Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 106
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا شَهَادَةُ بَیْنِكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِیْنَ الْوَصِیَّةِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَیْرِكُمْ اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَاَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةُ الْمَوْتِ١ؕ تَحْبِسُوْنَهُمَا مِنْۢ بَعْدِ الصَّلٰوةِ فَیُقْسِمٰنِ بِاللّٰهِ اِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِیْ بِهٖ ثَمَنًا وَّ لَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى١ۙ وَ لَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ١ۙ اللّٰهِ اِنَّاۤ اِذًا لَّمِنَ الْاٰثِمِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والے شَهَادَةُ : گواہی بَيْنِكُمْ : تمہارے درمیان اِذَا : جب حَضَرَ : آئے اَحَدَكُمُ : تم میں سے کسی کو الْمَوْتُ : موت حِيْنَ : وقت الْوَصِيَّةِ : وصیت اثْنٰنِ : دو ذَوَا عَدْلٍ : انصاف والے (معتبر) مِّنْكُمْ : تم سے اَوْ : یا اٰخَرٰنِ : اور دو مِنْ : سے غَيْرِكُمْ : تمہارے سوا اِنْ : اگر اَنْتُمْ : تم ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ : سفر کر رہے ہو زمین میں فَاَصَابَتْكُمْ : پھر تمہیں پہنچے مُّصِيْبَةُ : مصیبت الْمَوْتِ : موت تَحْبِسُوْنَهُمَا : ان دونوں کو روک لو مِنْۢ بَعْدِ : بعد الصَّلٰوةِ : نماز فَيُقْسِمٰنِ : دونوں قسم کھائیں بِاللّٰهِ : اللہ کی اِنِ : اگر ارْتَبْتُمْ : تمہیں شک ہو لَا نَشْتَرِيْ : ہم مول نہیں لیتے بِهٖ : اس کے عوض ثَمَنًا : کوئی قیمت وَّلَوْ كَانَ : خواہ ہوں ذَا قُرْبٰى : رشتہ دار وَلَا نَكْتُمُ : اور ہم نہیں چھپاتے شَهَادَةَ : گواہی اللّٰهِ : اللہ اِنَّآ : بیشک ہم اِذًا : اس وقت لَّمِنَ : سے الْاٰثِمِيْنَ : گنہ گاروں
مومنو جب تم میں سے کسی کی موت آموجود ہو تو شہادت (کا نصاب) یہ ہے کہ وصیت کے وقت (تم مسلمانوں میں) سے دو مرد عادل (یعنی صاحب اعتبار) گواہ ہوں یا اگر مسلمان نہ ملیں اور جب تم سفر کر رہے ہو اور اس وقت تم پر موت کی مصیبت واقع ہو تو کسی دوسرے مذہب کے دو شخصوں کو گواہ کرلو اگر تم کو ان گواہوں کی نسبت کچھ شک ہو تو ان کو عصر کی نماز کے بعد کھڑا کرو اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں کہ ہم شہادت کا کچھ بھی عوض نہ لیں گے گوہ ہمارا رشتہ دار ہی ہو اور نہ ہم اللہ کی شہادت کو چھپائیں گے اور اگر ایسا کرینگے تو گناہ گار ہونگے
