Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 28
لَئِنْۢ بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَكَ لِتَقْتُلَنِیْ مَاۤ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْكَ لِاَقْتُلَكَ١ۚ اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ
لَئِنْۢ بَسَطْتَّ
: البتہ اگر تو بڑھائے گا
اِلَيَّ
: میری طرف
يَدَكَ
: اپنا ہاتھ
لِتَقْتُلَنِيْ
: کہ مجھے قتل کرے
مَآ اَنَا
: میں نہیں
بِبَاسِطٍ
: بڑھانے والا
يَّدِيَ
: اپنا ہاتھ
اِلَيْكَ
: تیری طرف
لِاَقْتُلَكَ
: کہ تجھے قتل کروں
اِنِّىْٓ
: بیشک میں
اَخَافُ
: ڈرتا ہوں
اللّٰهَ
: اللہ
رَبَّ
: پروردگار
الْعٰلَمِيْنَ
: سارے جہان
اور اگر تو مجھے قتل کرنے کیلئے مجھ پر ہاتھ چلائے گا تو میں تجھ کو قتل کرنے کیلئے تجھ پر ہاتھ نہیں چلاؤں گا۔ مجھے تو خدائے رب العالمین سے ڈرلگتا ہے۔
قول باری ہے (لئن بسطت الی یدک لتقتلنی ما انا بباسط یدی الیک لاقتلک اگر تو مجھے قتل کرنے کے لئے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لئے ہاتھ نہ اٹھائوں گا) حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا اس کے معنی ہیں کہ اگر تو مجھے قتل کرنے میں پہل کرے گا تو میں پہل نہیں کروں گا۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جب تو میرے قتل کا قصد و ارادہ کرے گا تو میں اپنا دفاع نہیں کروں گا۔ روایت ہے کہ اس نے دھوکے سے قتل کردیا تھا۔ جب وہ نیند میں تھا اس پر ایک بڑا پتھر لڑھکا دیا جس سے اس کا سر پاش پاش ہوگیا۔ حسن اور مجاہد سے یہ روایت ہے کہ ان پر یہ فرض کردیا گیا تھا کہ جب کوئی کسی کے قتل کا ارادہ کرے تو وہ اسے ایسا کرلینے دے اور اپنا دفاع نہ کرے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ عقلی طور پر اس کا جواز ہے کہ اس جیسے حکم کا وردد بطور عبادت ہوا ہو۔ اگر پہلی تاویل لی جائے تو اس میں اس بات کے جواز پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ جو شخص کسی کو قتل کرنے کا ارادہ کرے وہ اپنے دفاع میں اسے قتل نہ کرے۔ اس میں صرف یہ بات ہے کہ وہ اپنی طرف سے اقدام قتل میں پہل نہ کرے۔ اگر دوسری تاویل لی جائے تو یہ لامحالہ منسوخ ہے۔ ممکن ہے کہ بعض انبیاء متقدمین کی شریعت کے ذریعے اس حکم کو منسوخ کردیا گیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا نسخ ہمارے نبی کریم ﷺ کی شریعت کے ذریعے عمل میں آیا ہو۔ حضور ﷺ کی شریعت میں یہ حکم اب باقی نہیں ہے، نیز یہ کہ جس شخص کو کوئی شخص قتل کردینے کا ارادہ کرے اس پر واجب ہے کہ بس چلنے پر وہ اسے قتل کر دے اس کے لئے اسے قتل نہ کرنے کی بس چلنے کی حد تک کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے (وان طائفتان من المومنین اقتتلوا فاصلحوا بینھما فان بعث احذذاھما علی الاخری فقاتلوا التی تبغی حتی تقی الی امر اللہ۔ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں برسرپیکار ہوجائیں تو ان دونوں کے درمیان صلح کرا دو ، اس کے بعد اگر ایک گروہ دوسرے کے ساتھ زیادتی پر اتر آئے تو سرکشی کرنے والے گروہ کے خلاف قتال کرو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئیں۔ اللہ تعالیٰ نے باغی گروہ کے خلاف قتال کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی بغاوت نہیں ہوسکتی کہ ایک انسان ناحق دوسرے انسان کی جان کے درپے ہوجائے۔ یہ آیت ناحق کسی انسان کی جان کے درپے ہوجانے والے کو قتل کردینے کی مقتضی ہے۔ قول باری ہے (ولکم فی القصاص حیوۃ قصاص لینے کے اندر تمہارے لئے زندگی ہے) اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ قصاص یعنی قاتل کو قتل کردینے کے حکم کے ایجاب میں ہمارے لئے زندگی ہے۔ اس لئے کہ ناحق کسی کے قتل کے درپے ہوجانے والے کو جب یہ علم ہوگا کہ اس سے قصاص لیا جائے گا تو وہ قتل کے فعل سے باز رہے گا۔ یہی بات اس صورت میں بھی موجود ہے جس میں ناحق قتل کے درپے ہونے والے شخص کو قتل کردیا جائے کیونکہ اس طرح ایک بےگناہ شخص کی جان بچ جاتی اور اسے زندگی مل جاتی ہے ارشاد باری ہے (وقاتلوا ھم حتی لا تکون فتنۃ، ان کے خلاف جنگ کرو حتیٰ کہ فتنہ باقی نہ رہے) اللہ تعالیٰ نے فتنہ ختم کرنے کے لئے قتل کا حکم دیا۔ کسی کی ناحق جان لینے کا ارادہ کرنا بھی فتنہ اور فساد کی ایک صورت ہے۔ ہمیں عبد الباقی بن قانع نے روایت بیان کی انہیں اسماعیل بن فضل نے، انہیں حسین بن حریث نے، انہیں الفضل بن موسیٰ نے معمر سے، انہوں نے عبد اللہ بن طائوس سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (من شھر سیفہ ثم وضعہ قدمہ ھدر۔ جس شخصنے اپنی تلوار بلند کی اور پھر کسی کی جان لے لی تو اس کا خون رائیگاں جائے گا) یعنی اس قاتل کو کوئی اگر قتل کر دے تو اس کا کوئی خونبہا ادا نہیں کیا جائے گا۔ حضور ﷺ سے حد استفاضہ کو پہنچنے والی روایات میں منقول ہے کہ آپ نے فرمایا (من قتل دون نفسہ فھو شھید و من قتل دون اھلہ فھو شہید ومن قتل دون مالہ فھو شہید۔ جو شخص اپنی جان کا دفاع کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے۔ جو شخص اپنے اہل و عیال کا دفاع کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے اور جو شخص اپنے مال کا دفاع کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے) عبداللہ بن الحسین نے عبدالرحمٰن الاعرج سے روایت کی ہے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (من ارید مالہ فقاتل فقتل فھو شہید جس شخص کا مال لوٹنے کی کوشش کی جائے اور وہ مقابلہ کرتے ہوئے مارا جائے تو وہ شہید ہے) حضور ﷺ نے یہ بتایا کہ جو شخص اپنی جان، اپنے اہل و عیال اور اپنے مال کا دفاع کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہوتا ہے۔ ایک شخص کی اپنے مال کے دفاع میں اس وقت جان جاتی ہے جب وہ مال کی حفاظت کی خاطر مقابلہ کرتا ہے۔ اس پر حضور ﷺ کا وہ قول دلالت کرتا ہے جو آپ نے حضرت ابوسعید خدری سے فرمایا تھا (من رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ وذاک اضعف الایمان ۔ تم میں سے جو شخص کسی منکر یعنی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ کے ذریعے بدل ڈالے اگر وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا تو اپنی زبان کے ذریعے اسے بدلے یعنی اس کے خلاف آواز اٹھائے اور اگر وہ اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا تو کم از کم اسے دل سے برا سمجھے یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ ) حضور ﷺ نے برائی کو طاقت کے ذریعے بدل ڈالنے کا حکم دیا اور اگر قتل کے بغیر اس برائی کو بدل ڈالنا ممکن نہ ہو تو ظاہر حدیث کا مقتضیٰ ہے کہ اسے قتل کردیا جائے، اس مسئلے میں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے کہ اگر کسی نے ناحق کسی کو قتل کرنے کی نیت سے تلوار اٹھا لی تو مسلمانوں پر اسے قتل کرنا واجب ہے۔ اسی طرح جس شخص کے قتل کا ارادہ کیا جائے اس کے لئے قتل کے درپے انسان کو قتل کردینا جائز ہے۔ خارجیوں نے جب لوگوں کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت علی ؓ نے انہیں تہ تیغ کیا۔ آپ کے ساتھ دیگر صحابہ کرام بھی تھے اور اس معاملے میں سب کو آپ سے اتفاق تھا۔ حضور ﷺ سے ایسی روایات منقول ہیں جن میں ایسے لوگوں کو قتل کردینا واجب قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک حدیث وہ ہے جس کی حضرت ابو سعید خدری ؓ اور حضرت انس ؓ نے روایت کی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے : (سیکون فی امتی اختلاف دفرقۃ فیھم قوم یحسنون القول ویسیئون العمل یمرقون من الدین کما یمرق السھم من الرمیۃ طوبی لمن قتلھم او قتلوہ، عنقریب میری امت میں جھگڑے کھڑے ہوں گے اور تفرقہ پھیلے گا، ان میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو باتیں تو بڑی اچھی کریں گے لیکن ان کے اعمال برے ہوں گے۔ دین سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر نشانے سے پار نکل جاتا ہے۔ خوش بختی ہے اس شخص کے لئے جو ایسے لوگوں کو قتل کرے یا ان کے ہاتھوں قتل ہوجائے) ۔ ایسی بہت سی مشہور روایات ہیں۔ سلف نے ان روایات کو نہ صرف قبول کیا بلکہ ان جیسے لوگوں کے خلاف جنگ کو نیز ان کے قتل کو واجب سمجھتے ہوئے ان پر عمل پیرا بھی ہوئے۔ ابوبکر بن عیاش نے روایت بیان کی، انہیں ابوالاحوص نے سماک سے، انہوں نے قابوس بن ابو المخارق سے، انہوں نے اپنے والد سے کہ ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ﷺ ! ایک شخص میرا مال لوٹنے کے لئے میرے پاس آتا ہے، میں اس کے ساتھ کیا سلوک کروں ؟ “ آپ ﷺ نے فرمایا : ” اسے اللہ کی یاد دلائو “ عرض کیا : ” اگر وہ اللہ کو یاد نہ کرے :“ فرمایا : ” تو پھر اس کے مقابلہ کے لئے اردگرد رہنے والے مسلمانوں سے مدد طلب کرو۔ “ عرض کیا : ” اگر میرے اردگرد مسلمان نہ ہوں تو کیا کروں ؟ “ فرمایا : اس کے خلاف سلطان سے مدد لو۔ “۔ عرض کیا : ” الر سلطان مجھ سے دور ہو تو کیا کروں ؟ “ فرمایا : پھر اپنے مال کے دفاع میں مقابلہ کرو یہاں تک کہ اپنا مال محفوظ کرلو یا تمہاری جان چلی جائے اور تم آخرت میں شہید کہلائو۔ “ کچھ بےعلم اور ناسمجھ لوگ اس مسئلے کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی کے قتل کا ارادہ کرے تو اسے اس ارادے سے باز رکھنے کے لئے قتل کی زد میں آنے والا شخص نہ اسے قتل کرے اور نہ ہی اپنی جان کے دفاع میں اسے کچھ کہے حتیٰ کہ اس کے ہاتھوں اپنی جان گنوا بیٹھے۔ انہوں نے اس آیت سے یہی مفہوم اخذ کیا ہے۔ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ آیت میں کوئی ایسی دلالت نہیں ہے جس سے یہ پتہ چل سکے کہ قتل کی زد میں آنے والا شخص قاتل کو اس کے ارادے سے باز رکھنے کے لئے کچھ نہ کرے اور اپنی جان کے دفاع میں موقع ملنے پر اسے قتل نہ کرے۔ آیت تو صرف اس پر دلالت کرتی ہے کہ وہ قتل کے فعل میں پہل نہ کرے۔ جس طرح حضرت ابن عباس ؓ سے اس کی یہ تفسیر مروی ہے۔ اگر ان لوگوں کے دعوے پر آیت کی دلالت ثابت بھی ہوجائے تو ہم نے قرآن و سنت اور مسلمانوں کے اتفاق کی روشنی میں جو بات بیان کی ہے اس کے ذریعے یہ حکم منسوخ سمجھ لیا جائے۔ وہ بات یہ ہے کہ تمام لوگوں پر یہ واجب ہے کہ ایک بےگناہ کی جان بچانے کے لئے قتل کے ارادے سے آنے والے شخص کو اس سے دور کردیں خواہ اس میں اس کی جان ہی کیوں نہ لینی پڑے اس گروہ نے حضور ﷺ سے مروی چند احادیث کا وہ مفہوم بیان کیا ہے جو ان کے دعوے کی تائید کرتا ہے۔ ان میں سے ایک حدیث وہ ہے جس کی روایت حضرت ابوموسیٰ اشعری نے حضور ﷺ سے کی ہے آپ کا ارشاد ہے (افاتو اجہ المسلمان بسیفیھما فقتل احدھما صاحبہ فالقاتل والمقتول فی النار۔ جب دو مسلمان اپنی اپنی تلوار لے کر ایک دوسرے کے مقابلے پر اتر آئیں اور ایک کے ہاتھوں دوسرا قتل ہوجائے تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے) عرض کیا گیا کہ قاتل کا جہنم میں جانا تو سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن مقتول کیوں جہنم میں جائے گا ؟ ارشاد ہوا (انہ اراد قتل صاحبہ۔ اس نے بھی تو دوسرے کے قتل کا ارادہ کیا تھا) علی بن زید بن جدعان نے حسن سے اور انہوں نے حضرت سعد بن مالک ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (ان اسقطعت ان تکون عبد اللہ المقتول فافعل ولا تقتل احدا من اھل القبلۃ۔ اگر تم اللہ کے مقتول بندے بن سکو تو بن جائو لیکن تمہارے ہاتھوں قبلے کی طرف رخ کرنے والا کوئی شخص یعنی مسلمان قتل نہ ہونے پائے) ۔ حسن نے احنف بن قیس سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں میں نے حضرت ابوبکر ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے حضور ﷺ کی زبان مبارک سے یہ ارشاد سنا ہے کہ (اذا التقی المسلمان بسیفیھما فالقاتل و المقتول فی النار جب دو مسلمان اپنی اپنی تلوار لے کر ایک دوسرے کے مقابلہ پر اتر آئیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے) میں نے عرض کیا کہ قاتل کے جہنم رسید ہونے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے مقتول کیوں جہنم میں جائے گا ؟ ارشاد ہوا (انہ کان حریصا علی قتل صاحبہ اس لئے کہ اس نے بھی اپنے ساتھی کی جان لینے کی ٹھانی ہوئی تھی) معمر نے حسن سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (ان ابنی آدم ضربا مثلا لھذہ الامۃ فخذوا بالخیر منھما۔ آدم کے دو بیٹوں نے اس امت کے لئے ایک مثال قائم کردی ہے اب تم اس بیٹے کے رویے کو اپنا نوجوان دونوں میں سے بھلا تھا) معمر نے ابو عمران الجونی سے روایت کی ہے انہوں نے عبد اللہ بن الصامت سے اور انہوں نے حضرت ابوذر ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : ” ابوذر ! اس وقت کیا کرو گے جب اس شہر مدینہ میں قتل کا بازار گرم ہوگا ؟ “ حضرت ابوذر ؓ نے عرض کیا : ” پھر میں بھی اپنے ہتھیار باندھ لوں گا۔ “ ارشاد ہوا : ” پھر تو تم بھی ان غلط کاروں کے ساتھ شامل سمجھے جائو گے “۔ عرض کیا : ” اللہ کے رسول ﷺ ! پھر مجھے کیا کرنا چاہیے ؟ “ ارشاد ہوا : ” اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تلوار کی چمک تمہاری آنکھوں کو چکا چوند کر دے گی تو اپنے کپڑے کا ایک پلو چہرے پر ڈال لینا اور چپ چاپ قتل ہوجانا تاکہ تمہارا قاتل قیامت کے دن تمہارا اور اپنا دونوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے آئے۔ “ ان لوگوں نے درج بالا آثار سے اپنے دعوے پر استدلال کیا ہے حالانکہ ان آثار و روایات میں ان کی تائید میں کوئی دلالت نہیں ہے۔ پہلی حدیث جس کے راوی حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ ہیں ان کی تائید میں کوئی دلالت نہیں ہے۔ پہلی حدیث جس کے راوی حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ ہیں اس کا درست مفہوم یہ ہے کہ جب دو مسلمان عصبیت اور فتنہ و فساد پھیلانے والے لوگوں کی طرح ازروئے ظلم ایک دوسرے پر تلوار کھینچ لیں تو پھر قاتل اور مقتول دونوں کا انجام جہنم ہوگا۔ حضرت سعد بن مالک ؓ کی حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں کی آپس کی خانہ جنگی اورف تنہ و فساد کے زمانے میں قتل و قتال سے اپنا ہاتھ روک لیا جائے اور شبہ کی بنا پر کسی کی جان نہ لی جائے۔ اگر سکی نے کسی ایسے شخص کو قتل کردیا جو وقاعی قتل ہونے کا مستحق تھا تو یہ بات سب کو معلوم ہے کہ حضور ﷺ نے اس کی نفی نہیں فرمائی ہے۔ معمر نے حسن سے حضرت آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کے متعلق جو روایت نقل کی ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ قتل کے فعل میں پہل نہ کی جائے، رہ گئی یہ بات کہ اپنی جان کے دفاع میں قتل کی نیت سے آنے والے شخص کو اس فعل سے روکنا اور باز رکھنا تو حضور ﷺ نے اس سے منع نہیں فرمایا۔ اگر یہ لوگ حضور ﷺ کے اس ارشاد سے استدلال کریں جس میں آپ ﷺ نے فرمایا (لایحل دم امرئی مسلم الا باحدی ثلث کفر بعد ایمان، وزنا بعد احصات و قتل نفس بغیر نفس، کسی مسلمان کا خون صرف ان تین باتوں میں سے ایک کی بنا پر حلال ہوسکتا ہے۔ یا تو ایمان لانے کے بعد کافر اور مرتد ہوگیا ہو یا صفت احصان کے حصول کے بعد اس نے زنا کا ارتکاب کرلیا ہو یا ناحق کسی کی جان لے لی ہو) ۔ اس روایت کی رو سے قتل کا ارادہ کرنے والا جب تک قتل کے فعل کا ارتکاب نہ کرے اس وقت تک اسے قتل کرنا جائز نہیں ہوگا اس لئے کہ حضور ﷺ نے صرف مذکورہ بالا تین اسباب کے سوا کسی اور وجہ سے اس کے قتل کی نفی کردی ہے۔ جو شخص قتل کے ارادے سے آئے اس نے ابھی تک قتل نہیں کیا اس لئے وہ قتل کئے جانے کا مستحق قرار نہیں پائے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ وہ شخص اس حدیث میں داخل ہے جو ازروئے ظلم کسی کی جان لینے کے درپے ہو اس لئے کہ اس نے ایک شخص کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا تھا ہم نے اسے صرف اس ارادے کی بنا پر قتل کردیا تاکہ وہ ایک بےگناہ شخص کی جان نہ لے سکے اور اس طرح ہم نے اسے قتل کر کے اپنا مقصد حاصل کرلیا۔ اگر یہ معاملہ اس گروہ کے مسلک کے مطابق ہوتا یعنی ازروئے ظلم قتل کے ارادے سے آنے والے شخص پر ہاتھ اٹھانے کی ممانعت ہوتی۔ یہاں تک کہ اسے ایک بےگناہ کے خون سے ہاتھ رنگنے کا موقع مل جائے اور وہ اس گھنائونے فعل کا ارتکاب کر کے چلتا بنے تو پھر یہی طریق کار دوسری تمام محظورات کے سلسلے میں اپنانا واجب ہوتا یعنی جب کوئی فاجر انسان ان محظورات میں سے کسی فعل مثلاً زنا کاری و زبردستی کسی کے مال پر قبضہ وغیرہ کے ارتکاب کا ارادہ کرتا تو اسے ایسا کرنے کی کھلی چھٹی دے دی جاتی، جس کے نتیجے میں ایک طرف امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا سارا عمل ٹھپ ہوجاتا۔ تو دوسری طرف فاسق و فاجر اور ظالم قسم کے لوگوں کو اوپر آنے کا موقعہ مل جاتا اور اس طرح شریعت کے آثار و نشانات مٹ کر رہ جاتے۔ میں نہیں سمجھتا اسلام اور اہل اسلام کو اس مسلک کی وجہ سے جتنا نقصان پہنچا شاید ہی کسی اور مسلک سے پہنچا ہو۔ اسی باطل مسلک نے فاسق و فاجر لوگوں کو مسلمانوں کے معاملات پر چھا جانے اور ان کے شہروں اور علاقوں پر تسلط جمانے کا موقعہ فراہم کیا حتیٰ کہ ان لوگوں نے اپنی من مانی کی اور اللہ کے احکام کے نفاذ کو چھوڑ کر اپنے احکامات جاری کئے۔ اس کے نتیجے کے طور پر سرحدات کی حفاظت کا کام بھی ٹھپ ہوگیا اور دشمنوں کو مسلمانوں کے علاقوں پر قبضہ کرنے کا موقعہ مل گیا کیونکہ عوام الناس اس مسلک کی طرف مائل ہوگئے تھے اور اس کے نتیجے میں باغی گروہ کے خلاف صف آراء ہونے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے سے کنارہ کش ہوگئے تھے اور حدیہ کہ انہوں نے اپنے حاکموں کو ان کی غلط روی پر ٹوکنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ بس اللہ ہی سے مدد کی درخواست ہے۔ اس بارے میں جمہور کے قول کی صحت پر نیز اس پر کہ ازروئے ظلم قتل کے ارادے سے آنے والا شخص قتل کا مستحق ہوتا ہے بلکہ تمام مسلمانوں پر اسے قتل کردینے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ قول باری دلالت کرتا ہے (من اجل ذلک کتبنا علی بنی اسرائیل انہ من قتل نفسا بغیر نفس اوفساد فی الارض فکانما قتل الناس جیمعا۔ اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا تو اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا۔ آیت کے مضمون میں زمین کے اندر فساد مچانے والے انسان کے قتل کی اباحت کا حکم موجود ہے اور حرمت والی بےگناہ جان پر ہاتھ ڈالنا فساد فی الارض کی بھیانک ترین صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ظلم کی بنا پر جب کوئی شخص کسی کی جان کے درپے ہوجائے تو وہ قتل کا مستحق قرار پاتا ہے اور اس کا خون جائز ہوجاتا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ابن رستم نے امام محمد سے اور انہوں نے امام ابوحنیفہ سے روایت کی ہے کہ نقب لگانے والے چور کو قتل کردینا جائز ہے۔ اس لئے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (من قتل دون مالہ فھو شہید جو شخص اپنے مال کے دفاع میں مارا گیا وہ شہید ہے) ایسا شخص صرف اس وجہ سے شہید ہے کہ اسے حتیٰ الامکان مقابلہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ چیز اس حکم کو متضمن ہے کہ موقعہ ملنے کی صورت میں مال کے مالک پر اس نقب زن کو قتل کردینا واجب ہے۔ اسی طرح اس شخص کے بارے میں امام ابوحنیفہ کا قول ہے جس کے دانت اکھیڑنے کا کوئی ارادہ کرے اور یہ شخص ایسی جگہ پر ہو جہاں کسی اور کو اپنی مدد کے لئے بلا بھی نہ سکتا ہو تو اس صورت میں اپنے دانتوں کے دفاع میں وہ اسے قتل کرسکتا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ دانت اکھیڑنے کا معاملہ مال چھین لینے سے بڑھ کر ہے۔ جب ایک شخص اپنے مال کی حفاظت کی خاطر حملہ آور کو قتل کرسکتا ہے تو دانتوں کی حفاظت کی خاطر حملہ آور کو قتل کردینا اولیٰ ہوگا۔
Top