Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 29
اِنِّیْۤ اُرِیْدُ اَنْ تَبُوْٓءَاۡ بِاِثْمِیْ وَ اِثْمِكَ فَتَكُوْنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ١ۚ وَ ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیْنَۚ
اِنِّىْٓ : بیشک اُرِيْدُ : چاہتا ہوں اَنْ تَبُوْٓاَ : کہ تو حاصل کرے بِاِثْمِيْ : میرا گناہ وَاِثْمِكَ : اور اپنا گناہ فَتَكُوْنَ : پھر تو ہوجائے مِنْ : سے اَصْحٰبِ النَّارِ : جہنم والے وَذٰلِكَ : اور یہ جَزٰٓؤُا : سزا الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
میں چاہتا ہوں کہ تو میرے گناہ میں بھی ماخوذ ہو اور اپنے گناہ میں بھی پھر (زمرئہ) اہل دوزخ میں ہو۔ اور ظالموں کو یہی سزا ہے۔
قول باری ہے (انی ارید ان تبوء باتمی واتمک۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا اور اپنا گناہ تو ہی سمیٹ لے) حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت ابن مسعود ؓ ، حسن، مجاہد، قتادہ اور ضحاک سے مروی ہے کہ ” میرے قتل کا گناہ اور تیرا گناہ جو تو نے میرے قتل سے پہلے کیا تھا “۔ دوسرے حضرات کا قول ہے۔ ” تیرا گناہ جس کی وجہ سے تیری قربانی قبول نہیں ہوتی “۔ آیت میں مراد یہ ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تو میرے اور اپنے گناہوں کی سزا سمیٹ لے، اس لئے کہ اثم یعنی گناہ کی حقیقت یہاں مراد لینا درست نہیں ہے اس لئے کہ کسی کو یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی طرف سے یا کسی اور کی طرف سے اللہ کی نافرمانی کا ارادہ کرے جس طرح یہ جائز نہیں کہ وہ کسی کو اللہ کی نافرمانی کا حکم دے۔ تبوع کے معنی ترجع، (لوٹنے) کے ہیں۔ جب کوئی شخص اپنے ٹھکانے یعنی گھر کی طرف لوٹ آتا ہے تو اس موقعہ پر یہ فقرہ کہا جاتا ہے ” باء فلان “ (فلاں شخص واپس آگیا) ” بائو بعضب اللہ “ کے معنی ہیں ” رجعوا “ یعنی وہ لوگ اللہ کا غضب لے کر لوٹے۔ ’ بواء ‘ کے معنی ہیں ” قصاص کے ساتھ لوٹنا “۔ اسی طرح محاورہ ہے۔ ” وھم فی ھذا الامر بواء “ (وہ لوگ اس معاملے میں یکساں ہیں) اس فقرے میں ’ بواء ‘ کے معنی ” سواء “ کے ہیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق یہ فقرہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ سب کے سب اس بارے میں ایک ہی رخ پر لوٹتے اور رجوع کرتے ہیں۔
Top