Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 101
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ١ۚ وَ اِنْ تَسْئَلُوْا عَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ١ؕ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: ایمان والے
لَا تَسْئَلُوْا
: نہ پوچھو
عَنْ
: سے۔ متعلق
اَشْيَآءَ
: چیزیں
اِنْ تُبْدَ
: جو ظاہر کی جائیں
لَكُمْ
: تمہارے لیے
تَسُؤْكُمْ
: تمہیں بری لگیں
وَاِنْ
: اور اگر
تَسْئَلُوْا
: تم پوچھوگے
عَنْهَا
: ان کے متعلق
حِيْنَ
: جب
يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ
: نازل کیا جارہا ہے قرآن
تُبْدَ لَكُمْ
: ظاہر کردی جائینگی تمہارے لیے
عَفَا اللّٰهُ
: اللہ نے درگزر کی
عَنْهَا
: اس سے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
حَلِيْمٌ
: بردبار
مومنو ایسی چیزوں کے بارے میں مت سوال کرو کہ اگر (ان کی حقیقتں) تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔ اور اگر قرآن نازل ہونے کے زمانے میں ایسی باتیں پوچھو گے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی۔ (اب تو) خدا نے ایسی باتوں (کے پوچھنے) سے درگزر فرمایا ہے اور خدا بخشنے والا بردبار ہے۔
قول باری ہے (یایھا الذین امنوا لاتسئلوا عن اشیاء ان تبدلکم وتسوکم اے ایمان لانے والو ! ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں) قیس بن الربیع نے ابو حصین سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ حضور ﷺ غصے کی حالت میں گھر سے برآمد ہوئے آپ کا چہرہ تمتا رہا تھا۔ پھر منبر پر تشریف فرما ہوگئے، کہا ” لوگو، تم مجھ سے جو بات بھی پوچھو گے میں اس کا جواب دوں گا۔ “ ایک شخص نے اٹھ کر پوچھا :” میں کہاں ہوں گا “ جواب ملا ” جہنم میں۔ “ ایک دوسرے شخص نے سوال : ” میرا باپ کون ہے ؟ “ جواب دیا گیا :” تیرا باپ حذافہ ہے “ اس پر حضرت عمر کھڑے ہوئے اور عرض کیا :” ہم نے اللہ کو اپنا رب، اسلام کو اپنا دین، قرآن کو اپنا امام اور اے اللہ کے رسول، محمد ﷺ کو اپنا نبی پسند کرلیا۔ ہم ابھی تازہ تازہ جاہلیت اور شرک کے زمانے سے نکلے ہیں اللہ ہی کو علم ہے کہ ہمارے ابائو و اجداد کون تھے۔ “ یہ سن کر آپ کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور درج بالا آیت کا نزول ہوا۔ ابراہیم الھجری نے ابو عیاض سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ آیت کا نزول اس موقع ہپر ہوا جب حضور ﷺ سے یہ پوچھا گیا تھا کہ آیا حج ہر سال فرض ہے ؟ حضرت ابو امامہ سے بھی اسی قسم کی روایت ہے عکرمہ نے روایت کی ہے یہ آیت اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی تھی جس نے یہ پوچھا تھا کہ میرا باپ کون ہے ؟ سعید بن جبیر کے قول کے مطابق آیت ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی تھی جنہوں نے حضور ﷺ سے بحیرہ اور سائبہ کے بارے میں دریافت کیا تھا (ان کا ذکر آگے آ رہا ہے) مقسم کا قول ہے کہ آیت کا نزول ان نشانیوں کے متعلق ہوا تھا جو پچھلی امتوں نے اپنے انبیاء سے طلب کیا تھا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس میں کوئی امتناع نہیں آیت کے شان نزول کے طور پر ان تمام روایات کو درست تسلیم کرلیا جائے۔ حضور ﷺ نے جب یہ فرمایا تھا کہ :” تم مجھ سے جو بات بھی پوچھو گے میں اس کا جواب دوں گا۔ “ تو حضرت عبداللہ بن حذافہ نے اپنے باپ کے بارے پوچھا تھا کہ وہ کون ہے۔ اس لئے کہ ان کے نسب کے متعلق لوگ اکثرچہ میگوئیاں کرتے رہتے تھے۔ آپ سے ان لوگوں نے بھی مختلف سوالات کئے تھے جن کا ذکر گزشتہ سطور میں ہوچکا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (لا تسئلوا عن اشیاء) یعنی ان جیسی چیزوں کے بارے میں سوالات نہ کرو اس لئے کہ لوگوں کو ان کی ضرورت نہیں تھی۔ عبداللہ بن حذافہ کا نسب فراش یعنی ہمبستری کے حق کی بنا پر ثابت ہوچکا تھا۔ اس لئے انہیں اس حقیقت کے جاننے کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ وہ کس کے نطفے سے ہیں، اس لئے انہیں ایسا کرنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ نیز سوال سے پہلے اس بات کا امکان موجود تھا کہ وہ کسی اور کے نطفے سے ہوں اور سوال کی وجہ سے ان کا وہ راز کھل جائے جس پر اللہ نے پردہ ڈال رکھا تھا۔ اس کے نتیجے میں ان کی والدہ کی بےعزتی ہوتی اور خود ان کے دامن پر بھی بلاوجہ ایک دھبہ لگ جاتا ہے۔ انہیں اس کا کوئی فائدہ نہ پہنچتا اس لئے کسی اور کے نطفے سے ہونے کے باوجود ان کا نسب حذافہ سے ہی ثابت رہتا اس لئے کہ ان کی ماں کے ساتھ حذافہ کو ہمبستری کا حق حاصل تھا۔ اسی بن اپر ماں نے ان سے کہا تھا کہ تو نے یہ سوال کر کے میری نافرمانی کی ہے۔ اس پر انہوں نے ماں کو جواب دیا تھا کہ مجھے اس بارے میں حضور ﷺ سے ہی اطمینان حاصل ہوا ہے۔ درحقیقت ان کا یہ سوال ایسا تھا کہ اگر جواب ظاہری حالت کے خلاف ہوتا تو انہیں اس سے سخت نقصان پہنچتا اس لئے ایسے نامناسب سوال سے روکا گیا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ حضور ﷺ نے فرمایا تھا :” جو شخص اس قسم کے گندے کا م یعنی زنا کاری کا ارتکاب کرے اسے چاہیے کہ اللہ کی طرف سے پڑے ہوئے پردے میں چھپا رہے لیکن اگر اس نے ہمارے سامنے اپنا سینہ کھول دیا یعنی راز فاش کردیا تو ہم اس پر کتاب اللہ کا نفاذ کریں گے۔ “ یعنی حد جاری کریں گے۔ جب ماعز سے یہ فعل بدسر زد ہوگیا تو ہزال نامی شخص نے انہیں اپنے گناہ کا اعتراف کرلینے کا مشورہ دیا تھا اس موقعہ پر حضور ﷺ نے ہزال سے فرمایا تھا :” اگر تم اس پر اپنے کپڑے کا پردہ ڈال دیتے تو تمہارے لئے یہ بہتر ہوتا۔ “ جس شخص نے آپ سے یہ پوچھا تھا کہ ” میں کہاں ہوں گا۔ “ اسے بھی اس سوال کے پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ دنیا میں اس پر پردہ پڑا ہوا تھا ۔ اس نے یہ سوال پوچھ گر گویا اپنی پردہ دری کرلی جبکہ انبیائے معجزات کا ظہور ہوچکا تھا۔ اس لئے اس قسم کے سوال سے روک دیا گیا اور کسی کے لئے بھی اس کی گنجائش باقی نہیں رکھی گئی اس لئے کہ انبیاء کے معجزات کا منکرین نبوت کی خواہشات و مطالبات کے تابع ہونا کسی طرح بھی درست نہیں ہوتا۔ اس لئے اس طرح کے سوالات ناپسندیدہ اور قبیح قرار دیئے گئے جس شخص نے حضور ﷺ سے یہ پوچھا تھا کہ آیا ہر سال حج فرض ہے اسے چاہیے تھا کہ آیت حج سن کر اس کے حکم کے موجب یعنی صرف ایک حج کے ایجاب پر اکتفا کرلیتا۔ اس بنا پر حضور ﷺ نے فرمایا تھا (انھا حجۃ واحدۃ ولو قلت نعم لوجیت، صرف ایک حج فرض ہے اگر میں تمہارے سوال پر ہاں کہہ دیتا تو ہر سال فرض ہوجاتا) آپ نے یہ بتادیا کہ اگر آپ سائل کے سوال کا اثبات میں جواب دیتے تو آپ کے قول کی بن اپر، نہ کہ آیت کی بنا پر ہر سال حج فرض ہوجاتا۔ اس لئے سائل کو یہ سوال نہیں کرنا چاہیے تھا جبکہ آیت کے حکم کی بن اپر اس کے لئے اس سوال سے احتراز ممکن تھا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت کے شان نزول کے سلسلے میں یہ توجیہ سب سے زیادہ دو رازکار ہے کہ حضور ﷺ سے بحیرہ ، سائبہ اور فصلیہ کے متعلق پوچھا گیا تھا اور اس کی بنا پر آیت کا نزول ہوا تھا۔ اس لئے کہ سوال کے ذریعے یا تو بحیرہ کے معنی پوچھے گئے ہوں گے کہ وہ کیا ہے یا اس کے جواز کے متعلق سوال کیا گیا ہوگا۔ جبکہ بحیرہ اور اس کے ساتھ مذکورہ دیگر اسماء ایسی چیزوں کے نام تھے جو زمانہ جاہلیت میں لوگوں کے علم میں تھیں۔ اس لئے انہیں ان کے متعلق سوال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اسی طرح یہ بھی درست نہیں کہ سوال ان جانوروں کی اباحت اور جواز کے متعلق کیا گیا تھا۔ اس لئے کہ یہ کافرانہ طریقفہ تھا جس کے تحت مشرکین اپنے بتوں کا تقرب اور ان کی خوشنودی حاصل کرتے تھے۔ اس لئے جن لوگوں کا عقیدہ اسلام کا عقیدہ تھا وہ اس طریقے کے بطلان کا بخوبی علم رکھتے تھے۔ اس آیت سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے جو پیش آمدہ امور کے احکام کے متعقل سوال کی ممانتع کے قائل ہیں انہوں نے اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جو زہری نے عامر بن سعد سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (ان اعظم المسلمین فی المسلمین جرما من مسائل عن شئی لم یکن حراما فحرم من اجل مسئملتہ ، مسلمانوں کے حق میں سب سے بڑا مجرم وہ ہے جس نے کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جو حرام نہیں تھی لیکن صرف اس کے سوال کی وجہ سے وہ چیز حرام ہوگئی۔ ) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت میں پیش آمدہ امور کے احکام کے متعلق سوال کی ممانعت پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ اس لئے کہ آیت میں صرف ایسی چیزوں کے بارے میں سوال سے نہی مقصود ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے بندوں کی نظروں سے پوشیدہ رکھا ہے اور ان کا علم صرف اپنی ذات تک محدود کردیا ہے۔ درحقیقت بندوں کو ایسے امور کے علم کی ضرورت ہی ہے بلکہ اگر یہ امور ان پر ظاہر کردیئے جائیں تو اس سے انہیں نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ مثلاً انساب کے حقائق کا علم ، اس لئے کہ حضور ﷺ نے فرما دیا تھا (الولد للفراش، بچہ اس کا ہے جسے عوت کے ساتھ ہمبستری کرنے کا حاصل ہے) جب عبداللہ بن حذافہ نے یہ حقیقت دریافت کی کہ ان کی تخلیق کس شخص کے نطفے سے ہوئی ہے اور اس فیصلے کو نظر انداز کردیا جو اللہ تعالیٰ نے نسب کے سلسلے میں ہمبستری کے حق کی نسبت سے دیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس قسم کے سوال سے روک دیا۔ اسی طرح اس شخص کی بات تھی جس نے پوچھا تھا کہ میں کہاں ہوں گا۔ اسے اپنے اس عیب کو کھولنے کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ اہل نار میں سے ہے۔ یا ابنیاء کی نشانیوں کے بارے میں سوال۔ آیت کے مضمون میں اس پر دلالت موجود ہے کہ ممانعت کا تعلق اس قسم کے سوالات سے ہے جو ابھی ہم نے بیان کردیئے ۔ قول باری ہے (قد سالھا قوم من قبلکم ثم اصیحوا بھاکافرین تم سے پہلے ایک گروہ نے اسی قسم کے سوالات کئے تھے پھ روہ لوگ ان ہی باتوں کی وجہ سے کفر میں مبتلا ہ وگئے) یعنی ان لوگوں نے ابنیاء سے نشانیاں طلب کی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ نشانیاں دکھلا دیں، مقسم نے گزشتہ آیت کی جو تفسیر کی تھی۔ اس آیت سے اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔ غیر منصوص احکام کے متعلق سوال کرنے کا جہاں تک تعلق ہے وہ آیت میں وارد ممانعت کے اندر داخل نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضور ﷺ نے ” احبہ بن جندب کو قربانی کے اونٹ دے کر مکہ مکرمہ میں ذبح کرنے کے لئے جب روانہ کیا تو انہوں نے آپ سے پوچھا کہ ان میں سے اگر کوئی اونٹ مرنے لگے تو اس کا کیا کروں گا ؟ آپ نے فرمایا :” اسے ذبح کر دو ، اس کے فعل کو اس کے خون سے رنگ دو اور اس کے پہلو پر بھی خون کی چھینٹیں ماردو اور پھر لوگوں کے لئے اسے چھوڑ جائو تم اور تمہارے رفقاء میں سے کوئی بھی اس کا گوشت نہ کھائے۔ حضور ﷺ نے ان کے سوال پر ناپسندیدگی کا اظہار نہیں فرمایا۔ حضرت رافع بن خدیج کی روایت میں ہے کہ صحابہ کرام نے حضور ﷺ سے استفسار کیا کہ ہم کل صبح دشمن کا سامنا کرنے والے ہیں اور ہمارے پاس چھرے نہیں ہیں۔ آپ نے اس استفسار کو ناپسند نہیں کیا۔ حضرت یعلی بن امیہ کی روایت میں ہے کہ ایک شخص نے سوال کیا کہ عمرہ میں وہ کون کون سے افعال سر انجام دے۔ آپ نے اس کے اس سوال پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں فرمایا۔ بہت سی روایات موجود ہیں جو شریعت کے مسائل کے ان احکام کے متعلق لوگوں کے سوالات پر مشتمل ہیں جو منصوص نہیں تھے کسی کو بھی اس قسم کے سوال سے روکا نہیں گیا تھا۔ شہر بن جو شب نے عبدالرحمٰن بن عنم سے اور انہوں نے حضرت معاذ بن جبل سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں :” میں نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں لیکن آیت (لاتسئلوا عن شیاء) میرے لئے رکاوٹ بن جاتی ہے۔ “ یہ سن کر آپ نے پوچھا وہ کون سی بات ہے میں نے عرض کیا ” وہ عمل بتا دیجیے جو مجھے جنت میں لے جائے ۔ اس پر آپ نے فرمایا :” تم نے بہت بڑی بات پوچھی ہے لیکن یہ آسان بھی ہے، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا۔ رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا۔ “ آپ نے حضرت معاذ کو سوال کرنے سے نہیں روکا اور نہ ہی ان کے سوال پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ محمد بن سیرین نے احنف سے اور انہوں نے حضرت عمر سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” سردار بننے سے پہلے سمجھ پیدا کرو۔ “ حضور ﷺ کے صحابہ کرام مسجد نبوی میں اکٹھے ہو کر نئے پیدا شدہ مسائل کے احکام کے سلسلے میں ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیالات کرتے۔ تابعین کرام بھی اس نہج پر چلتے رہے اور ان کے بعد ہمارے زمانے تک فقہاء کا بھی یہی طریقہ رہا۔ اس طریق کار کا صرف ان لوگوں نے انکار کیا ہے جو علم سے بابللد اور سمجھ بوجھ سے عاری تھے، انہوں نے روایات و آثار کا بوجھ تو اٹھا رکھا تھا لیکن ان کے معانی اور احکام سے نابلد تھے اس لئے وہ ان پر گفتگو کرنے اور ان سے احکام استنباط کرنے سے عاجز رہے۔ جبکہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (رب حامل فقہ غیر فقیہ و رب حامل فقہ الی من ھوا فقہ منہ، بعض دفعہ شرعی حکم کا حامل خود سمجھدار نہیں ہوتا اور بعض دفعہ شرعی حکم کا حامل اس حکم کو ایسے شخص تک پہنچا دیتا ہے جو اس سے زیادہ سمجھ دار ہوتا ہے۔ ) اس بنا پر اس منکر گروہ کی مثال وہ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے (مثل الذین حملوا التوراۃ تم لم یحملوھا کمثل الحمار یحمل اسفاراً ) جن لوگوں کو تورات پر عمل کا حکم دیا گیا تھا پھر انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا ان کی مثال اس گدھے جیسی ہے جس پر کتابیں لادی گئی ہوں۔ ) قول باری (ان تبدلکم ) کے معنی ہیں۔” اگر تم پر ظاہر کردی جائیں۔ “ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس سے مراد ایسے لوگ ہیں جنہوں نے عبداللہ بن حذافہ جیسا سوال پوچھا تھا یا ان کے سوال کے نوعیت اس طرح تھی جیسی اس شخص کی جس نے یہ پوچھا تھا کہ میں کہاں ہوں گا۔ اس لئے کہ نئے پیدا شدہ مسائل کے احکام کو ظاہر کردینا سائلین کو کبھی برا نہیں لگتا کیونکہ ان کے سوال کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ ان امور کے متعلق انہیں اللہ تعالیٰ کے احکام کا علم ہوجائے۔ قول باری ہے (وان تسئلوا عنھا حین ینزل القوان تبدلکم ، لیکن تم اگر انہیں ایسے وقت پوچھو گے جب کہ قرآن نازل ہو رہا ہو تو وہ تم پر کھول دی جائیں گی۔ ) یعنی فرشتہ کے نزول اور حضور ﷺ کو قرآن کی آیات سنانے کی حالت میں یعنی زمانہ نزول قرآن میں اگر تم ایسے سوالات پوچھو گے تو اللہ تعالیٰ انہیں تم پر ظاہر کر دے گا۔ پھر اس سے تمہیں نقصان پہنچے گا اور تمہیں یہ برا لگے گا۔ قول باری ہے (عنا اللہ عنھا، اب تک جو کچھ تم نے کیا اسے اللہ نے معاف کردیا ) یعنی اس قسم کے سوالات، اللہ تعالیٰ نے ان کو کرید نے اور ان کے حقائق معلوم کرنے کے سلسلے میں تم سے کوئی باز پرس نہیں کی۔ اس مقام پر عفو کے معنی ان چیزوں کے متعلق ترک سوالات کی اباحت میں گنجائش اور آسانی مہیا کرنے کے ہیں۔ جس طرح یہ قول باری ہے (فتاب علیکم وعفا عنکم، اللہ نے تمہاری توبہ قبول کی اور تمہیں معاف کردیا) اس کے معنی یہ ہیں ” اللہ نے تمہارے لئے آسانی پیدا فرما دی۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے :” حلال وہ اشیاء ہیں جنہیں اللہ نے حلال قرار دیا ہے اور حرم وہ چیزیں ہیں جنہیں اللہ نے حرام قرار دیا ہے ۔ جن چیزوں کے متعلق خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ ان میں عفو یعنی آسانی اور وسعت رکھی گئی ہے۔ اس کی مثال حضور ﷺ کا یہ ارشاد ہے (عفوت لکم عن صدقۃ الخیل والرقیق، میں نے گھوڑوں اور لونڈی غلاموں کی زکواۃ کے سلسلے میں تمہارے ساتھ درگذری سے کام لیا ہے۔ )
Top