Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 28
لَئِنْۢ بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَكَ لِتَقْتُلَنِیْ مَاۤ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْكَ لِاَقْتُلَكَ١ۚ اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ
لَئِنْۢ بَسَطْتَّ : البتہ اگر تو بڑھائے گا اِلَيَّ : میری طرف يَدَكَ : اپنا ہاتھ لِتَقْتُلَنِيْ : کہ مجھے قتل کرے مَآ اَنَا : میں نہیں بِبَاسِطٍ : بڑھانے والا يَّدِيَ : اپنا ہاتھ اِلَيْكَ : تیری طرف لِاَقْتُلَكَ : کہ تجھے قتل کروں اِنِّىْٓ : بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں اللّٰهَ : اللہ رَبَّ : پروردگار الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
اور اگر تو مجھے قتل کرنے کیلئے مجھ پر ہاتھ چلائے گا تو میں تجھ کو قتل کرنے کیلئے تجھ پر ہاتھ نہیں چلاؤں گا۔ مجھے تو خدائے رب العالمین سے ڈرلگتا ہے۔
قول باری ہے (لئن بسطت الی یدک لتقتلنی ما انا بباسط یدی الیک لاقتلک اگر تو مجھے قتل کرنے کے لئے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لئے ہاتھ نہ اٹھائوں گا) حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا اس کے معنی ہیں کہ اگر تو مجھے قتل کرنے میں پہل کرے گا تو میں پہل نہیں کروں گا۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جب تو میرے قتل کا قصد و ارادہ کرے گا تو میں اپنا دفاع نہیں کروں گا۔ روایت ہے کہ اس نے دھوکے سے قتل کردیا تھا۔ جب وہ نیند میں تھا اس پر ایک بڑا پتھر لڑھکا دیا جس سے اس کا سر پاش پاش ہوگیا۔ حسن اور مجاہد سے یہ روایت ہے کہ ان پر یہ فرض کردیا گیا تھا کہ جب کوئی کسی کے قتل کا ارادہ کرے تو وہ اسے ایسا کرلینے دے اور اپنا دفاع نہ کرے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ عقلی طور پر اس کا جواز ہے کہ اس جیسے حکم کا وردد بطور عبادت ہوا ہو۔ اگر پہلی تاویل لی جائے تو اس میں اس بات کے جواز پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ جو شخص کسی کو قتل کرنے کا ارادہ کرے وہ اپنے دفاع میں اسے قتل نہ کرے۔ اس میں صرف یہ بات ہے کہ وہ اپنی طرف سے اقدام قتل میں پہل نہ کرے۔ اگر دوسری تاویل لی جائے تو یہ لامحالہ منسوخ ہے۔ ممکن ہے کہ بعض انبیاء متقدمین کی شریعت کے ذریعے اس حکم کو منسوخ کردیا گیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا نسخ ہمارے نبی کریم ﷺ کی شریعت کے ذریعے عمل میں آیا ہو۔ حضور ﷺ کی شریعت میں یہ حکم اب باقی نہیں ہے، نیز یہ کہ جس شخص کو کوئی شخص قتل کردینے کا ارادہ کرے اس پر واجب ہے کہ بس چلنے پر وہ اسے قتل کر دے اس کے لئے اسے قتل نہ کرنے کی بس چلنے کی حد تک کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے (وان طائفتان من المومنین اقتتلوا فاصلحوا بینھما فان بعث احذذاھما علی الاخری فقاتلوا التی تبغی حتی تقی الی امر اللہ۔ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں برسرپیکار ہوجائیں تو ان دونوں کے درمیان صلح کرا دو ، اس کے بعد اگر ایک گروہ دوسرے کے ساتھ زیادتی پر اتر آئے تو سرکشی کرنے والے گروہ کے خلاف قتال کرو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئیں۔ اللہ تعالیٰ نے باغی گروہ کے خلاف قتال کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی بغاوت نہیں ہوسکتی کہ ایک انسان ناحق دوسرے انسان کی جان کے درپے ہوجائے۔ یہ آیت ناحق کسی انسان کی جان کے درپے ہوجانے والے کو قتل کردینے کی مقتضی ہے۔ قول باری ہے (ولکم فی القصاص حیوۃ قصاص لینے کے اندر تمہارے لئے زندگی ہے) اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ قصاص یعنی قاتل کو قتل کردینے کے حکم کے ایجاب میں ہمارے لئے زندگی ہے۔ اس لئے کہ ناحق کسی کے قتل کے درپے ہوجانے والے کو جب یہ علم ہوگا کہ اس سے قصاص لیا جائے گا تو وہ قتل کے فعل سے باز رہے گا۔ یہی بات اس صورت میں بھی موجود ہے جس میں ناحق قتل کے درپے ہونے والے شخص کو قتل کردیا جائے کیونکہ اس طرح ایک بےگناہ شخص کی جان بچ جاتی اور اسے زندگی مل جاتی ہے ارشاد باری ہے (وقاتلوا ھم حتی لا تکون فتنۃ، ان کے خلاف جنگ کرو حتیٰ کہ فتنہ باقی نہ رہے) اللہ تعالیٰ نے فتنہ ختم کرنے کے لئے قتل کا حکم دیا۔ کسی کی ناحق جان لینے کا ارادہ کرنا بھی فتنہ اور فساد کی ایک صورت ہے۔ ہمیں عبد الباقی بن قانع نے روایت بیان کی انہیں اسماعیل بن فضل نے، انہیں حسین بن حریث نے، انہیں الفضل بن موسیٰ نے معمر سے، انہوں نے عبد اللہ بن طائوس سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (من شھر سیفہ ثم وضعہ قدمہ ھدر۔ جس شخصنے اپنی تلوار بلند کی اور پھر کسی کی جان لے لی تو اس کا خون رائیگاں جائے گا) یعنی اس قاتل کو کوئی اگر قتل کر دے تو اس کا کوئی خونبہا ادا نہیں کیا جائے گا۔ حضور ﷺ سے حد استفاضہ کو پہنچنے والی روایات میں منقول ہے کہ آپ نے فرمایا (من قتل دون نفسہ فھو شھید و من قتل دون اھلہ فھو شہید ومن قتل دون مالہ فھو شہید۔ جو شخص اپنی جان کا دفاع کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے۔ جو شخص اپنے اہل و عیال کا دفاع کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے اور جو شخص اپنے مال کا دفاع کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے) عبداللہ بن الحسین نے عبدالرحمٰن الاعرج سے روایت کی ہے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (من ارید مالہ فقاتل فقتل فھو شہید جس شخص کا مال لوٹنے کی کوشش کی جائے اور وہ مقابلہ کرتے ہوئے مارا جائے تو وہ شہید ہے) حضور ﷺ نے یہ بتایا کہ جو شخص اپنی جان، اپنے اہل و عیال اور اپنے مال کا دفاع کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہوتا ہے۔ ایک شخص کی اپنے مال کے دفاع میں اس وقت جان جاتی ہے جب وہ مال کی حفاظت کی خاطر مقابلہ کرتا ہے۔ اس پر حضور ﷺ کا وہ قول دلالت کرتا ہے جو آپ نے حضرت ابوسعید خدری سے فرمایا تھا (من رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ وذاک اضعف الایمان ۔ تم میں سے جو شخص کسی منکر یعنی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ کے ذریعے بدل ڈالے اگر وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا تو اپنی زبان کے ذریعے اسے بدلے یعنی اس کے خلاف آواز اٹھائے اور اگر وہ اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا تو کم از کم اسے دل سے برا سمجھے یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ ) حضور ﷺ نے برائی کو طاقت کے ذریعے بدل ڈالنے کا حکم دیا اور اگر قتل کے بغیر اس برائی کو بدل ڈالنا ممکن نہ ہو تو ظاہر حدیث کا مقتضیٰ ہے کہ اسے قتل کردیا جائے، اس مسئلے میں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے کہ اگر کسی نے ناحق کسی کو قتل کرنے کی نیت سے تلوار اٹھا لی تو مسلمانوں پر اسے قتل کرنا واجب ہے۔ اسی طرح جس شخص کے قتل کا ارادہ کیا جائے اس کے لئے قتل کے درپے انسان کو قتل کردینا جائز ہے۔ خارجیوں نے جب لوگوں کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت علی ؓ نے انہیں تہ تیغ کیا۔ آپ کے ساتھ دیگر صحابہ کرام بھی تھے اور اس معاملے میں سب کو آپ سے اتفاق تھا۔ حضور ﷺ سے ایسی روایات منقول ہیں جن میں ایسے لوگوں کو قتل کردینا واجب قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک حدیث وہ ہے جس کی حضرت ابو سعید خدری ؓ اور حضرت انس ؓ نے روایت کی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے : (سیکون فی امتی اختلاف دفرقۃ فیھم قوم یحسنون القول ویسیئون العمل یمرقون من الدین کما یمرق السھم من الرمیۃ طوبی لمن قتلھم او قتلوہ، عنقریب میری امت میں جھگڑے کھڑے ہوں گے اور تفرقہ پھیلے گا، ان میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو باتیں تو بڑی اچھی کریں گے لیکن ان کے اعمال برے ہوں گے۔ دین سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر نشانے سے پار نکل جاتا ہے۔ خوش بختی ہے اس شخص کے لئے جو ایسے لوگوں کو قتل کرے یا ان کے ہاتھوں قتل ہوجائے) ۔ ایسی بہت سی مشہور روایات ہیں۔ سلف نے ان روایات کو نہ صرف قبول کیا بلکہ ان جیسے لوگوں کے خلاف جنگ کو نیز ان کے قتل کو واجب سمجھتے ہوئے ان پر عمل پیرا بھی ہوئے۔ ابوبکر بن عیاش نے روایت بیان کی، انہیں ابوالاحوص نے سماک سے، انہوں نے قابوس بن ابو المخارق سے، انہوں نے اپنے والد سے کہ ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ﷺ ! ایک شخص میرا مال لوٹنے کے لئے میرے پاس آتا ہے، میں اس کے ساتھ کیا سلوک کروں ؟ “ آپ ﷺ نے فرمایا : ” اسے اللہ کی یاد دلائو “ عرض کیا : ” اگر وہ اللہ کو یاد نہ کرے :“ فرمایا : ” تو پھر اس کے مقابلہ کے لئے اردگرد رہنے والے مسلمانوں سے مدد طلب کرو۔ “ عرض کیا : ” اگر میرے اردگرد مسلمان نہ ہوں تو کیا کروں ؟ “ فرمایا : اس کے خلاف سلطان سے مدد لو۔ “۔ عرض کیا : ” الر سلطان مجھ سے دور ہو تو کیا کروں ؟ “ فرمایا : پھر اپنے مال کے دفاع میں مقابلہ کرو یہاں تک کہ اپنا مال محفوظ کرلو یا تمہاری جان چلی جائے اور تم آخرت میں شہید کہلائو۔ “ کچھ بےعلم اور ناسمجھ لوگ اس مسئلے کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی کے قتل کا ارادہ کرے تو اسے اس ارادے سے باز رکھنے کے لئے قتل کی زد میں آنے والا شخص نہ اسے قتل کرے اور نہ ہی اپنی جان کے دفاع میں اسے کچھ کہے حتیٰ کہ اس کے ہاتھوں اپنی جان گنوا بیٹھے۔ انہوں نے اس آیت سے یہی مفہوم اخذ کیا ہے۔ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ آیت میں کوئی ایسی دلالت نہیں ہے جس سے یہ پتہ چل سکے کہ قتل کی زد میں آنے والا شخص قاتل کو اس کے ارادے سے باز رکھنے کے لئے کچھ نہ کرے اور اپنی جان کے دفاع میں موقع ملنے پر اسے قتل نہ کرے۔ آیت تو صرف اس پر دلالت کرتی ہے کہ وہ قتل کے فعل میں پہل نہ کرے۔ جس طرح حضرت ابن عباس ؓ سے اس کی یہ تفسیر مروی ہے۔ اگر ان لوگوں کے دعوے پر آیت کی دلالت ثابت بھی ہوجائے تو ہم نے قرآن و سنت اور مسلمانوں کے اتفاق کی روشنی میں جو بات بیان کی ہے اس کے ذریعے یہ حکم منسوخ سمجھ لیا جائے۔ وہ بات یہ ہے کہ تمام لوگوں پر یہ واجب ہے کہ ایک بےگناہ کی جان بچانے کے لئے قتل کے ارادے سے آنے والے شخص کو اس سے دور کردیں خواہ اس میں اس کی جان ہی کیوں نہ لینی پڑے اس گروہ نے حضور ﷺ سے مروی چند احادیث کا وہ مفہوم بیان کیا ہے جو ان کے دعوے کی تائید کرتا ہے۔ ان میں سے ایک حدیث وہ ہے جس کی روایت حضرت ابوموسیٰ اشعری نے حضور ﷺ سے کی ہے آپ کا ارشاد ہے (افاتو اجہ المسلمان بسیفیھما فقتل احدھما صاحبہ فالقاتل والمقتول فی النار۔ جب دو مسلمان اپنی اپنی تلوار لے کر ایک دوسرے کے مقابلے پر اتر آئیں اور ایک کے ہاتھوں دوسرا قتل ہوجائے تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے) عرض کیا گیا کہ قاتل کا جہنم میں جانا تو سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن مقتول کیوں جہنم میں جائے گا ؟ ارشاد ہوا (انہ اراد قتل صاحبہ۔ اس نے بھی تو دوسرے کے قتل کا ارادہ کیا تھا) علی بن زید بن جدعان نے حسن سے اور انہوں نے حضرت سعد بن مالک ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (ان اسقطعت ان تکون عبد اللہ المقتول فافعل ولا تقتل احدا من اھل القبلۃ۔ اگر تم اللہ کے مقتول بندے بن سکو تو بن جائو لیکن تمہارے ہاتھوں قبلے کی طرف رخ کرنے والا کوئی شخص یعنی مسلمان قتل نہ ہونے پائے) ۔ حسن نے احنف بن قیس سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں میں نے حضرت ابوبکر ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے حضور ﷺ کی زبان مبارک سے یہ ارشاد سنا ہے کہ (اذا التقی المسلمان بسیفیھما فالقاتل و المقتول فی النار جب دو مسلمان اپنی اپنی تلوار لے کر ایک دوسرے کے مقابلہ پر اتر آئیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے) میں نے عرض کیا کہ قاتل کے جہنم رسید ہونے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے مقتول کیوں جہنم میں جائے گا ؟ ارشاد ہوا (انہ کان حریصا علی قتل صاحبہ اس لئے کہ اس نے بھی اپنے ساتھی کی جان لینے کی ٹھانی ہوئی تھی) معمر نے حسن سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (ان ابنی آدم ضربا مثلا لھذہ الامۃ فخذوا بالخیر منھما۔ آدم کے دو بیٹوں نے اس امت کے لئے ایک مثال قائم کردی ہے اب تم اس بیٹے کے رویے کو اپنا نوجوان دونوں میں سے بھلا تھا) معمر نے ابو عمران الجونی سے روایت کی ہے انہوں نے عبد اللہ بن الصامت سے اور انہوں نے حضرت ابوذر ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : ” ابوذر ! اس وقت کیا کرو گے جب اس شہر مدینہ میں قتل کا بازار گرم ہوگا ؟ “ حضرت ابوذر ؓ نے عرض کیا : ” پھر میں بھی اپنے ہتھیار باندھ لوں گا۔ “ ارشاد ہوا : ” پھر تو تم بھی ان غلط کاروں کے ساتھ شامل سمجھے جائو گے “۔ عرض کیا : ” اللہ کے رسول ﷺ ! پھر مجھے کیا کرنا چاہیے ؟ “ ارشاد ہوا : ” اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تلوار کی چمک تمہاری آنکھوں کو چکا چوند کر دے گی تو اپنے کپڑے کا ایک پلو چہرے پر ڈال لینا اور چپ چاپ قتل ہوجانا تاکہ تمہارا قاتل قیامت کے دن تمہارا اور اپنا دونوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے آئے۔ “ ان لوگوں نے درج بالا آثار سے اپنے دعوے پر استدلال کیا ہے حالانکہ ان آثار و روایات میں ان کی تائید میں کوئی دلالت نہیں ہے۔ پہلی حدیث جس کے راوی حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ ہیں ان کی تائید میں کوئی دلالت نہیں ہے۔ پہلی حدیث جس کے راوی حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ ہیں اس کا درست مفہوم یہ ہے کہ جب دو مسلمان عصبیت اور فتنہ و فساد پھیلانے والے لوگوں کی طرح ازروئے ظلم ایک دوسرے پر تلوار کھینچ لیں تو پھر قاتل اور مقتول دونوں کا انجام جہنم ہوگا۔ حضرت سعد بن مالک ؓ کی حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں کی آپس کی خانہ جنگی اورف تنہ و فساد کے زمانے میں قتل و قتال سے اپنا ہاتھ روک لیا جائے اور شبہ کی بنا پر کسی کی جان نہ لی جائے۔ اگر سکی نے کسی ایسے شخص کو قتل کردیا جو وقاعی قتل ہونے کا مستحق تھا تو یہ بات سب کو معلوم ہے کہ حضور ﷺ نے اس کی نفی نہیں فرمائی ہے۔ معمر نے حسن سے حضرت آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کے متعلق جو روایت نقل کی ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ قتل کے فعل میں پہل نہ کی جائے، رہ گئی یہ بات کہ اپنی جان کے دفاع میں قتل کی نیت سے آنے والے شخص کو اس فعل سے روکنا اور باز رکھنا تو حضور ﷺ نے اس سے منع نہیں فرمایا۔ اگر یہ لوگ حضور ﷺ کے اس ارشاد سے استدلال کریں جس میں آپ ﷺ نے فرمایا (لایحل دم امرئی مسلم الا باحدی ثلث کفر بعد ایمان، وزنا بعد احصات و قتل نفس بغیر نفس، کسی مسلمان کا خون صرف ان تین باتوں میں سے ایک کی بنا پر حلال ہوسکتا ہے۔ یا تو ایمان لانے کے بعد کافر اور مرتد ہوگیا ہو یا صفت احصان کے حصول کے بعد اس نے زنا کا ارتکاب کرلیا ہو یا ناحق کسی کی جان لے لی ہو) ۔ اس روایت کی رو سے قتل کا ارادہ کرنے والا جب تک قتل کے فعل کا ارتکاب نہ کرے اس وقت تک اسے قتل کرنا جائز نہیں ہوگا اس لئے کہ حضور ﷺ نے صرف مذکورہ بالا تین اسباب کے سوا کسی اور وجہ سے اس کے قتل کی نفی کردی ہے۔ جو شخص قتل کے ارادے سے آئے اس نے ابھی تک قتل نہیں کیا اس لئے وہ قتل کئے جانے کا مستحق قرار نہیں پائے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ وہ شخص اس حدیث میں داخل ہے جو ازروئے ظلم کسی کی جان لینے کے درپے ہو اس لئے کہ اس نے ایک شخص کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا تھا ہم نے اسے صرف اس ارادے کی بنا پر قتل کردیا تاکہ وہ ایک بےگناہ شخص کی جان نہ لے سکے اور اس طرح ہم نے اسے قتل کر کے اپنا مقصد حاصل کرلیا۔ اگر یہ معاملہ اس گروہ کے مسلک کے مطابق ہوتا یعنی ازروئے ظلم قتل کے ارادے سے آنے والے شخص پر ہاتھ اٹھانے کی ممانعت ہوتی۔ یہاں تک کہ اسے ایک بےگناہ کے خون سے ہاتھ رنگنے کا موقع مل جائے اور وہ اس گھنائونے فعل کا ارتکاب کر کے چلتا بنے تو پھر یہی طریق کار دوسری تمام محظورات کے سلسلے میں اپنانا واجب ہوتا یعنی جب کوئی فاجر انسان ان محظورات میں سے کسی فعل مثلاً زنا کاری و زبردستی کسی کے مال پر قبضہ وغیرہ کے ارتکاب کا ارادہ کرتا تو اسے ایسا کرنے کی کھلی چھٹی دے دی جاتی، جس کے نتیجے میں ایک طرف امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا سارا عمل ٹھپ ہوجاتا۔ تو دوسری طرف فاسق و فاجر اور ظالم قسم کے لوگوں کو اوپر آنے کا موقعہ مل جاتا اور اس طرح شریعت کے آثار و نشانات مٹ کر رہ جاتے۔ میں نہیں سمجھتا اسلام اور اہل اسلام کو اس مسلک کی وجہ سے جتنا نقصان پہنچا شاید ہی کسی اور مسلک سے پہنچا ہو۔ اسی باطل مسلک نے فاسق و فاجر لوگوں کو مسلمانوں کے معاملات پر چھا جانے اور ان کے شہروں اور علاقوں پر تسلط جمانے کا موقعہ فراہم کیا حتیٰ کہ ان لوگوں نے اپنی من مانی کی اور اللہ کے احکام کے نفاذ کو چھوڑ کر اپنے احکامات جاری کئے۔ اس کے نتیجے کے طور پر سرحدات کی حفاظت کا کام بھی ٹھپ ہوگیا اور دشمنوں کو مسلمانوں کے علاقوں پر قبضہ کرنے کا موقعہ مل گیا کیونکہ عوام الناس اس مسلک کی طرف مائل ہوگئے تھے اور اس کے نتیجے میں باغی گروہ کے خلاف صف آراء ہونے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے سے کنارہ کش ہوگئے تھے اور حدیہ کہ انہوں نے اپنے حاکموں کو ان کی غلط روی پر ٹوکنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ بس اللہ ہی سے مدد کی درخواست ہے۔ اس بارے میں جمہور کے قول کی صحت پر نیز اس پر کہ ازروئے ظلم قتل کے ارادے سے آنے والا شخص قتل کا مستحق ہوتا ہے بلکہ تمام مسلمانوں پر اسے قتل کردینے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ قول باری دلالت کرتا ہے (من اجل ذلک کتبنا علی بنی اسرائیل انہ من قتل نفسا بغیر نفس اوفساد فی الارض فکانما قتل الناس جیمعا۔ اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا تو اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا۔ آیت کے مضمون میں زمین کے اندر فساد مچانے والے انسان کے قتل کی اباحت کا حکم موجود ہے اور حرمت والی بےگناہ جان پر ہاتھ ڈالنا فساد فی الارض کی بھیانک ترین صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ظلم کی بنا پر جب کوئی شخص کسی کی جان کے درپے ہوجائے تو وہ قتل کا مستحق قرار پاتا ہے اور اس کا خون جائز ہوجاتا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ابن رستم نے امام محمد سے اور انہوں نے امام ابوحنیفہ سے روایت کی ہے کہ نقب لگانے والے چور کو قتل کردینا جائز ہے۔ اس لئے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (من قتل دون مالہ فھو شہید جو شخص اپنے مال کے دفاع میں مارا گیا وہ شہید ہے) ایسا شخص صرف اس وجہ سے شہید ہے کہ اسے حتیٰ الامکان مقابلہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ چیز اس حکم کو متضمن ہے کہ موقعہ ملنے کی صورت میں مال کے مالک پر اس نقب زن کو قتل کردینا واجب ہے۔ اسی طرح اس شخص کے بارے میں امام ابوحنیفہ کا قول ہے جس کے دانت اکھیڑنے کا کوئی ارادہ کرے اور یہ شخص ایسی جگہ پر ہو جہاں کسی اور کو اپنی مدد کے لئے بلا بھی نہ سکتا ہو تو اس صورت میں اپنے دانتوں کے دفاع میں وہ اسے قتل کرسکتا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ دانت اکھیڑنے کا معاملہ مال چھین لینے سے بڑھ کر ہے۔ جب ایک شخص اپنے مال کی حفاظت کی خاطر حملہ آور کو قتل کرسکتا ہے تو دانتوں کی حفاظت کی خاطر حملہ آور کو قتل کردینا اولیٰ ہوگا۔
Top