سفر کے اندر وصیت پر گواہی قائم کرنے کا بیان قول باری ہے (یایھا الذین امنوا شھادۃ بینکم، اے ایمان لانے والو ! تمہارے درمیان شادت کا نصاب یہ ہے) اس آیت میں شہادت یعنی گواہی کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ کچھ لوگوں کا قول ہے کہ ا س سے مراد سفر کے اندر وصیت پر گواہی قائم کرنا ہے ۔ اس بنا پر انہوں نے سفر کے اندر مسلمان کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کو جائز قرار دیا ہے۔ شعبی نے ابو موسیٰ سے روایت کی ہے کہ ایک مسلمان دقوقا کے مقام پر وفات پا گیا۔ جب موت کا وقت آگیا تو اسے اپنی وصیت پر گواہ بنانے کے لئے کوئی مسلمان نہیں ملا۔ اس نے دو اہل کتاب کو گواہ بنا لیا۔ حضرت ابو موسیٰ نے ان دونوں سے عصر کے بعد حلفاً یہ بیان لیا کہ نہ انہوں نے کذب بیانی کی۔ نہ بددیانتی کی، نہ کوئی رد و بدل کیا، نہ کوئی بات چھپائی اور نہ ہی کوئی ہیرا پھیری کی۔ نیز یہ کہ یہ اس شخص کی وصیت ہے اور یہ اس ترکہ ہے جب ان دونوں نے حلفاً یہ بیان دے دیا تو حضرت ابو موسیٰ نے ان کی گواہی تسلیم کرلی اور فرمایا :” یہ ایسی بات ہے جو حضور ﷺ کے عہد میں ایک دفعہ پیش آنے کے بعد ابھی تک پیش نہیں آئی تھی۔ “ کچھ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ (شھادۃ بینکم) سے ان دونوں شخصوں کا حاضر ہونا مراد ہے جنہیں گواہی دینے کی وصیت کی گئی تھی۔ آپ کہتے ہیں ” شھدتہ “ اس کے معنی ہیں ” میں اس کے پاس حاضر ہوا۔” چند حضرات کا قول ہے کہ یہاں شہادت سے مراد یہ ہے کہ جب ورثاء کو ان دونوں گواہوں کے متعلق شبہ پید اہو جائے اس وقت وصیت کے بارے میں اللہ کی قسمیں کھائی جائیں۔ یعنی شہادت سے گواہی مراد نہیں بلکہ قسمیں مراد ہیں۔ مجاہد کا یہی قول ہے حضرت ابو موسیٰ نے یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ آیت میں مذکورہ شہادت سے مراد وہ گواہی ہے جو وصیت پر دی جائے اور جس کے ذریعے حکام کے نزدیک وصیت ثابت ہوجائے۔ نیز یہ کہ یہ حکم ثابت ہے منسوخ نہیں ہے۔ شریح سے بھی اسی قسم کی روایت ہے، سفیا ن ثوری، ابن ابی لیلی اور اوزاعی کا بھی یہی قول ہے۔ حضرت ابن عباس، سعید بن المسیب، سعید بن جبیر، ابن سیرین، عبیدہ، قاضی شریح اور شعبی سے قول باری (اواخران من غیر کم ، یا تمہارے غیروں میں سے دو گواہ) کے متعلق مروی ہے کہ ” غیر مسلموں میں سے دو گواہ “ حسن اور زہری سے مروی ہے کہ ” تمہارے غیر قبیلے میں سے دو گواہ۔ “ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جن حضرات نے شہادت سے قسم مراد لی ہے۔ گواہی مراد نہیں لی ہے جو حکام کے سامنے پیش کی جائے تو ان کا یہ قول زیادہ پسندیدہ نہیں ہے اگرچہ قسم کو بھی کبھی گواہی کے نام سے موسوم کردیا جاتا ہے۔ مثلاً یہ قول باری ہے (فشھادۃ احدھم اربع شھادات باللہ ، تو ان میں سے ایک کی گواہی چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دینا ہے۔ ) ہمارے درج بالا قول کی یہ ہے کہ شہادت کا جب علی الاطلاق ذکر ہوتا ہے تو اس سے متعارف گواہی مراد ہوتی ہے جس طرح درج ذیل آیات سے ظاہر ہے۔ ارشاد باری ہے (واقیموا الشھادۃ للہ، اللہ کے لئے گواہی قائم کرو) نیز فرمایا (واستشھا واشھیدین من رجالکم) اپنے مردوں میں سے دو گواہ بنا لو۔ ) نیز ارشاد ہوا (ولا یاب الشھداء اذا مادعوا ، جب گواہوں کو بلایا جائے تو وہ انکار نہ کریں ) نیز فرمایا (واشھدوا ذوی عدل منکم، اپنے دو عادل آدمیوں کو گواہ بنا لو) ان تمام آیات سے حقوق پر گواہی کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔ قسموں کا مفہوم سمجھ میں نہیں آتا۔ اسی طرح یہ قول باری ہے (شھادۃ بینکم) اس سے بھی متعارف گواہی کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔ اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے (اذا حضر احدکم الموت، جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے) یہ مراد لینا بہت بعید ہے کہ جب موت کا وقت آ جائے تو تمہارے درمیان قسمیں یہ ہیں … اس لئے کہت کی حالت میں قس اٹھانے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ پھر یہ فرما کر اس بات کی اور وضاحت کردی (اثنان ذواعدل منکم اوخران من غیرکم) تم میں سے دو عادل آدمی یا غیر مسلموں میں سے دو آدمی) یعنی … واللہ اعلم …… جب تم میں سے دو عادل آدمی نہ میسر ہوں جبکہ یہ بات واضح ہے کہ دو عادل کی موجودگی اور عدم موجودگی سے قسم کے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ قول باری (ولا نکتم شھادۃ اللہ ، نہ خدا واسطے کی گواہی کو ہم چھپانے والے ہیں) بھی اس پر دلالت کرتا ہے اس لئے کہ قسم تو موجود اور ظاہر ہے ، پوشیدہ نہیں ہے پھر میت کے مال کے بارے میں ان دونوں شخصوں کے اختلاف کے بعد جنہیں گواہی کی وصیت کی گئیھی۔ ورثاء کی قسم کا ذکر فرمایا۔ وہ گواہی جو حقیقت میں قسم ہے اس کا ذکر اس قول باری میں کیا گیا ہے (لشھادتنا احق من شھادتھما ہماری شہادت ان کی شہادت سے زیادہ برحق ہے۔ ) پھر فرمایا (ذلک ادنیٰ ان یا توا بالشھادۃ علی وجھھا اس طریقے سے زیادہ توقع کی جاسکتی ہے کہ ٹھیک ٹھیک گواہی دیں گے) یعنی وصیت پر ٹھیک ٹھیک گواہی۔ کیونکہ یہ کنا نا مناسب ہوگا کہ ٹھیک ٹھیک قسمیں کھائو۔ قول باری (اویخافو ا ان ترد ایمان بعد ایمانھم، یا کم از کم اس بات کا خوف کریں گے کہ ان کی قسموں کے بعد دوسری قسموں سے کہیں ان کی تردید نہ ہوجائے بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ پہلے جس چیز کا ذکر ہوا ہے وہ گواہی ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے گواہی اور قسم دونوںں کا ذکر ان کے حقیقی الفاظ کے تحت کیا ہے۔ جن لوگوں نے قول باری (او اخران من غیر کم) کی یہ تاویل کی ہ کہ دو آدمی تمہارے غیر قبیلے کے ہوں، ان کی یہ تاویل بےمعنی ہے۔ اس لئے کہ آیت کی دلالت اس کے خلاف ہے کیونکہ ان سے لفظ ایمان کے ساتھ خطاب کیا گیا ہے اس میں قبیلہ کا ذکر نہیں ہے جیسا کہ ارشاد ہے (یایھا الذین امنوا شھادۃ بینکم) پھر فرمایا (اواخران من غیرکم) یغنی غیر مسلم اس دوران قبیلہ کا کوئی ذکر نہیں آیا جس کی بنا پر کنایہ اس ذکر کی طرف راجع ہو سکے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ کنایہ یا تو کسی ایسے لفظ کی طرف راجع ہوتا ہے۔ جو ظاہراً مذکور ہو یا دلالت حال کی بنا پر معلوم ہو۔ جب یہاں کوئی دلالت حال بھی نہیں ہے جس کی طرف کنایہ راجع ہوجائے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ کنایہ اہل ایمان کی طرف راجع ہے جن کا ذکر خطاب کے اندر پہلے ہوچکا ہے اور یہ بات دسرت ہوگئی کہ غیر سے مراد غیر مسلم ہیں۔ اس طرح آیت سفر کے اندر مسلمان کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کے جواز کی مقتضی ہوگئی۔ آیت زیر بحث کی تاویل میں حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت ابو مسویٰ ، قاضی شریح، عکرمہ اور قتادہ سے مختلف روایات منقول ہیں۔ آیت کے مفہوم کی مناسب روایت وہ ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی، انہیں ابو دائود نے ، انہیں حسن بن علی نے، انہیں یحییٰ بن آدم نے ، انہیں ابن ابی زائدہ نے محمد بن ابی القاسم سے انہوں نے عبدالملک بن سعید بن جبیر سے، انہوں نے اپنے والد سعید بن جبیر سے، انہوں نے حضرت ابن عباس سے ، انہوں نے فرمایا کہ بنو سہم کا ایک شخص تمیم الداری اور عدی بن بدا کے ساتھ سفر پر نکلا۔ اس شخص کی وفات ایسی سر زمین میں ہوئی جہاں کوئی مسلمان نہیں رہتا تھا، جب یہ دونوں اس مرحوم کا ترکہ لے کر مدینہ پہنچے تو اس کے سامان میں چاندی کا ایک پیالہ جس پر سونے کے پترے چڑھے ہوئے تھے۔ گم پایا گیا۔ حضور ﷺ نے ان دونوں قسم لی، پھ ریہی پیالہ مکہ میں موجود پای اگیا۔ اور جن لوگوں کے پاس یہ تھا انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ پیالہ تمیم اور عدی سے خریدا تھا۔ اس مرحوم سہمی کے رشتہ داروں میں سے دو آدمیوں نے قسم کھا کر کہا کہ ہماری گواہی ان کی گواہی سے زیادہ برحق ہے اور یہ کہ پیالہ ان کے مرحوم رشتہ دار کا ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اس موقع پر ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ پھر حضور ﷺ نے تمیم اور عدیے نئے سرے سے حلف اٹھوایا اس لئے کہ میت کے ورثاء نے ان دونوں پر پیالہ دبا لینے کی تہمت لگائی تھی۔ پھر جب ان دونوں نے یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے یہ پیالہ میت سے خرید لیا تھا تو آپ نے ورثاء سے حلف اٹھوایا اور ان کے حلف پر فیصلہ سنا دیا کہ میت نے یہ پیالہ فروخت نہیں کیا تھا۔ چناچہ انہوں نے یہ پیالہ اپنے قبضے میں کرلیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو موسیٰ نے سفر میں مسلمان کی وصیت پر دو ذمیوں کی گواہی قبول کرلینے کے متعلق جو کچھ کہا تھا نیز یہ کہ حضور ﷺ کی زمانے سے لے کر آج تک ایسا نہیں ہوا تھا اس کا تعلق شاید اسی واقعہ کے ساتھ تھا جو حضرت ابن عباس کی اس روایت میں مذکور ہے۔ عکرمہ نے بھی تمیم الداری کے واقعہ کے متعلق حضرت ابن عباس کی روایت سے ملتی جلتی روایت کا ذکر کیا ہے۔ سفر کے اندر مسلمان کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کے جواز کا حکم باقی ہے یا منسوخ ہوچکا ہے اس بارے میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اور شریح کے قول کے مطابق یہ حکم ثابت ہے۔ منسوخ نہیں ہوا۔ حضرت ابن عباس اور وہ حضرات جن کے نزدیک قول باری (اوخران من غیر کم) سے مراد غیر مسلم ہیں۔ ان سب کا قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے آیت کی تاویل سفر میں مسلمان کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کی کے جواز پر کی ہے۔ لیکن ان حضرات سے اس حکم کے بقایا منسوخت کے بارے میں کوئی روایت محفوظ نہیں ہے۔ زید بن اسلم سے قول باری (شھادۃ بینکم) کی تفسیر میں منقول ہے کہ یہ آیت اس شخص کے بارے میں تھی جس کی وفات کے وقت اس کے پاس کوئی مسلمان شخص موجود نہ ہوتا۔ یہ صورتحال اسلام کے ابتدائی زمانے میں پیش آتی تھی جبکہ ساری زمین دارالحرب تھی اور تمام لوگ کافر ہوتے۔ لیکن چونکہ حضور ﷺ مدینہ منورہ میں تھے اس لئے لوگ مدینہ کے اندر وصیت کے ذریعے ایک دوسرے کے وارث بن جاتے تھے پھر وصیت کا حکم منسوخ ہوگیا اور ورثاء کے لئے فرائض یعنی حصے مقرر کردیئے گئے اور اس کے بعد مسلمانوں کا اسی پر عمل رہا۔ ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہوچکی ہے اسے قول باری (واشھد و اذوی غدل منکم) نے منسوخ کردیا ہے۔ حضرت ضمرہ بن جندب اور عطیہ بن قیس سے مروی ہے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ (المائدۃ من آخرا لقران تزولا فاحلوا حلالھا و حرمواحرامھا سورة مائدہ کا نزول سب سے آخر میں ہوا ہے اس لئے اس میں حلال کردہ چیزوں کو حلال اور حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھو) جبیربن نفیر نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ ” قرآن کی آخری صورت جو نازل ہوئی وہ سورة مائدہ ہے اس میں جو اشیاء تمہیں حلال ملیں انہیں حلال جانور جو حرام ملیں انہیں حرام سمجھو۔ “ ابو اسحاق نے ابو میسرہ سے روایت کی ہے کہ ” سورة مائدہ میں اٹھارہ فرائض ہیں اور کوئی فریضہ بھی منسوخ نہیں ہے۔ “ حسن کا قول ہے کہ سورة مائدہ کا کوئی حکم منسوخ نہیں ہوا۔ اس طرح ان حضرات کا مسلک یہ ہے کہ آیت زیر بحث کا حکم منسوخ نہیں ہوا۔ آیت جس امر کی مقتضی ہے وہ یہ ہے کہ سفر کے اندر مسلمان کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی جائز ہے خواہ وصیت کسی خرید و فروخت کے بارے میں ہو یا کسی قرض کے اقرار کی صورت میں ہو یا کسی چیز کی وصیت یا ہبہ یا صدقہ کی شکل میں ہو۔ یہ تمام چیزیں لفظ وصیت کے تحت آ جاتی ہیں جب بیماری کے اندر کوئی شخص ان میں سے کسی چیز کے متعلق کوئی قدم اٹھا لے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے وصیت کے وقت اہل ذمہ میں سے دو آدمیوں کی گواہی کو جائز قرار دیا ہے تو اس نے اس جواز کے ساتھ صرف وصیت کی صورت کی تخصیص نہیں کی کہ درج بالا دوسری صورتیں اس سے خارج ہوجائیں۔ اس لئے کہ وصیت کے وقت جو بات کہی جائے گی وہ بعض دفعہ قرض کے اقرار کی صورت میں ہوسکتی ہے یا مال کی شکل میں خواہ وہ مال عین ہو یا غیر عین یعنی خواہ وہ مکیل و موزون کے تحت آنے والی چیز ہو یا نہ ہو۔ آیت نے ان صورتوں میں سے کسی صورت کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ دین کی آیت قرآن کے اندر سب سے آخر میں نازل ہوئی اگرچہ کچھ لوگوں کا قول ہے کہ سورة مائدہ سب سے آخر میں نازل ہوئی تھی۔ لیکن اس میں کوئی امتناع نہیں کہ جن حضرات نے یہ کہا کہ سورة مائدہ سب سے آخر میں نازل ہوئی ان کی اس سے وہ سورت مراد ہو جو فی الجملہ سب سے آخر میں نازل ہوئی ، یہ مراد نہ ہو کہ اس کی ہر آیت سب سے آخر میں نازل ہوئی ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر آیت دین نے لا محالہ سفر میں مسلمان کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کے جواز کو منسوخ کردیا ہے کیونکہ قول باری ہے (اذا تداینتم بدین الی اجل مسمی) تا قول باری (واستشھدوا شھیدین من رجالکم) اس سے لامحالہ مسلمان مراد ہیں اس لئے کہ آیت میں ان سے ہی خطاب کیا گیا ہے اور اس کے لئے ایمان کا اسم استعمال کیا گیا ہے۔ آیت میں وصیت کی حالت کی تخصیص نہیں کی گئی ہے کہ باقی ماندہ حالتیں اس سے خارج سمجھی جائیں اس لئے آیت تمام صورتوں کے لئے عام ہے۔ پھر فرمایا (ممن ترضون من اشھداء ) اور ظاہر ہے کہ مسلمانوں پر گواہی دینے کے لئے اہل کفر کبھی پسندیدہ نہیں قرار دیئے جاسکتے۔ اس طرح آیت دین سفر نیز حضر اور وصیت وغیروصیت میں مسلمانوں کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کے جواز کی منسوخیت کو متضمن ہے جبکہ آیت زیر بحث مسلمان کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کے جواز پر مشتمل ہے۔ پھر یہ جس طرح حالت سفر میں مسلمان کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کے جواز پر دلال ہے اسی طرح یہ ذمی کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کے جواز پر بھی دال ہے۔ پھر آیت دین کی وجہ سے پہلی بات منسوخ ہوگئی یعنی مسلمان کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کا جواز منسوخ ہوگیا لیکن دوسری صورت باقی رہ گئی یعنی سفر یا غیر سفر کی حالت میں ذمی کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی درست ہے۔ اس لئے کہ گواہیوں کے حکم کے لحاظ سے سفر اور حضر دونوں حالتیں یکساں ہوتی ہیں۔ اسی طرح میت کی وصیت کے سلسلے میں اگر دو افراد کو گواہی دینے کی وصیت کی گئی ہو تو ان کی گواہی کے جواز پر بھی آیت کا حکم باقی ہے۔ اس لئے کہ آیت کے نزول کے پس منظر اور تفسیر میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے اس میں یہ ہے کہ مرنے والے نے اپنے دونوں ہمسفروں کو گواہی دینے کی وصیت کی تھی اور ان دونوں نے حضور ﷺ کے سامنے میت کی وصیت کے سلسلے میں گواہی بھی دی تھی۔ آیت اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ جس شخص کو گواہی دینے کی وصیت کی گئی ہو اس کے ہاتھ میں میت کی جو چیز ہو اس چیز کے متعلق اس گواہی دینے والے کا قول تسلیم کیا جائے گا البتہ اس سے قسم بھی لی جائے گی اس لئے کہ متعلقہ واقعہ میں ان دونوں افراد سے اس سلسلے میں حلف لیا گیا تھا۔ نیز آیت کی اس پر بھی دلالت ہے کہ ان دونوں کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے میت سے کوئی چیز خرید لی تھی ثبوت اور گواہی کے بغیر قابل قبول نہ ہوگا۔ نیز یہ کہ اس سلسلے میں اگر ورثاء قسم کھا کر یہ بیان دے دیں کہ میت نے ان کے ہاتھوں کوئی چیز فروخت نہیں کی ہے تو ان کی یہ بات تسلیم کرلی جائے گی۔
Top