Ahkam-ul-Quran - Al-Fath : 18
لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاۙ
لَقَدْ : تحقیق رَضِيَ اللّٰهُ : راضی ہوا اللہ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں سے اِذْ : جب يُبَايِعُوْنَكَ : وہ آپ سے بیعت کررہے تھے تَحْتَ الشَّجَرَةِ : درخت کے نیچے فَعَلِمَ : سو اس نے معلوم کرلیا مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ : جو ان کے دلوں میں فَاَنْزَلَ : تو اس نے اتاری السَّكِيْنَةَ : سکینہ (تسلی) عَلَيْهِمْ : ان پر وَاَثَابَهُمْ : اور بدلہ میں دی انہیں فَتْحًا : ایک فتح قَرِيْبًا : قریب
(اے پیغمبر) ﷺ جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے تو خدا ان سے خوش ہوا اور جو (صدق و خلوص) انکے دلوں میں تھا وہ اس نے معلوم کرلیا تو ان پر تسلی نازل فرمائی اور انہیں جلد فتح عنایت کی
بیعت رضوان صحابہ کرام ؓ کے پختہ ایمان پر دلالت کرتی ہے قول باری ہے (لقد ؓ عن المومنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ۔ بیشک اللہ تعالیٰ اہل ایمان سے راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ کے ہاتھوں پر بیعت کررہے تھے) اس میں ان مسلمانوں کے ایمان کی صحت پر دلالت موجود ہے جنہوں نے حدیبیہ کے مقام پر حضور ﷺ کے ہاتھوں پر بیعت کی تھی جو بیعت رضوان کے نام سے مشہور ہے۔ آیت سے ان کی بصیرت کی پختگی پر بھی دلالت ہورہی ہے۔ یہ لوگ متعین افراد تھے حضرت ابن عباس ؓ کے قول کے مطابق ان کی تعداد پچیس سو تھی اور حضرت جابر ؓ کے قول کے مطابق پندرہ سو تھی۔ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ وہ سچ مچ اہل ایمان تھے اور اللہ کے دوست تھے کیونکہ یہ بات نہیں ہوسکتی کہ اللہ تعالیٰ کسی متعین گروہ کو اپنی خوشنودی اور رضامندی کے سند عطا کردے جب تک بصیرت کی پختگی اور ایمان کی سچائی کے لحاظ سے ان کا ظاہر وباطن ایک نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی مزید تاکید کردی چناچہ ارشاد ہے (نعلم مافی قلوبھم فانزل السکینۃ علیھم۔ اور اللہ کو معلوم تھا جو کچھ ان کے دلوں میں تھا سو اس نے ان پر سکون نازل کردیا) اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ بصیرت کی پختگی اور نیت کی درستی کی جو کیفیت ان کے دلوں میں تھی اسے اس کی پوری خبر تھی نیز وہ یہ بھی جانتا تھا کہ ان کا ظاہر وباطن یکساں ہے۔ قول بایر ہے (فانزل السکینۃ علیھم) سکینہ کے نزول کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی نیت کی درستی پر جمے رہنے کی توفیق عطا فرمائی۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ توفیق ایزدی صدق نیت کے ساتھ حاصل ہوتی ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (ان یرید اصلا حا یوفق اللہ بینھما اگر یہ (دونوں فیصل) اصلاح کا ارادہ کرلیں تو اللہ تعالیٰ انہیں اس کی توفیق دے گا) ۔
Top