی دیت کا نصف ہے مجوسی کی دیت آٹھ سودرہم ہے اور ان کی عورتوں کی دیت اس کا نصف ہے امام شافعی کا قول ہے کہ یہودی اور عیسائی کی دیت ایک دیت کا تہائی ہے مجوسی کی دیت آٹھ سودرہم ہے اور عورتوں کی دیت اس سے آدھی ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ دیتوں میں مسلمانوں کے ساتھ ان کی مساوات کی دلیل یہ قول باری ہے (ومن قتل مومنا خطاتحریر رقبۃ ۔۔ تا۔۔۔۔ ان یصدقوا۔۔۔ تا۔۔۔ قول باری (وان کان من قوم بینکم وبینھم میثاق فدیۃ مسلمۃ الی اھلہ) دیت مال کی ایک معلوم مقدار کا نام ہے جو ایک آزاد کی جان کے بدل کے طور پر اد ا کی جاتی ہے۔ اسلام سے پہلے اور اسلام آنے کے بعد دیتیں لوگوں میں متعارف اور معلوم تھیں مومن کو خطا قتل کردینے کی صورت میں قول باری کے اندر کلام ان ہی دیات کی طرف راجع ہوا پھر جب قول باری (وان کان من قوم بینکم وبینھم میثاق فدیۃ مسلمۃ الی اھلہ) کا اس پر عطف ہوا تودیت سے مراد بھی وہی دیت ہوئی جس کا ابتداء میں ذکر ہوا تھا کیونکہ یہ اگر مراد نہ ہوتی تو یہ دیت نہ کہلاتی اس لیے کہ دیت جان کے بدل کی ایک معلوم مقدرا کا نام ہے جس میں نہ اضافہ ہوسکتا ہے نہ کمی۔ لوگ اس سے قتبل ہی دیتوں کی مقدار کے متعلق جانتے تھے انہیں مسلمان اور کافر کی دیتوں کے درمیان کسی فرق کا علم نہیں تھا، اس لیے یہ ضروری ہوگیا کہ کافر کے لیے جس دیت کا ذکر ہے یہ وہی دیت ہو جس کا مسلمان کے لیے ذکر ہوا ہے اور قول باری (فدیۃ مسلمۃ الی اھلہ) اس کی طرف راجع ہو جس طرح مسلمان کے لیے دیت کے ذکر سے یہ سمجھا گیا تھ ا کہ اس سے مراد ہی دیت ہے جو لوگوں کے درمیان معلوم ومتعارف تھی۔ اگر بات اس طرح نہ ہوتی توپھریہ لفظ مجمل ہوتا اور اسے بیان وتفصیل کی ضرورت ہوتی جب کہ اس کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ اگریہ کہاجائے کہ قول باری (فدیۃ مسلمۃ الی اھلہ) اس پر دلالت نہیں کرتا کہ کافر کی دیت مسلمان کی دیت کی طرح ہوتی ہے جس طرح اس کی اس پر بھی دلالت نہیں ہے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت سے آدھی ہوتی ہے اور یہ بات عورت کو اس حکم سے خارج نہیں کرتی کہ اس کی بھی پوری دیت ہو۔ اس اعتراض کے جواب میں کہاجائے گا کہ معترض نے جو نکتہ اٹھایا ہے وہ دو وجوہ کی بنا پر غلط ہے اول یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آیت میں صرف مرد کا ذکر کیا ہے چناچہ ارشاد ہے ، (ومن قتل مومنا خطا) پھر فرمایا (وان کان من قوم بینکم وبینھم میثاق فدیۃ مسلمۃ الی اھلہ) ۔ جس طرح اس ارشاد کا تقاضا ہے کہ مسلمان کے لیے پوری دیت ہو اسی طرح یہ معاہد کے لیے بھی کمال دیت کا مقتضی ہے کیونکہ لفظ کے لحاظ سے دونوں ایک جیسے ہیں ، اور اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ لوگوں میں دیت کی مقدار متعارف ومعلوم تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عورت کی دیت پر دیت کے اسم کا اطلاق نہیں ہوتا اس کو دیت کا لفظ علی الاطلاق شامل نہیں ہوتا کہ بلکہ مقید صورت میں شامل ہوتا ہے آپ نہیں دیکھتے کہ عورت کی دیت کے لیے مطلق لفظ دیت صرف اس دیت پر محمول ہوتا ہے کہ جو لوگوں میں معلوم ومتعارف تھی اور وہ تھی پوری دیت اگر یہ کہاجائے کہ قول باری (وان کان من قوم بینکم بینھم میثاق) میں یہ احتمال ہے کہا اس سے وہ مومن مقتول مراد ہو جس کا تعلق مسلمانوں سے معاہدہ رکھنے والی قولم سے ہو، یہاں ایمان کا اس لیے ذکر نہیں کہ اس سے پہلے دوقسم سے مقتولوں کے سلسلے میں اس کا ذکر ہوچکا تھا اسلیے تیسرے قسم کے مقتول کے لیے اسے ضروری سمجھانہ گیا اور پہلے دو کے ساتھ اس کے ذکر پر اکتفا کرلیا گیا۔ اس کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ کئی وجوہ کی بنا پر یہ تاویل غلط ہے اول یہ کہ خطاب کی ابتدا میں خطا قتل ہونے والے مومن اور اس کے حکم کا ذکر ہے ۔ اس میں جو عموم ہے وہ تمام اہل ایمان کی شمولیت کا مقتضی ہے الایہ کہ کسی دلیل کی بنا پر بعض صورتیں مخصوص ہوجائیں اس لیے آیت کے سیاق میں اس حکم کے لیے مومن کے ذکراعادہ درست نہیں ہے جب کہ آیت کا اول حصہ اسے اورا سکے غیر دونوں کو شامل ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ یہاں وہ مومن مراد نہیں ہے جس کا تعلق اس قوم سے ہو جس کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہو، دوم یہ کہ جب اس مقتول کو ایمان کے ذکر سے مقید نہیں کیا گیا تو سب کے لیے اس کے حکم کا اجر واجب ہوگیا یعنی اہل ایمان اور ہم سے معاہدہ کرنے والی قوم کے کفار سب اس میں شامل ہوگئے۔ اس لیے دلالت کے بغیر اس حکم کو صرف اہل ایمان کے ساتھ خاص کردینا اور اہل کفر کو اس میں شامل نہ کرنا درست نہیں ہے، سوم یہ کہ علی الاطلاق یہ کہا گیا ہے کہ مقتول کا تعلق معاہدین سے ہو جو اس بات کا مقتضی ہے کہ مقتول بھی اپنی قوم کی طرف ایک کافر معاہدہوگا۔ آپ نہیں دیکھتے جب کوئی شخص کسی کے متعلق یہ کہے کہ فلاں شخص کا تعلق اہل ذمہ سے ہے جو اس سے جو مفہوم سمجھ میں آئے گا وہ یہی ہوگا کہ یہ شخص بھی اہل ذمہ جیسا ذمی ہے۔ ظاہر قول باری (وان کان من قوم بینکم وبینھم میثاق) اس مفہوم کا موجب ہے کہ مقتول بھی اپنی قوم جیسا معاہد ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس مقتول کا حکم بیان فرماناچاہا جو مومن ہونے کے ساتھ ساتھ مشرکین کا رشتہ دار بھی ہو تو فرمایا (فان کان من قوم عدولکم وھو مومنتحریر رقبۃ مومنۃ) اگر مقتول کا تعلق تمہاری دشمن قوم سے ہو اور وہ خود مومن ہو تو ایک مومن غلام آزاد کرنا ہوگا) ۔ یہاں مقتول کے ذکر کو لفظ سے مقید کردیا گیا ، اسے اگر مطلق رکھاجاتاتو اس سے یہی مفہوم ہوتا کہ مقتول اپنی قوم جیسا کافر شخص ہے۔ چہارم یہ کہ اگر معترض کی تاویل درست ہوتی تو اس صورت میں مقتول کے خاندان کو دیت حوالے کرنا درست نہ ہوتا کیونکہ اس کے اہل خاندان کافر ہوتے جو اس کے وارث نہیں بن سکتے تھے اس طرح مذکورہ بالاتمام وجوہ معترض کی اس تاویل کے فسادات اور دیت کی مساوات کی مقتضی ہیں۔ ہمارے اصحاب کے قول کی صحت پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جسے محمد بن اسحاق نے داؤد بن الحصین سے ، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ جب قول باری (فان جاوک فاحکم بینھم) تاآخر آیت کا نزول ہواتو اس وقت صورت حال یہ تھی کہ اگر بنونضیر بنوقریظہ کے کسی شخص کو قتل کردیتے تونصف دیت ادا کرتے اور اگر بنوقریظہ بنونضیر کے کسی شخص کو ہلاک کردیتے تو پوری دیت ادا کرتے ، حضور نے دیت کے حکم میں ان سب کو یکساں قرار دے دیا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ روایت کے الفاظ ، ادوالدیۃ، (دیت ادا کردیتے) نیز سوی بینھم فی الدیۃ) آپ نے دیت کے حکم میں ان سب کو یکساں قرار دے دیا) میں اس دیت کی طرف اشارہ ہے جو پہلے سے معلوم تھی اور جس کے ذکر کے ساتھ کلام کی ابتداء کی گئی تھی ، یعنی پوری دیت اگر حضور نے بنوقریظہ کو نصف دیت کی طرف لوٹادیا ہوتا تو روایت کے الفاظ یہ ہوتے کہ آپ نے نصف دیت کے حکم میں ان دونوں قبیلوں کو یکساں قرار دے دیا۔ دیت میں یکساں قرار دینے کے الفاظ نہ ہوتے۔ اس پر حضور کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے کہ (فی النفس مائۃ من الابل) یہ حکم کافر اور مسلمان دونوں کو عام ہے مقسم نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ حضور نے قبیلہ بنوعامر کے دومقتولوں کی دیت دوآزاد مسلمانوں کی دیت کے برابر ادا کرنے کا حکم دیاجب کہ یہ دومقتول مشرک تھے۔ محمد بن عبدوس نے روایت بیان کی ہے کہ انہیں علی بن الجعد نے انہیں ابوبکر نے یہ سنایا کہ میں نے نافع کو حضرت ابن عمر کے واسطے سے حضور سے یہ روایت کرتے سنا ہے کہ آپ نے ایک ذمی کی دیت ایک مسلمان کی دیت کے برابر ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ دونوں روایتیں مسلمان اور کافر کی دیتوں کی مساوات کی موجب ہیں کیونکہ یہ بات تو واضح ہے کہ حضور نے مذکورہ بالا مقتولین کی دیت کی ادائیگی کا حکم آیت (وان کان من قوم بینکم وبینھم میثاق فدیۃ مسلمۃ الی اھلہ) کے بموجب دیا ہوگا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ دیت مسلمان کی دیت کی طرح تھی اور چونکہ آیت میں دیت کی مقدار بیان نہیں ہوئی ہے اس لیے حضور کا یہ اقدام آیت میں مذکورہ دیت کے لیے بیان اور وضاحت کی حیثیت کا حامل ہوگا اور یہ اصول ہے کہ جب حضور کا کوئی فعل کسی وارد حکم کے بیان اور وضاحت کی حیثیت کا حامل ہوتوا سے وجوب پر محمول کیا جائے گا۔ امام ابوحنیفہ نے ہیثم سے ، انہوں نے ابوالہیثم سے روایت کی ہے کہ حضور ، حضرت ابوبکر ، حضرت عمر، اور حضڑت عثمان سب کے سب اس بات کے قائل تھے کہ معاہد کی دیت کی تعداد وہی ہے جو ایک آزاد مسلمان کی دیت ہے۔ ابراہیم بن سعد نے ابن شہاب زہری سے روایت کی ہے حضرت ابوبکر حضرت عمر اور حضرت عثمان یہودیوں اور نصرانیوں کی دیت جب وہ معاہدے ہوتے مسلمان کی دیت کے برابر قرار دیتے تھے۔ سعید بن ایوب نے بیان کیا ہے کہ انہیں یزید بن ابی حبیب نے روایت کی ہے کہ انہیں جعفر بن عبداللہ بن الحکم نے خبردی ہے کہ رفاعہ سموء ل نامی یہودی شام میں قتل ہوگیا حضڑت عمر نے اسکی دیت میں ایک ہزار دینار دینے کا حکم دیا تھا۔ محمد بن اسحاق نے ابان بن صالح سے ، انہوں نے مجاہد سے ، انہوں نے حضرت ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ اہل کتاب کی دیت مسلمانوں کی دیت کی طرح ہے علقمہ، ابراہیم نخعی ، مجاہد، عطاء، اور شعبی کا بھی یہی قول ہے۔ زہری نے سالم سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے ایک مسلمان نے ایک کافر معاہدہ کو قتل کردیا ، حضرت عثمان نے اس پر ایک مسلمان کی دیت کے برابر دیت کے لزوم کا فیصلہ دیا۔ یہ تمام روایات اور سلف کے مذکورہ بالا اقوال جو ظاہر آیت کے موافق ہیں دیتوں کے مسئلے میں مسلمان اور کافروں کے درمیان مساوات کے موجب ہیں سعید بن مسیب سے مروی ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا تھا، یہودی اور نصرانی کی دیت کی مقدار چار ہزار درہم ہے اور مجوسی کی دیت کی مقدار آٹھ سودرہم ہے۔ سعید کا قول ہے کہ حضرت عثمان نے معاہد کی دی ت کی مقدار کے سلسلے میں چارہزار درہم کا فیصلہ دیا تھا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ دیتوں کے سلسلے میں ان حضرات سے اس کے خلاف بھی روایات منقول ہیں جن کا ہم نے ذکر کردیا ہے۔ اس مسئلے میں ہم سے اختلاف رکھنے والے حضرات کا اس روایت سے استدلال ہے جو عمرو بن شعیب نے اپنے والد کے واسطے سے اپنے دادا سے کی ہے کہ جب حضور فتح مکہ کے موقع پر مکہ میں داخ (رح) ہوئے تو آپ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کافر کی دیت مسلمان کی دیت کا نصف ہے ۔ اسی طرح اس روایت سے بھی استدلال ہے جو عبداللہ بن صالح نے بیان کی ہے انہیں ابن لہیعہ نے یزید نے ابی حبیب سے ، انہوں نے ابوالخیر سے ، انہوں نے حضرت عقبہ بن عامر سے کہ حضور نے فرمایا (دیۃ المجوس ثمان مائۃ ، مجوسیوں کی دیت کی رقم کی مقدار آٹھ ہزار ہے) ۔ ان کے جواب میں کہاجائے گا کہ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ مکہ مکرمہ میں حضور کے خطبے کو وہ صحابہ کرام بھی سن رہے تھے جن سے ہم نے دیت کی مقدار کی روایت کی ہے ، اگر مذکورہ بالا روایت کی بات درست ہوتی تو ان صحابہ کرام کو بھی یہ ضرور معلوم ہوتی جس کے نتیجے میں یہ حضرات اس بات کو چھوڑ کر کسی اور بات کو قبول نہ کرتے۔ نیز حضور سے مروی ہے کہ معاہد کی دیت مسلمان کی دیت کی طرح ہے ، نیز آپ نے بنوعامر کے دومقتولوں کی دیت دوآزاد مسلمانوں کی دیت کے برابر ادا کرنے کا حکم دیا تھا، یہ روایت اولی ہے کہ کیونکہ اس میں ایک زائد بات کا اظہار ہے۔ جب دوروایتوں میں تعارض ہوجائے تو ایسی صورت میں وہ بات اولی ہوگی جس کا ظاہر کتاب اللہ مقتضی ہوگا اور جس کی موافقت میں حضور سے تواتر کے ساتھ روایتیں نقل کی گئی ہوں گی، اور وہ یہ ہے کہ (الدیۃ مائۃ من الابل) اس میں مسلمان اور کافر کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے اس لیے دیتوں میں ان دونوں کا یکساں ہوناواجب قرار پایا۔ رہ گئی حضرت عقبہ بن عامر سے منقول روایت جو مجوسیوں کی دیت کے متعلق ہے تو اس کے جواب میں یہ کہاجائیگا کہ اس کے ایک راوی ابن لہیہ کی بنا پر یہ روایت انتہائی ضعیف ہے اور اس جیسی روایت قابل استدلال نہیں ہے ابن لہیعہ سے عبداللہ بن صالح نے جو روایتیں کی ہیں وہ خصوصی طور پر انتہائی ضعیف ہیں۔ اس سلسلے میں ابوعیاض سے جو روایت ہے وہ حضرت ابن عباس سے منقول روایت جیسی ہے قتادہ کا قول ہے کہ اس سے مراد وہ مسلمان ہے جو کافروں کے درمیان رہتاہو اور اسے کوئی مسلمان قتل کردے اور قاتل کو اس کے متعلق کوئی علم نہ ہو، اس صورت میں ایک غلام آزاد کیا جائے گا اور دیت واجب نہیں ہوگی، یہ بات اس صورت پر محمول ہے کہ وہ شخص دارالاسلام کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے قتل ہوجائے۔ مغیرہ نے ابراہیم سے اس آیت کے متعلق روایت کی ہے کہ اس سے مراد وہ مومن ہے جو قتل ہوجاتا ہے اور اس کی قوم مشرک ہوتی ہے اور حضور کے ساتھ ان کا کوئی معاہدہ نہیں ہوتا، ایسی صورت میں قاتل ایک غلام آزاد کرے گا، اگر حضور کے ساتھ ان کا معاہدہ ہو تو اس صورت میں قاتل اس کی دیت ان رشتہ داروں کو اداکرے گاجوحضور کے ساتھ معاہدے میں شریک ہوں گے۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ یہ ایک بےمعنی تاویل ہے اس کی وجہ یہ ہے مقتول کے رشتہ دار کافر ہونے کی بنا پر اس کے وارث نہیں ہوسکیں گے تو وہ اس کی دیت کیسے لے سکیں گے اور اگر اس کی قوم اہل حرب یعنی مسلمانوں سے برسرپیکار ہو اور یہ خود دارالاسلام کا باشندہ ہو تو اس صورت میں اس کی دیت بیت المال کے لیے واجب ہوگی ، جس طرح ایک مسلمان دارالاسلام میں قتل ہوجائے اور اس کا کوئی وارچ نہ ہوتوایسی صورت میں اس کی دیت بیت المال کو ادا کی جائے گی۔ ایک مسلمان دارلحرب میں رہتا ہو اورہماری طرف ہجرت کرنے سے پہلے قتل ہوجائے اس کے متعلق فقہاء امصار کے درمیان اختلاف رائے ہے امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف کا مشہور روایت کی رو سے ۔ نیز امام محمد کا قول ہے کہ ایک حربی اگر مسلمان ہوجائے اور ہماری طرف ہجرت کرنے سے پہلے دارالحڑب میں امن لے کرجانے والے کسی مسلمان کے ہاتھوں قتل ہوجائے تو قتل خطا کی صورت میں قاتل پر کفارہ کے سوا اور کوئی چیز عائد نہیں ہوگی۔ اگردو مسلمان امن لے کردارلحرب میں داخل ہوجائیں اور ایک کے ہاتھوں دوسراقتل ہوجائے تو قتل عمد اور قتل خطا دونوں صورتوں میں قاتل پر دیت عائد ہوگی اور قتل خطا کی صورت میں کفارہ بھی ادا کرنے پڑے گا، اگر یہ دونوں قیدی بن کر دارلحرب پہنچ جائیں اور پھر ایک کے ہاتھوں دوسرا قتل ہوجائے تو اس صورت میں امام ابوحنیفہ کے قول کے مطابق قتل خطا میں قاتل پر صرف کفارہ لازم آئے گا۔ امام ابویوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ قاتل پر قتل خطا اور عمد دونوں میں دیت لازم ہوگی، بشر بن الولید نے امام ابویوسف سے روایت کی ہے کہ ایک حربی دارالحرب میں مسلمان ہوجاتا ہے اور ہماری طرف آنے سے پہلے کسی مسلمان کے ہاتھوں قتل ہوجاتا ہے توقاتل پر استحسانا دیت لازم ہوگی۔ اگر وہ نومسلم مسلمان کے کھودے ہوئے کنویں میں گر کریا اس کے بنائے ہوئے پرنالے کے نیچے دب ک رہلاک ہوجاتا ہے تو ان صورتوں میں وہ کوئی تاوان ادا نہیں کرے گا، لیکن یہ روایت نہ صرف امام ابویوسف کے مشہور قول کے خلاف ہے بلکہ خلاف قیاس بھی ہے ، امام مالک کا قول ہے کہ جب کوئی شخص دارالحرب میں مسلمان ہوجائے اور پھر ہمارے ملک میں انے سے پہلے قتل ہوجائے تو قتل خطا کی صورت میں قاتل پر دیت اور کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔ امام مالک کا قول ہے کہ آیت (فان کان من قوم عدولکم وھو مومنتحریر رقبۃ مومنہ) کا تعلق اس صلح کے ساتھ ہے جو حضور اور اہل مکہ کے درمیان ہوئی تھی کیونکہ جو شخص ہجرت نہیں کرتا وہ وارث قرار نہیں پاتا۔ لوگ ہجرت کی بنا پر ایک دوسرے کے وارث قرار پاتے تھے ، ارشاد باری ہے (والذین امنواولم یھاجروا مالکم من ولایتھم من شئی حتی یھاجرو، جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت نہیں کی توجبتک وہ ہجرت کرکے نہ آجائیں ان سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے) ۔ اسی طرح ہجرت نہ کرنے والے مسلمان کے کوئی ورثاء نہ ہوتے جو اس کی وراثت کے مستحق قرار پاتے اس لیے مقتول ہونے کی صورت میں اس کی دیت واجب نہ ہوتی) ۔ پھریہ حکم قول باری (والوالارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب الل) کی بنا پر منسوخ ہوگیا ۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ جو شخص دشمن کی سرزمین میں مقیم رہے خواہ اس نے دین اسلام کیوں نہ قبول کرلیاہو، لیکن قدرت کے باوجود وہ مسلمانوں کے علاقے کی طرف نقل مکانی نہیں کرتا تو اس کے بارے میں احکامات وہی ہوں گے جو مشرکین کے متعلق ہیں۔ اور جب کوئی حربی مسلمان ہوکراہل حرب کے علاقے میں مقیم رہے جبکہ اسے نقل مکانی کی قدرت حاصل ہوتویہ مسلمان نہیں کہلائے گا، اور اس کی جان ومال پر وہی احکام نافذ ہوں گے جو اہل حرب کی جان ومال پر نافذ ہوتے ہیں۔ حسن کا قول ہے جب کوئی مسلمان دارالحرب میں چلاجائے تو خواہ وہ اسلام سے ارتداد اختیار نہ بھی کرے ، دارالاسلام کی سکونت ترک کرنے کی بنا پر وہ مرتد شمار ہوگا، امام شافعی کا قول ہے کہ جب کوئی مسلمان کسی مسلمان کو جنگ یاحملے کے دوران دارالحرب میں قتل کردے اور اسے اس کے اسلام کے متعلق کوئی علم نہ ہوتوایسی صورت میں قاتل پر نہ تودیت لازم آئے گی، اور نہ ہی قصاص ۔ البتہ اسے کفارہ ادا کرنا ہوگاخواہ وہ مسلمان قیدی کی صورت میں وہاں ہویا امن لے کر وہاں گیاہویاوہاں مسلمان ہوگیا ہو لیکن اگر قاتل کو اس کے مسلمان ہونے کا علم ہو اورپھروہ اسے قتل کردے تو اس صورت میں اس سے قصاص لیاجائے گا۔ فقہاء کے ان اقوال پر تبصرہ کرتے ہوئے ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ زیر بحث آیت میں مقتول سے مراد یا تو وہ حربی ہے جو دارلحرب میں مسلمان ہوجاتا ہے اور پھر ہماری طرف ہجرت کرکے چلے آنے سے پہلے ہی قتل ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ ہمارے اصحاب کا قول ہے یا اس سے مراد وہ مسلمان ہے جس کی اہل حرب کے ساتھ رشتہ داریاں ہوں اس لیے کہ قول باری (فان کان من قوم عدولکم) میں ان دونوں معانی کا احتمال موجود ہے ، یعنی یہ مقتول اہل دارلحرب سے بھی ہوسکتا ہے اور دارلحرب کا رشتہ دار بھی ہوسکتا ہے۔ اگرہم ظاہر آیت کوا سکی اصلی حالت پر رہنے دیتے ہیں تو اس مسلمان مقتول کی دیت ضرورساقط کردیتے جودارالاسلام میں قتل ہوتا اور دارلحرب میں اس کے رشتہ دار موجود ہوتے اس لیے کہ ظاہری آیت کا یہی تقاضا ہے لیکن چونکہ اہل اسلام کا ا س پر اتفاق ہے کہ ایسا شخص اگر دارالاسلام میں قتل ہوجائے تودارالحرب میں اس کے رشتہ داروں کی موجودگی اس کی دیت یاقصاص کے سلسلے میں عائد ہونے والے حکم کو ساقط نہیں کرتی۔ اس لیے آیت سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ اس سے مراد وہ مسلمان مقتول ہے جو دارالحرب کا باشندہ ہو اورا بھی تک ہجرت کرکے ہمارے علاقے میں پہنچ نہ گیا ہو۔ اس کے قاتل پر قتل خطا کی وجہ سے کفارہ لازم آئے گا، دیت لازم نہیں آئے گی، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے مقتول کے سلسلے میں کفارہ واجب کیا ہے دیت واجب نہیں کی۔ کیونکہ کسی نص میں کسی اور نص کے بغیر اضافہ جائز نہیں ہوتا اس کی وجہ یہ ہے کہ نص میں اضافہ اس کے نسخ کا موجب ہوتا ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ اپ نے قول باری (ومن قتل مومنا خطا) کی بنا پر دیت کیوں واجب نہیں کی تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ زیر بحث آیت میں مذکورہ اس مومن سے مراد وہ مومن لیناہرگز درست نہیں ہے جس کا ذکر آیت کی ابتداء میں ہوا ہے۔ اس لیے کہ اس میں دیت اور غلام کی آزادی دونوں کا ایجاب ہے اس لیے اس پر عطف کرکے یہ شرط لگانا ممتنع ہے کہ وہ اہل دارالحرب میں سے ہو پھر اس میں ہم غلام آزاد کرنا واجب کردیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے اول خطاب میں شروع ہی سے دیت کے ساتھ اسے بھی واجب کردیا ہے۔ نیز قول باری (فان کان من قوم عدولم وھو مومن) نئے سرے سے ایک کلام کی ابتداء ہے جس کا خطاب میں پہلے ذکر نہیں گزرا ہے اس لیے یہ کہنادرست نہیں ، اعط ھذارجلا وان کان رجلا فاعطفہ ھذا) یہ چیز کسی آدمی کودے دو ، اور اگر آدمی ہوتویہ چیز اسے دے دو ) یہ ایک فاسد کلام ہے جسے کوئی حکم اور دانا انسان اپنی زبان سے ادا نہیں کرسکتا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ زیر بحث آیت میں مذکورہ مومن جسے پہلے مومن پر معطوف کیا گیا ہے وہ خطاب کے اول حصے میں داخل نہیں ہے۔ اس پر سنت کی جہت سے بھی دلالت ہورہی ہے ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی انہیں ابوداؤد نے ، انہیں ہناد بن السری نے ، انہیں ابومعاویہ نے اسماعیل سے ، انہوں نے حضرت جریر بن عبداللہ سے کہ حضور نے قبیلہ خثعم کی طرف مسلمانوں کی ایک فوج روانہ کی ان میں سے کچھ لوگوں نے سجدہ میں پڑکر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی لیکن انہیں قتل کرنے کا سلسلہ تیز رہا۔ یہ بات حضور کو جب پہنچی تو آپ نے ان مقتولین کی آدھی آدھی دیتیں ادا کرنے کا حکم دیا، اور ساتھ ہی فرمایا (انا بری من کل مسلم یقیم بین اظھر المشرکین ، میں ہراس مشرکین سے بری الذمہ ہوں جس نے مشرکین کے درمیان سکونت اختیار کررکھی ہو) ۔ صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ ، وہ کس طرح ؟ آپ نے فرمایا لاتری نارھما) مسلمان اور مشرک کے گھروں میں جلنے والی آگ کی روشنی ایک دوسرے کو نظر نہ آئے، گویا جب فاصلہ اتنا ہوگا توسمجھا جائیگا کہ مسلمان مشرک کے ساتھ اقامت گزیں نہیں ہے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں محمد بن علی بن شعیب نے ، انہیں ابن عائشہ نے ، انہیں حماد بن مسلمہ نے حجاج سے، انہوں نے اسماعیل سے ، انہوں نے قیس سے ، انہوں نے حضرت جریر بن عبداللہ سے کہ حضور نے فرمایا : (من قام مع المشرکین فقد برات منہ الذمہ اوقال لاذمۃ لہ، جو مسلمان مشرکین کے ساتھ قیام پذیر ہو اس سے ہم بری الذمہ ہیں یایوں فرمایا اس سے ہماری ذمہ داری ختم ہوگئی۔ اس حدیث کے ایک راوی بن عائشہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو مسلمان ہوجانے کے بعد بھی مشرکین کے ساتھ قیام پذیرہوتا ہے اگر ان مشرکین پر مسلمانوں کے حملے کے دوران وہ قتل ہوجائے تو اس کی دیت نہیں ہوگی، اس لیے حضور کا ارشاد ہے ، اس سے ہماری ذمہ داری ختم ہوگئی۔ اس روایت کے الفاظ (انابری منہ) اس پر دلالت کرتے ہیں کہ ایسے آدمی کے خون کی کوئی قیمت نہیں ہے جس طرح اہل حرب کے خون کی مسلمانوں پر کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی، حضور نے پہلی روایت کے بموجب آدھی دیت ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یاتوہوسکتی ہے جس مقام پر ان لوگوں کو قتل کیا گیا تھا، اس کے متعلق یہ شک تھا کہ آیایہ دارالسلام کے علاقے کے اندر ہے یادارالحرب کے یا یہ وجہ ہوسکتی ہے کہ حضور نے تبرع اور نیکی کے طور پر ایسا کرنے کا حکم دیا اس لیے اگر پوری دیت واجب ہوتی تو آپ نصف دیت ادا کرنے کا ہرگز حکم نہ دیتے۔ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی، انہیں عبداللہ بن احمد بن حنبل نے ، انہیں شیبان نے ، انہیں سلیمان بن المغیرہ نے ، انہیں حمید بن ہلال نے کہ میرے پاس ابوالعالیہ اور میرے ایک دوست دونوں آئے ہم اٹھ کر بشیر بن عاصم لیثی کے پاس پہنچے ابوالعالیہ نے ان سے خطاب کر کے فرمایا کہ ان دونوں کو حدیث سنائیے۔ اس پر بشیر نے کہا مجھے یہ روایت عقبہ بن مالک لیثی نے سنائی ہے ان کا تعلق بشر کے خاندان سے تھا، روایت یہ ہے کہ حضور نے ایک دستہ روانہ کیا، اس نے ایک گروہ پر حملہ کردیا۔ اس گروہ میں سے ایک آدمی الگ ہوگیا، مسلمانوں کے دستے کا ایک آدمی تلوار لے کر اس کے پیچھے چل پڑا، جب اس نے تلوار لہرائی تو پیچھے رہ جانے والاشخص کہنے لگا کہ میں مسلمان ہوں۔ لیکن اتنی دیر تک مسلمان کی تلوار کی وار اس پرپڑچ کی تھی، چناچہ وہ قتل ہوگیا، یہ بات حضور کے علم میں لائی گئی تو آپ نے سخت کلمات فرمائے، قاتل نے یہ سن کر عرض کیا اس نے صرف قتل سے بچنے کے لیے یہ الفاظ کہے تھے ، حضور نے یہ سن کر کئی مرتبہ اس شخص کی طرف سے اپناچہرہ مبارک دوسری طرف کرلیا، اس وقت چہرے پر ناگواری کے آثار واضح طور پر نظر آرہے تھے اور پھر فرمایا، ان اللہ ابی علی ان قتل مومنا، اللہ تعالیٰ نے اس بات سے انکار کردیا ہے کہ میرے ہاتھ سے کوئی مسلمان قتل ہوجائے) آپ نے یہ فقرہ تین بار دہرایا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس روایت میں حضور نے مقتول کے ایمان کی خبر دے دی لیکن قاتل پر دیت واجب نہیں کی اسلیے کہ مقتول حربی تھا اس نے اسلام لانے کے بعد ہماری طرف ہجرت نہیں کی تھی۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ہے انہیں ابوداؤد نے ، انہیں حسن بن علی اور عثمان بن ابی شیبہ نے ان دونوں کو یعلی بن عبید نے اعمش سے ، انہوں نے ابوظبیاں سے ، انہیں حضرت اسامہ بن زید نے بتایا کہ حضور نے قبیلہ جہینہ کے علاقے کے ایک مقام حرقات کی طرف ہمیں ایک دستے کے ساتھ روانہ کیا۔ دشمنوں نے ہمارے مقابلے کی ٹھانی لیکن بھاگ کھڑے ہوئے ہمیں ان کا ایک آدمی ہاتھ آگیا جب ہم نے اسے قابو کرلیاتو اس نے کلمہ پڑھنا شروع کردیا لیکن ہم نے اسے مار مار کر ہلاک کردیا۔ جب میں نے حضور سے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا، قیامت کے دن اس مقتول کے پڑھے ہوئے کلمہ ، لاالہ الا اللہ کا تمہاری طرف سے کون ذمہ اٹھائے گا) ۔ میں نے عرض کیا کہ اس نے ہمارے ہتھیاروں سے ڈر کر یہ کہا تھا، آپ نے یہ سن کر فرمایا پھر تم نے اس کا دل پھاڑ کر کیوں نہیں دیکھا تمہیں معلوم ہوجاتا کہ اس نے اپنے بچاؤ کی خاطر یہ کہا تھا یابچاؤ کی خاطر نہیں کہا تھا، قیامت کے دن اس کے لاالہ الا اللہ کا تمہاری طرف سے کون ذمہ دار ہوگا) ۔ حضور یہ کلمات بار بار دہراتے رہے حتی کہ میری تمنایہ ہوئی کہ کاش، میں آج ہی مسلمان ہواہوتا، یہ روایت بھی ہمارے قول پر دلالت کرتی ہے کہ کیونکہ نبی کریم نے حضرت اسامہ پر کوئی چیز واجب نہیں کی تھی۔ یہ روایت امام شافعی پر حجت ہے ان کا قول ہے کہ اگر مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو دارالحرب کے اندر یہ جانتے ہوئے قتل کردے گا کہ وہ مسلمان سے ، اس پر قصاص واجب ہوگا، اس حدیث میں مذکورہ واقعہ اس قول کے خلاف ہے، اس لیے کہ حضور نے اس مقتول کے مسلمان ہونے کی خبر دی لیکن حضرت اسامہ پر نہ تودیت واجب کی اور نہ ہی قصاص ، رہ گیا امام مالک کا یہ قول کہ آیت (فان کان من قوم عدولکم ) میں اس شخص کا ذکر ہے جس نے مسلمان ہونے کے بعد ہجرت نہ کی ہو اور اب یہ حکم قول باری (واولوالارحام بعضھم اولی ببعض ) کی وجہ سے منسوخ ہوچکا ہے۔ تویہ کسی دلالت کے بغیر قرآن کے ایک ثابت حکم کے نسخ کا محض دعوی ہے ، جبکہ ہجرت کی بنا توارث کے حکم کی منسوخی اور رشتہ داری کی بنا پر اس کا اثبات اس حکم کے نسخ کا موجب نہیں بن سکتا بلکہ یہ حکم ازخود ثابت وقائم ہے، میراث کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں ہجرت کی بنا پر توارث کے حکم کے نافذ العمل ہونے کے دوران ایسے رشتہ دار بھی ہوتے تھے جو ہجرت نہ کرنے کے باوجود بھی ایک دوسرے کے وارث بن جاتے تھے۔ ہجرت صرف مہاجر اور غیر مہاجر کے درمیان میراث کے خاتمے کا عمل کرتی تھی، رہ گئے وہ لوگ جو ہجرت کرکے نہیں آئے تھے وہ دوسرے اسباب کی بنا پر ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے۔ اگرصورت حال امام مالک کے قول کے مطابق ہوتی تو پھر مقتول کی دیت اس کے ان رشتہ داروں کو ادا کرنا واجب ہوتا جو ہجرت کرکے نہیں آئے تھے کیونکہ یہ بات تو واضح ہے ، کہ جو لوگ ہجرت کرکے نہیں آئے تھے، ان کی میراث یونہی بےکاری پڑی رہنے نہیں دی جاتی تھی ، کہ اس کا مستحق ہی کوئی نہ ہو۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہجرت سے قبل قتل ہوجانے والے کی دیت نہ تو اس کے مہاجر رشتہ داروں کو دیناواجب کیا اور نہ ہی غیر مہاجر رشتہ داروں کو تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ مقتول ابھی تک اہل حرب کے حکم میں تھا، اور اس لیے اس کے خون کی کوئی قیمت نہیں تھی۔ قول باری (فان کان من قوم عدولکم) سے بھی یہی بات معلوم ہورہی ہے کہ جب تک وہ ہجرت کرکے تمہارے پاس نہ آجائے اس وقت تک اس کا شمار اہل حرب میں سے ہوگا، اور وہ اپنے پہلے حکم پر باقی رہے گا، جو یہ ہے کہ اس کے خون کی کوئی قیمت نہ ہوگی۔ اگرچہ اس کا خون بہانا ممنوع ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے خون کی بےقیمت ہونے کی وجہ یہ ہے کہ کافروں اور مشرکوں کی طرف اس کی نسبت بعض دفعہ اس طرح درست ہوجاتی ہے کہ وہ ان کے علاقے کا ہوتا ہے خواہ ان کے ساتھ اس کی کوئی رشتہ داری نہیں ہوتی لیکن ایک شہر یا ایک گاؤں یا ایک گوشہ ان سب کے یکجا ہونے کا سبب بن جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے اسلام لانے کے بعد بھی اس شخص کی نسبت ان ہی لوگوں کی طرف کی اس لیے کہ وہ ان کے علاقے کا باشندہ تھا، اور اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ اس کے خون کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ حسن بن صالح کا یہ قول کہ مسلمان جب دارلحرب میں چلاجائے تو وہ مرتد ہوجاتا ہے کہ کتاب اللہ اور اجماع امت کے خلاف ہے اس لیے کہ ارشاد باری ہے (والذین امنواولم یھاجروا مالکم من ولایتھم من شئی حتی یھاجرو) اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو دارالحرب میں مقیم رہنے کے باوجود اسلام لانے پر مسلمان قرار دیا، اور ہم پر ان کی نصرت واجب کردی ۔ چنانچہ فرمایا (وان استنصروکم فی الدین فعلیکم النصر، اور اگر وہ تم سے دین کے معاملے میں مدد کے طلب گار ہوں توت مپران کی مدد ضروری ہے اگر حسن بن صالح کی بات درست ہوتی تو مسلمان تاجروں کے لیے امان لے کردارلحرب میں داخل ہوناجائز نہ ہوتا اور اگر وہ داخل ہوجاتے تومرتد قرار پاتے حالانکہ یہ کسی اہل علم کا قول نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص اس روایت سے استدلال کرے جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی انہیں اسماعیل بن الفضل اور عبدون المروزی نے انہیں قتیبہ بن سعید نے انہیں حمید بن عبدالرحمن نے اپنے والد سے ، انہوں نے شعبی سے ، انہوں نے حضرت جریر سے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ (اذا ابق العبد الی المشرکین فقد حل دمہ، جب کوئی غلام بھاگ کر مشرکین کے پاس چلاجائے تو اس کا خون حلال ہوجائے گا) توہم کہیں گے ہمارے نزدیک یہ روایت اس صورت پر محمول ہے جب کوئی غلام اسلام سے ارتداد اختیار کرکے مشرکین سے جاملے۔ اس لیے کہ غلام کا اپنے آقا کے پاس سے بھاگ کھڑا ہونا اس کے خون کو مباح نہیں کرتا، اور دارالحرب میں جانکلنا ایساہی ہے جس طرح کوئی مسلمان تاجر امان کے ساتھ وہاں داخل ہوجائے۔ اس لیے دارالحرب میں جانکلنا اس کے خون کو مباح نہیں کرے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ جو مسلمان دارالحرب میں کسی مسلمان کو قتل کردے اور اسے مقتول کے متعلق کچھ علم نہ ہو تو اس پر کچھ لازم نہیں ہوگا، اور اگر ا سے مقتول کے مسلمان ہونے کا علم ہوگاتو اس سے قصاص لیاجائے گا، امام شافعی کے اس قول میں تناقض ہے کیونکہ جب یہ بات ثابت ہوجائے گی، کہ ایسے شخص کے خون کی قیمت ہے تو قتل عمد اور قتل خطا کے حکم میں اس لحاظ سے فرق نہیں ہوگا کہ دونوں صورتوں میں اس کے خون کا بدل واجب ہوگا یعنی عمد کی صورت میں قصاص اور خطا کی صورت میں دیت۔ لیکن جب خطا کی صورت میں قاتل پر کوئی چیز عائد نہیں ہوگی توپھرعمد کا حکم بھی یہی حکم ہوگا۔ گزشتہ سطور میں ہم نے جو دلائل بیان کیے ہیں ان سے جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ اسلام لانے کے بعد دارالحرب میں قیام پذیر انسان کے خون کی ہماری طرف ہجرت کرکے آجانے سے پہلے کوئی قیمت نہیں ہوتی اور وہ اس حرب کے حکم پر باقی رہتا ہے اگرچہ اسکے خون بہانے کی ممانعت ہوتی ہے۔ اس بنا پر ہمارے اصحاب نے ایسے شخص کو حربی جیسی حیثیت دے دی یعنی اس کے مال کو تلف کرنے والا کوئی تاوان نہیں بھرے گا، اس لیے کہ اس کی جان تلف کرنے والے پر کوئی تاوان نہیں تو اس کا مال تلف کرنے والے پر بطریق اولی کوئی تاوان نہیں ہوناچاہیی اور اس جہت سے اس کا مال حربی کے مال کی طرح ہوگا۔ اسی بنا پر امام ابوحنیفہ نے ایسے شخص سے اس طریقے پر لین دین کو جائز قرار دیا ہے جس طریقے پر دارالحرب میں حربی سے لین دین کیا جاتا ہے یعنی ایک درہم کے بدلے دودرہم وغیرہ۔ دارالحرب میں قید کے اندر پڑے ہوئے شخص کو امام ابوحنیفہ نے اس شخص جیسا قرار دیا ہے جو وہاں مسلمان ہوکر ہجرت کرنے سے پہلے رہتا ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں قیدی کی امامت امان کے تحت نہیں ہوتی بلکہ وہ وہاں مقہور و مغلوب ہوتا ہے۔ جب یہ دونوں اس جہت سے یکساں ہوگئے تو اس کے قاتل سے تاوان کے سقوط کا حکم بھی یکساں رہے گا، اور ان دونوں کے لحاظ سے اس حکم میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ واللہ اعلم قتل کی قسمیں اور ان کے احکامات ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قتل کی چار قسمیں ہیں ، واجب ، مباح، ممنوع، اور وہ جو نہ واجب ہو نہ مباح ہو، اور نہ ہی ممنوع۔ پہلی قسم ہے جس کا تعلق ہمارے خلاف برسرپیکار اہل حرب کے اس قتل سے ہے جو میدان جنگ میں ان کے گرفتار ہونے یا امان حاصل کرنے یا معاہدہ ہونے سے قبل وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اس قتل کا دائرہ صرف مردوں تک محدود ہوتا ہے اس میں وہ عورتیں نہیں آتیں جو جنگوں میں حصہ نہیں لیتی ہیں اور نہ ہی بچے آتے ہیں جن میں ہتھیار اٹھانے کی صلاحیت نہیں ہوتی اسی طرح ان لوگوں کو قتل کرنا بھی واجب ہے جو مسلح بغاوت پر اترآئیں اور قتل وغارت گری شروع کردیں اور پھر توبہ کرنے سے پہلے امام المسلمین کے ہاتھ آجائیں۔ اسی طرح باغیوں کو جب وہ مسلمانوں سے برسرپیکار ہوجائیں قتل کرنا واجب ہے نیز اس شخص کا قتل بھی ہم پر واجب ہے جو کسی بےگناہ انسان کو جان لینے کے درپے ہوجائے۔ اسی طرح جادوگر کا قتل ، محصن زنا کار کا رجم کے ذریعے قتل اور ہراس شخص کا قتل جو حد اور سزا کے طور پر تمام صورتیں واجب قتل کے تحت آتی ہیں۔ مباح قتل کی صورت وہ قتل ہے جو کسی مقتول کے ولی کے حق میں قصاص لینے کی بنیاد پر ہو واجب ہوتا ہے ولی کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ قاتل کو یاتوقتل کردے یا اسے معاف کردے ، اس صورت میں قتل مباح ہوتا ہے واجب نہیں ہوتا، اسی طرح اہل حرب اگر ہمارے قابو میں آجائیں تو امام المسلمین کو اختیار ہوتا ہے کہ انہیں تہ تیغ کردے یا ان کی جان بخشی کردے اسی طرح دارالحرب میں داخل ہونے والاشخص جسے کسی حربی کو قتل کردینایا اسے گرفتار کرلینا ممکن ہو وہ اسے قتل بھی کرسکتا ہے اور اگر چاہے توگرفتار بھی کرسکتا ہے۔ ممنوع قتل کی کئی صورتیں ہیں، ایک صورت وہ ہے جس میں قصاص واجب ہوتا ہے اگر کوئی شخص دارالاسلام میں کسی مسلمان کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لے اورس میں کوئی شک وشبہ نہ ہو کہ اس نے عمدا اس فعل کا ارتکاب کیا ہے تو اس میں قاتل پر قصاص واجب ہوتا ہے دوسری صورت وہ ہے جس پر قصاص واجب نہیں ہوتا بلکہ دیت واجب ہوتی ہے یہ قتل شبہ عمد ہے۔ نیز باپ کا اپنے بیٹے کو قتل کردینا، اسی طرح امن لے کردارالسلام مین آنے والی حربی کا نیز معاہد کا اور شبہ کی بنیاد پر کسی کا قتل بھی اس میں شامل ہے قتل کی ان تمام صورتوں میں قصاص ساقط ہوجاتا ہے اور دیت واجب ہوجاتی ہے تیسری صورت وہ ہے جس میں کوئی چیز واجب نہیں ہوتی اگر دارالحرب میں کوئی شخص مسلمان ہوجائے اور ہماری طرف ہجرت کرکے آنے سے پہلے قتل کردیاجائے توقاتل پر نہ قصاص واجب ہوتا ہے اور نہ دیت۔ اسی طرح امام ابوحنیفہ کے قول کے مطابق اگر دارالحرب میں کوئی مسلمان قیدی قتل ہوجائے توقاتل پر کوئی چیز عائد نہیں ہوتی ، اگر کوئی آقا اپنے غلام کو قتل کردے تو اس کا بھی یہی حکم ہے ۔ قتل کی یہ تمام صورتیں ممنوع ہیں اور ان میں قاتل پر تعزیر کے سوا اور کوئی چیز واجب نہیں ہوتی۔ قتل کی چوتھی قسم جو نہ واجب ہوتی ہے نہ مباح، اور نہ ہی ممنوع، اس کی صورتیں یہ ہیں کہ کوئی کسی کو غلطی سے قتل کردے ، یا بھول کر اس کی جان لے لے یا کوئی دیوانہ یابچہ کسی کو ہلاک کردے یا نیند کی حالت میں کوئی کسی کو مارڈالے، قتل کی اس چوتھی قسم کا حکم ہم نے سابق میں بیان کردیا ہے۔ قول باری (وان کان من قوم بینکم وبینھم میثاق فدیۃ مسلمۃ الی اھلہ، اگر مقتول کا تعلق اس قوم سے ہو جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہو تو اس کے وارثوں کو خون بہادیاجائے گا اور ایک مومن غلام آزاد کرنا ہوگا۔ حضرت ابن عباس ، شعبی، قتادہ ، اور زہری کا قول ہے کہ اس سے مراد وہ ذمی ہے جو خطا قتل ہوجائے اس کے قاتل پر دیت اور کفارہ دونوں چیزیں واجب ہوں گی، یہی ہمارے اصحاب کا بھی قول ہے ابراہیم، حسن اور جابر بن زید کے قول کے مطابق آیت سے مرادیہ ہے اگر قتل ہوجانے والامسلمان اس قوم سے تعلق رکھتاہو جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہوتودیت ادا کی جائے گی اور غلام آزاد کیا جائے گا۔ یہ حضرات ذمی کے قاتل پر کفارہ کے وجوب کے قائل نہیں ہیں، امام مالک کا یہی مسلک ہے ہم نے گذشتہ صفحات میں واضح کردیا ہے کہ ظاہر آیت اس بات کا مقتضی ہے کہ اس میں مذکور مقتول سے وہ کافر شخص مراد ہے جس کا مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ ہو نیز یہ کہ اس مقام پر کسی دلالت کے بغیر ایمان کی شرط کو مضمر کرنا درست نہیں ہے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اہل دارالحرب میں سے کسی مومن کے قتل کا حکم بیان کرنا چاہاتو ایمان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا (فان کان من قوم عدولکم وھو مومنتحریر رقبۃ مومنہ) ۔ اللہ تعالیٰ نے ا س مقتول کو ایمان کے وصف سے متصف بیان کیا اس لیے کہ اگر اس مقتول کے ذکر کو ایمان کی شرط سے مطلق رکھاجاتا تواطلاق کا تقاضا یہ ہوتا کہ مقتول کافر ہو اور اس کا تعلق ہماری دشمن قوم سے ہو۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ کافر معاہدے کے قاتل پر دیت واجب ہوتی ہے یہ بات آیت سے اخذ ہوتی ہے اس بنا پر ضروری قرار پایا کہ زیر بحث آیت میں مقتول سے کافر معاہد مراد لیاجائے۔ واللہ اعلم کیاقتل عمد میں کفارہ واجب ہوتا ہے ارشاد باری ہے (ومن قتل مومنا خطاتحریر رقبۃ مومنہ) اس آیت میں قتل خطا میں کفارہ کے ایجاب کا حکم منصوص ہے ، قتل عمد کا ذکر اس قول باری (کتب علیکم القصاص فی القتلی) میں ہوا۔ نیز فرمایا (النفس بالنفس ) اور اس حکم کو قتل عمد کے ساتھ خاص کردیا، جب قتل عمد اور قتل خطا دونوں میں ہر ایک بعینہ ذکر ہو اورہر ایک کے حکم کو نصا بیان کردیاگیا تواب ہمارے لیے اس منصوص حکم کے دائرے سے باہر نکل کر اس میں کسی قسم کا اضافہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہی ، کیونکہ منصوص احکامات کو ایک دوسرے پر قیاس کرنا بالکل درست نہیں ہے۔ ہمارے تمام اصحاب کا یہی قول ہے لیکن امام شافعی کا قول ہے کہ قتل عمد کے مرتکب پر کفارہ بھی لازم ہے ظاہر ہے کہ قتل عمد میں کفارہ کے اثبات سے نص کے حکم میں اضافہ لازم آتا ہے جبکہ نص کے حکم میں صرف ایسے حکم کے ذریعے اضافہ ہوسکتا ہے جو خود بھی منصوص ہو اور اس میں پہلے حکم کو منسوخ کردینے کی صلاحیت ہو۔ نیز کفارات کے احکامات کا قیاس کے ذریعے اثبات جائز نہیں ہے ان کے اثبات کا ذریعہ یاتوتوقیف ہے یا اتفاق امت ہے نیز جب اللہ تعالیٰ نے دونوں قسم کے مقتولوں میں سے ہر ایک کا حکم منصوس طریقے سے بیان فرمادیا اور حضور نے بھی فرمادیا (من ادخل فی امرنا مالیس منہ فھورد) ۔ جوشخص ہماری شریعت میں ایسی چیز داخل کردے گا جو اس میں سے نہ ہو، اس چیز کو ٹھکرا دیاجائے گا) اسی بنا پرجوشخص قتل عمد کے مرتکب پر کفارہ واجب کرے گا وہ ایسی چیز داخل کرنے والا قرار پائے گا جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ قتل خطا میں کفارہ واجب ہے تو قتل عمد میں بطریق اولی واجب ہونا چاہیے اس لیے کہ قتل خطا کے مقابلے میں قتل عمد زیادہ گھناؤنا فعل ہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا، کہ اس کفارہ کالزوم اور استحقاق گناہ کی بنا پر نہیں ہوا تھا، کہ اس میں گناہ کی شدت کا اعتبار کیا جاتا کیونکہ قتل خطا کا مرتکب گناہ گار نہیں ہوتا۔ اس لیے اس کفارہ میں گناہ کا اعتبار ساقط ہے۔ نیز حضور نے بھول جانے والے پر سجدہ سہو واجب کردیا ہے اور عامد یعنی جان بوجھ کر خلاف نماز حرکت کرنے والے پر سجدہ سہو واجب نہیں ہے حالانکہ دوسرے کی حرکت پہلے کی حرکت کے مقابلے میں زیادہ سخت ہے۔ اگرشوافع اس حدیث سے استدلال کریں جسے ضمرہ نے ابراہیم بن ابی عیلہ نے عریف بن الدیلی سے اور انہوں نے حضرت واثلہ بن الاسقع سے روایت کی ہے کہ حضور ہمارے پاس ایک قتل کے سلسلے میں تشریف لائے تھے جس کا ارتکاب ہمارے ایک آدمی نے کیا تھا، اور اس طرح اپنے لیے جہنم کی آگ واجب کرلی تھی۔ آپ نے ہم سے فرمایا تھا قاتل کی طرف سے غلام آزاد کرواللہ تعالیٰ اس غلام کے ہر عضو کے بدلے قاتل کے ایک عضوکو جہنم کی آگ سے آزاد کردے گا، اس کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ اس حدیث کی ابن المبارک اور ابراہیم بن ابی عیلہ کے بھائی ہانی بن عبدالرحمن نے بھی ابوعیلہ سے روایت کی ہے لیکن اس میں ، اوجب بالقتل) یعنی آدمی کو قتل کرکے اپنے لیے جہنم کی آگ واجب کرلی تھی) کے الفاظ نہیں ہیں۔ مذکورہ بالا راوی ضمرہ بن ربیعہ کے مقابلے میں فن روایت کے لحاظ سے اثبت ہیں۔ علاوہ ازیں اگر اس حدیث کا ثبوت ضمرہ کی روایت کے مطابق ہوجائے پھر بھی مخالف کے قول کے حق میں اس کی دلالت نہیں ہوگی۔ ایک وجہ تو یہ ہے روایت کے الفاظ ، اوجب النار بالقتل، دراصل راوی کے وضاحتی الفاظ ہیں اس لیے کہ راوی نے اس مفہوم کو ان الفاظ میں ادا کیا ہے یعنی بالقتل حضرت واثلہ کی مراد یہ ہے کہ اس شخص نے ایک آدمی کو قتل کرکے اپنے لیے جہنم کی آگ واجب کرلی تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر حضور اس غلام سے کفارہ قتل کے سلسلے میں آزاد کیا جانے والاغلام مراد لیتے تو آپ مومن غلام، فرماتے ، جب آپ نے غلام میں ایمان کی شرط نہیں لگائی تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ اس کی آزادی کا کفارہ قتل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ نیز آپ نے قاتل کے رشتہ داروں کو اس کی طرف سے غلام آزاد کرنے کا حکم دیا جبکہ اس بارے مٰں کوئی اختلاف نہیں کہ رشتہ داروں پر اس کی طرف سے غلام آزاد کرنا واجب نہیں ہوتا، نیز کفارہ میں کسی غیر کا قاتل کی طرف سے غلام آزاد کرنا قاتل کے کفارہ کے لیے کفایت نہیں کرتا۔ قول باری ہے (فتحریررقبہ مومنۃ) اللہ تعالیٰ نے قتل کے کفارہ میں آزاد کیے جانے والے غلام کو ایمان کی صفت سے متصف کیا ہے ، اس لیے اس میں اختلاف نہیں ہے کہ اسی صفت سے موصوف غلام ہی کفارہ قتل کے لیے درست ہوگا۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ مومن غلام کافر غلام کی بہ نسبت افضل ہوتا ہے کیونکہ ایمان کی صفت فرض کفارہ کی ادائیگی میں شرط بن گئی ہے اس طرح اگر کسی نے مومن غلام آزاد کرنے کی نذر مانی ہو تو اس کے لیے کافر غلام آزاد کرنا کافی نہیں ہوگا، کیونکہ نذر ماننے والے اپنی نذر کو ایسی صفت کے ساتھ مقرون کرلیا ہے جو تقرب الٰہی کے مفہوم پر مشتمل ہے۔ اس میں یہ دلیل بھی موجود ہے کہ مسلمانوں کو صدقہ دینا کافر ذمیوں کو صدقہ دینے سے افضل ہے خواہ یہ نفی صدقہ کیوں نہ ہو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کفارہ قتل کے روزوں میں تتابع یعنی مسلسل روزہ رکھنے کو ایک زائد صفت قرار دیا ہے اس لیے اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ امکانی حد تک اس صفت کے بغیر رکھے جانے والے روزے کفارہ کے لیے کفایت نہیں کریں گے۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جس شخص نے اپنے اوپر ایک مہینے کے مسلسل روزے واجب کرلیے ہوں کے لیے ناغہ کرنا درست نہیں ہوتا، کیونکہ اس نے ان روزوں کو ایسی صفت کے ساتھ واجب کرلیاتھاجس میں قربت یعنی تقرب الٰہی کا پہلو تھا، اس لیے یہ روزے اس صفت کے ساتھ واجب ہوگئے جس کے ساتھ اس نے ان کی نذر مانی تھی۔ قول باری ہے (فمن لم یجد فصیام شھرین متتابعین) جسے یہ میسر نہ ہو کہ وہ دومہینوں کے مسلسل روزے رکھے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ فقہاء کا اس بارے میں کوئی اختلارائے نہیں ہے ، کہ جب کوئی شخس چاند کے حساب سے روزے رکھے گا تو اس میں دنوں کی کمی کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا، یعنی مہینہ خواہ انتیس کا ہو یا تیس کا اس کے دوماہ پورے ہوجائیں گے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (صوموالرویتہ وافطروا الرویتہ فان غم علیکم فعدواثلاثین) چاند دیکھ کر روزہ شروع کرو اورچاند دیکھ کر روزہ ختم کرو، اگر چاند نظر نہ آئے توتیس دن شمار کرلو، آپ نے چاند کے حساب سے مہینے کا اعتبار کا حکم دیا اور چاند نظر نہ آنے کی صورت میں تیس دن کے حساب کا امر فرمایا ہے۔ اگر کسی نے کفار کے روزے کے مہینے کے درمیان سے اتبداء کرلی ہو تو وہ دوسرے مہینے کا چاند کے حساب سے اعتبار کرے گا، اور پہلے مہینے کے بقیہ دنوں کا گنتی کے حساب سے اعتبار کرکے تیس دن پورے کرے گا، امام ابوحنیفہ ، امام ابویوسف، امام محمد، کا یہی قول ہے امام ابویوسف نے امام ابوحنیفہ سے ایک روایت کی ہے کہ چاند کے حساب سے مہینے کا اس وقت ہی اعتبار درست ہوگاجب روزہ رکھنے والامہینی کی ابتداء سے چاند دیکھ کر روزہ رکھناشروع کرے گا۔ حسن بصری سے بھی اسی قسم کی روایت ہے لیکن پہلی بات زیادہ صحیح ہے اس لیے کہ قول باری (فسیحوافی الارض اربعۃ اشھر، مشرکو زمین میں چار مہینوں تک چلو پھرو، کی تفسیر میں مروی ہ یکہ ان چار مہینوں سے ذوالحجہ کے باقی ماندہ دن محرم، صفر، ربیع الاول اور ربیع الثانی، کے باقی دن مراد تھے۔ اس میں تین مکمل مہینوں کا چاند کے حساب سے اعتبار کیا گیا اور نامکمل مہینے کا دنوں کے حساب سے اعتبار کیا گیا۔ قول باری (فصیام شھرین متتابعین) کے سلسلے میں یہ بات واضح ہے کہ ہمیں حسب امکان تتابع کا مکلف بنایا گیا ہے دوسری طرف عادۃ یہ بات موجود ہے کہ عورت کا کوئی مہینہ حیض کے بغیر نہیں گزرتا، اسی لیے حضور نے حمنہ بنت جحش سے فرمایا، (تحیضی فی علم اللہ ستا اوسبعا کماتحیض النساء فی کل شھر۔ اپنے آپ کو اللہ کے علم کے مطابق ہر ماہ چھ یاسات دن حائضہ سمجھو، اور جس طرح ہر ماہ عورتیں حیض کے دوران عورتیں طریقہ اختیار کرتی ہیں تم بھی وہی طریقہ اختیار کرو) آپ نے یہ بتایا کہ عورتوں کو ہر ماہ ایک حیض گزارنے کی عادت ہوتی ہے۔ جب صوم تتابع کے سلسلے میں ہمیں حسب امکان مکلف بنایا گیا اور اگر عورت کے لیے دوماہ کے مسلسل روزے رکھنے کی ضرورت پیش آجائے تو یہ بات اس کی طاقت سے باہرہوگی کہ وہ ایسے دوماہ مسلسل روزے رکھے جس میں حیض نہ آئے، اس صورت میں ایام حیض کا حکم ساقط ہوجائے گا لیکن تتابع کا حکم منقطع نہیں ہوگا، اور اس کے ایام حیض کی وہی حیثیت ہوگی جو روزوں کے دوران راتوں کو ہوتی ہے کہ ان کی وجہ سے تتابع منقطع نہیں ہوتا۔ امام شافعی کا یہی قول ہے ابراہیم سے مروی ہے اس صورت میں عورت نئے سرے سے روزے شروع کرے گی، ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر روزہ رکھنے والادومہینوں کے دوران بیمار پڑجائے گا اور روزہ نہیں رکھے گا توا سے نئے سرے سے روزرہ رکھنا ہوگا۔ امام مالک کا قول ہے کہ ایسی صورت میں وہ روزے جاری رکھے گا اور یہ روزے اس کے لیے کافی ہوجائیں گے ہمارے فقہاء نے حیض اور مرض کے درمیان کے درمیان فرق رکھا ہے کہ مرد کے لیے عادۃ مرض کے بغیر دوماہ مسلسل روزہ رکھنا ممکن ہے جبکہ عورت کے لیے عادۃ حیض کے بغیر دوماہ مسلسل روزہ رکھنا ممکن نہیں ہے ایک اور وجہ سے ان دونوں صورتوں میں فرق ہے وہ یہ کہ مرض کا پیدا ہونا روزہ چھوڑنے کا موجب نہیں ہوتا، بلکہ یہ کام خود روزہ دار اپنے فعل اور ارادے سے کرتا ہے جبکہ حیض روزے کے منافی ہوتا ہے ا س میں عورت کے اپنے فعل کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس لیے حیض روزے کے دوران آنے والی رات کے مشابہ ہوگیا، اور جس طرح رات کی وجہ سے تتابع منقطع نہیں ہوتا، اسی طرح حیض کی وجہ سے تتابع منقطع نہیں ہوگا۔ قول باری ہے (توبۃ من اللہ، یہ اللہ سے اس گناہ پر توبہ کرنے کا طریقہ ہے اس کی تفسیر میں ایک قول ہے کہ الہ سے توبہ کرنے کے لیے وہ کام کرو جو اللہ نے واجب کیے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے سے ان گناہوں کی توبہ قبول کرلے جن کا تم نے ارتکاب کیا ہے ایک قول یہ ہے کہ آیت قتل کے فعل کے ساتھ خاص ہے۔ ایک قول کے مطابق اس کے معنی ہیں، یہ اللہ کی طرف سے اس کی رحمت اور کشادہ دلی کا مظاہرہ ہے جس طرح ایک اور مقام پر فرمایا (فتاب علیکم وعفاعنکم ) اس کا مفہوم ہے کہ اللہ نے تمہارے لیے کشادگی پیدا کردی اور تمہیں سہولت بخشی۔
Top