Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 33
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْۤا اَوْ یُصَلَّبُوْۤا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ١ؕ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ
اِنَّمَا : یہی جَزٰٓؤُا : سزا الَّذِيْنَ : جو لوگ يُحَارِبُوْنَ : جنگ کرتے ہیں اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَ : اور يَسْعَوْنَ : سعی کرتے ہیں فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں فَسَادًا : فساد کرنے اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا : کہ وہ قتل کیے جائیں اَوْ : یا يُصَلَّبُوْٓا : وہ سولی دئیے جائیں اَوْ : یا تُقَطَّعَ : کاٹے جائیں اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھ وَاَرْجُلُهُمْ : اور ان کے پاؤں مِّنْ : سے خِلَافٍ : ایکدوسرے کے مخالف سے اَوْ يُنْفَوْا : یا، ملک بدر کردئیے جائیں مِنَ الْاَرْضِ : ملک سے ذٰلِكَ : یہ لَهُمْ : ان کے لیے خِزْيٌ : رسوائی فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَلَهُمْ : اور ان کے لیے فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
جو لوگ خدا اور اس کے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کو دوڑتے پھریں انکی یہی سزا ہے کہ قتل کردیے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں یا ان کے ایک ایک طرف کے ہاتھ اور ایک ایک طرف کے پاؤں کاٹ دیے جائیں یا ملک سے نکال دیے جائیں یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لئے بڑا (بھاری) عذاب (تیّار) ہے۔
محاربین کی حد یعنی سزا قول باری ہے (انما جزاء الذین یحادبون اللہ و رسولہ و یسعون فی الارض فسادا ان یقتلوا او یصلبوا او تقطع ایدیھم و ارجلھم من خلاف او ینفوا من الارض، جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لئے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کئے جائیں یا سولی پر چڑھائے جائیں یا ان کے ہاتھ اور پائوں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں یا وہ جلاوطن کردیئے جائیں) ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (یجادبون اللہ) مجازی معنی پر محمول ہے۔ حقیقی معنی پر نہیں اس لئے کہ اللہ سے لڑنا امر محال ہے۔ اس میں دو معنوں کا احتمال ہے۔ ایک یہ کہ جو لوگ طاقت پکڑ کر کھلم کھلا اسلحہ استعمال کرنے اور لوٹ مار کے لئے نکل آئیں انہیں محاربین کے نام سے موسوم کیا گیا اس لئے کہ ان کی حیثیت اس شخص جیسی ہے جو دوسرے لوگوں سے لڑنے بھڑنے پر کمربستہ ہوجانے اور ان کے لئے رکاوٹیں پیدا کردے۔ انہیں برسرپیکار لوگوں کے مشابہ قرار دے کر محاربین کے نام سے موسوم کیا گیا جس طرح یہ ارشاد باری ہے (ذلک بانھم شاقوا اللہ و رسولہ یہ (حکم قتال) اس لئے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی) نیز فرمایا (ان الذین یحادون اللہ ورسولہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں) مشاقت کے معنی یہ ہیں کہ فریقین میں سے ہر فریق دوسرے فریق کی مخالف جانب ہو۔ محادت کے معنی یہ ہیں کہ ہر فریق دوسرے فریق سے علیحدگی کی بنا پر ایک کنارے پر ہو۔ یہ بات اللہ کی ذات کی نسبت سے محال ہے اس لئے کہ اس کی ذات مکان اور مکانیت سے ماورا ہے اس لئے اس کے ساتھ نہ مناقشت ہوسکتی ہے اور نہ ہی محادت نہ ہی اس کی ذات کے لئے مبانیت اور مفارقت کا جواز ہوسکتا ہے۔ اس میں صرف باہم دشمنی رکھنے والے دو افراد کے ساتھ لفظی تشبہ ہے اس لئے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کی مخالف جانب اور علیحدہ کنارے پر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت مخالفت اور مبانیت کے اظہار میں مبالغہ کے طور پر ہوئی ہے۔ اسی طرح قول باری (یحاربون اللہ) میں احتمال ہے کہ انہیں ان لوگوں کے مشابہ قرار دے کر جو دوسروں کے ساتھ مخالفت کا اظہار کرتے اور ان سے لڑتے ہیں، اس نام سے موسوم کردیا گیا۔ محاربت کی یہ علامت صرف مذکورہ بالا گروہ کے ساتھ اس لئے خاص کردی گئی کہ طاقت پکڑنے کے بعد یہ اللہ کے احکام کی مخالفت، قابل احترام چیزوں اور عورتوں کی بےحرمتی نیز اسلحہ کی نمائش کے لئے نکل آتا ہے۔ اللہ کی نافرمانی کرنے والے ہر شخص کو اس نام سے موسوم نہیں کیا گیا اس لئے کہ وہ طاقت اور قوت پکڑنے نیز لوٹ مار کرنے اور ڈاکے ڈالنے کے لحاظ سے اس درجے پر نہیں پہنچتا “۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ ان سے مراد وہ لوگ ہوں جو اللہ کے دوستوں اور اس کے رسول سے برسرپیکار ہوتے اور لڑتے ہیں جس طرح یہ ارشاد باری ہے (الذین یوذون اللہ وہ لوگ جو اللہ کو اذیت پہنچاتے ہیں) یعنی اللہ کے دوستوں کو اذیت پہنچاتے ہیں۔ ) اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اگر یہ لوگ اللہ کے رسول سے برسرپیکار ہوتے تو اس بنا پر کہ انہوں نے حضور ﷺ سے محاربت کا اظہار کیا ہے انہیں مرتد قرار دے دیا جاتا۔ اور اس کے رسول کے ساتھ محاربت کے لفظ کا اس شخص پر اطلاق درست ہوتا ہے جو کھلم کھلا معصیت کا ارتکاب کر کے اپنے جرم کو انتہائی سنگین بنا دیتا ہے۔ اگرچہ وہ اہل ملت میں سے کیوں نہ ہو۔ اس کی دلیل وہ روایت ہے جسے زید بن اسلم نے اپنے والد سے نقل کی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت معاذ ؓ کو روتے ہوئے دیکھا تو ان سے رونے کی وجہ پوچھی، حضرت معاذ ؓ نے جواب میں فرمایا کہ میں نے حضور ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ (الیسیر من الریا شرک ، من عادی اولیہ اللہ فقد بارز اللہ بالمحاربۃ تھوڑی سی ریاکاری بھی شرک ہے، جس شخص نے اللہ کے دوستوں سے دشمنی کی اس نے گویا اللہ تعالیٰ کو جنگ کے لئے للکارا) ۔ حضور ﷺ نے ایسے شخص پر محاربت کے اسم کا اطلاق کیا اور ارتداد کا ذکر نہیں کیا جو شخص کسی مسلمان کا مال چھیننے کی غرض سے اس کے ساتھ لڑائی کرے گا وہ اللہ کے دوستوں سے دشمنی کا مرتکب ہوگا اور اس بنا پر اللہ تعالیٰ سے برسرپیکار قرار پائے گا۔ اسیاط نے سدی سے روایت کی ہے، انہوں نے حضرت ام سلمہ ؓ کے غلام صبیح سے، اور انہوں نے حضرت زید بن ارقم سے کہ حضور ﷺ نے حضرت علی ؓ ، حضرت فاطمہ ؓ اور حضرت حسن ؓ و حضرت حسین ؓ سے فرمایا (ان حرب لمن حاربتم وسلم لمن سالمتم جس کے ساتھ تم جنگ کرو گے میری بھی اس کے ساتھ جنگ ہے اور جس کے ساتھ تم صلح کرو گے میری بھی اس کے ساتھ صلح ہے) ۔ اس طرح ان حضرات کے ساتھ جنگ کرنے والا اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کرنے والا کہلانے کا مستحق ہوگیا اگرچہ وہ مشرک نہ بھی ہو۔ ہمارے اس بیان سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قاطع الطریق یعنی رہزن پر بھی اس اسم یعنی محارب کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس پردہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جسے اشعث نے شعبی سے اور انہوں نے سعد بن قیس سے نقل کیا ہے کہ حارثہ بن بدر نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کی اور زمین میں فساد برپا کرنے کے لئے تگ و دو کی لیکن قابو میں آنے سے پہلے توبہ کرلی۔ حضرت علی ؓ نے بصرہ میں اپنے گورنر کو لکھا کہ حارثہ بن بدر نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ محاربت کی اور ہمارے قابو میں آنے سے پہلے توبہ کرلی اس لئے تم اس سے کوئی تعرض نہ کرو اور بھلائی سے پیش آئو۔ حضرت علی ؓ نے اس شخص پر محارب کے اسم کا اطلاق کیا۔ جبکہ یہ مرتد نہیں ہوا تھا اس نے صرف رہزنی کی تھی۔ یہ روایات اور ہمارے بیان کے مطابق آیت کا مفہوم اس بات کی دلیل ہیں کہ محارب کا اسم رہزنوں کو بھی لاحق ہوتا ہے اگرچہ یہ کافر اور مشرک نہ بھی ہوں۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ فقہائے امصار جن کا تعلق سلف سے بھی ہے اور بعد میں آنے والے حضرات یعنی خلف سے بھی، ان کے مابین اس امر میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے کہ یہ حکم مرتدین کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ان لوگوں کے بارے میں ہے جو رہزنی کرتے ہیں خواہ وہ اہل ملت میں سے کیوں نہ ہوں۔ بعض متاخرین سے جو کسی طرح قابل اعتنا نہیں ہیں یہ منقول ہے کہ یہ حکم مرتدین کے ساتھ خاص ہے لیکن یہ قول نہ صرف ساقط اور رد کردینے کے قابل ہے بلکہ یہ آیت اور سلف و خلف کے اجماع کے بھی خلاف ہے۔ ان لوگوں سے مراد ایسے رہزن ہیں جو ملت اسلام سے تعلق رکھتے ہوں اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے (الا الذین تابوا من قبل ان تقدروا علیھم فاعلموا ان اللہ غفور رحیم مگر جو لوگ توبہ کرلیں قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پائو، تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے) یہ بات معلوم ہے کہ مرتدین اگر قابو میں آنے سے پہلے یا اس کے بعدت وبہ کرلیں تو ان سے سزا ٹل جاتی ہے اس لحاظ سے ان کے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ اللہ تعالیٰ نے آیت کے اندر قابو میں آنے سے پہلے یا قابو میں آنے کے بعد ایسے لوگوں کی توبہ میں فرق رکھا ہے۔ نیز ایک شخص کے مسلمان ہوجانے سے وہ حد ساقط نہیں ہوتی جو سزا کے طور پر اس پر واجب ہوچکی ہو۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ ان لوگوں سے راہزن مراد ہیں جن کا تعلق اہل ملت سے ہوتا ہے نیز یہ کہ قابو میں آنے سے پہلے ان کی توبہ ان سے سزا کو ساقط کردیتی ہے۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مرتد نفس ارتداد کی بنا پر قتل کا مستحق ہوجاتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کی بات کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جبکہ آیت میں جن لوگوں کا ذکر ہے وہ محاربت یعنی اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کرنے کی بنا پر قتل کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ آیت میں مرتدین مراد نہیں ہیں۔ نیز آیت میں ان لوگوں کی جلاوطنی کا ذکر ہے جو قابو میں آنے سے پہلے توبہ نہیں کرتے، جبکہ مرتد کو جلاوطن نہیں کیا جاتا۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ آیت کا حکم اہل ملت یعنی مسلمانوں کے اندر جاری ہوگا۔ ایک اور پہلو بھی ہے وہ یہ کہ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں کہ کوئی شخص کفر کی بنا پر ہاتھ اور پائوں کاٹے جانے کا سزاوار نہیں ہوتا نیز یہ کہ مرتدین میں سے کوئی قیدی اگر ہمارے ہاتھ آ جائے تو اس پر اسلام پیش کیا جائے گا۔ اگر وہ مسلمان ہوجائے تو فبہا ورنہ اس کی گردن اڑا دی جائے گی۔ اس کے ہاتھ پائوں کاٹے نہیں جائیں گے۔ ایک اور پہلو سے دیکھا جائے تو ظاہر ہوگا کہ آیت نے محارب کے ہاتھ پائوں کاٹنے کو واجب قرار دیا ہے اور اس کے ساتھ کوئی اور سزا واجب نہیں کی ہے جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ مرتد کو ہاتھ پائوں کاٹ دینے کے بعد چھوڑ دینا جائز نہیں بلکہ اسلام قبول نہ کرنے کی صورت میں اسے قتل کردیا جائے گا۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے ایک صورت میں صرف ہاتھ پائوں کاٹنے تک سزا کو محدود رکھنا واجب کردیا ہے اس کے ساتھ کوئی اور سزا تجویز نہیں کی ہے۔ ایک اور پہلو بھی ہے۔ سولی دینے کی سزا کا مرتدین کے حکم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ آیت ان لوگوں کے بارے میں ہے جو مرتدین کے علاوہ ہیں۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے (قل للذین کفروا ان ینتھوا یغفر لھم ما قد سلفہ کافروں سے کہہ دیں کہ اگر وہ باز آ جائیں تو ان کے سابقہ گناہ معاف کردیئے جائیں گے) ۔ محاربین کے بارے میں ارشاد باری ہے (الا الذین تابوا من قبل ان تقدروا علیھم فاعلموا ان اللہ غفور رحیم) اللہ تعالیٰ نے محاربین سے سزا کے ٹل جانے کی شرط یہ رکھی ہے کہ وہ قابو میں آنے سے پہلے توبہ کرلیں جبکہ کفر کی سزا کو توبہ کی بنا پر ساقط کردیا خواہ یہ توبہ قابو میں آنے سے پہلے یا بعد کی گئی ہو۔ اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے محاربین سے مرتدین مراد نہیں لیا ہے۔ یہ تمام وجوہ اس شخص کے قول کے بطلان پر دلالت کرتی ہیں جس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ آیت مرتدین کے ساتھ خاص ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ قتادہ، عبد العزیز بن صہیب اور دوسرے حضرات نے حضرت انس ؓ سے روایت کی ہے کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ حضور ﷺ کی خدمت میں آئے۔ آپ نے ان سے فرمایا : اگر تم لوگ ہمارے اونٹوں کے گلوں کی طرف نکل جاتے اور ان کا دودھ اور پیشاب پی لیتے (تو تمہاری بیماری دور ہوجاتی) “ چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا، جب وہ صحت یاب ہوگئے تو انہوں نے حضور ﷺ کے مقرر کردہ چرواہے کو قتل کردیا اور کفر اختیار کرنے کے بعد حضور ﷺ کے اونٹوں کو بھی … گئے۔ آپ نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے چناچہ وہ پکڑے گئے آپ نے ان کے ہاتھ پائوں کاٹنے اور ان کی آنکھیں پھوڑ دینے کا حکم دیا، اس کے بعد انہیں حرہ کے مقام پر چھوڑ دیا گیا جہاں وہ سب مرگئے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ عرینہ کے ان لوگوں کے متعلق روایات میں اختلاف ہے بعض راویوں نے حضرت انس ؓ سے وہی روایت بیان کی ہے جس کا ہم نے ابھی ذکر کیا ہے اور اس میں یہ اضافہ بھی ہے کہ آیت کے نزول کا سبب یہی واقعہ ہے۔ کلبی نے ابو صالح سے روایت کی ہے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ آیت کا نزول ابو برزہ اسلمی کے ساتھیوں کے بارے میں ہوا تھا، ابوبرزہ نے حضور ﷺ کے ساتھ امن کا معاہدہ کر رکھا تھا۔ اس کے ساتھیوں نے ایسے لوگوں کو لوٹ لیا جو اسلام لانے کے ارادے سے آ رہے تھے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ آیت قبیلہ عرینہ کے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی لیکن اس روایت میں ان کے ارتداد کا ذکر نہیں ہے۔ اوپر کی وضاحت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آیت یا قبیلہ عرینہ کے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی یا امن کا معاہدہ کرنے والوں کے بارے میں، اگر آیت کا نزول عرنیین کے بارے میں تھا اور یہ کہ وہ مرتد ہوگئے تھے تو پھر ان کے متعلق اس کا نزول اسے صرف ان کی ذات تک محدود کرنے کا موجب نہیں ہے۔ اس لئے کہ ہمارے نزدیک سبب کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی بلکہ لفظ کے عموم کا اعتبار ہوتا ہے الایہ کہ کوئی دلالت قائم ہوجائے جو حکم کو اس کے سبب تک محدود کردے۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جن لوگوں نے کہا ہے کہ آیت عرنیین کے بارے میں نازل ہوئی۔ انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ حضور ﷺ نے آیت کے نزول کے بعد کچھ کیا ہو۔ آپ نے بس انہیں حرہ کے مقام پر چھوڑ دیا جہاں وہ مرگئے۔ اب یہ بات محال ہے کہ آیت ان لوگوں کے ہاتھ پائوں کاٹنے کا حکم لے کرنا زل ہو جن کے ہاتھ پائوں پہلے ہی کٹ چکے تھے یا ان لوگوں کے قتل کا حکم لے کر آئے جو پہلے ہی قتل ہوچکے تھے اس لئے کہ یہ بات ناممکن ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ آیت میں قبیلہ عرینہ کے لوگ مراد نہیں ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آیت ان تمام لوگوں کے لئے عام ہے جنہیں محاربین کا اسم شامل ہے اور یہ صرف مرتدین تک محدود نہیں ہے۔ ہمام نے قتادہ سے، انہوں نے ابن سیرین سے روایت کی ہے کہ عرنیہ والوں کا واقعہ حدود کے نزول سے پہلے پیش آیا تھا، اس طرح ابن سیرین نے یہ اطلاع دی کہ یہ واقعہ آیت کے نزول سے پہلے کا ہے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ حضور ﷺ نے ان کی آنکھیں پھوڑنے کا حکم دیا تھا اور یہ حکم حضور ﷺ کے اس ارشاد کی بنا پر منسوخ ہوگیا تھا جس میں آپ نے مثلہ کرنے سے منع فرما دیا تھا۔ نیز جب آیت کا نزول عرنیین کے واقعہ کے بعد ہوا تھا اور اس واقعہ کے سلسلے میں جن باتوں کا ذکر ہوا اس میں آنکھیں پھوڑنے کی بات کا ذکر نہیں تھا تو گویا آنکھیں پھوڑنے کا حکم آیت کی بنا پر منسوخ ہوگیا تھا اس لئے کہ اگر آنکھیں پھوڑنا بھی سزا میں داخل ہوتا تو اس کا ضرور ذکر ہوتا۔ اس کی مثال وہ روایت ہے جس کے راوی حضرت عبادہ ؓ ہیں۔ اس میں ارشاد ہے (فی البکر بالبکر جلد مائۃ و تغریب عام و الثیب بالشیب الجلد و الرحم۔ اگر کنوارا کنواری کے ساتھ بدکاری کا ارتکاب کرے تو ان کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے۔ اور شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت کے ساتھ منہ کالا کرے تو ان کی سزا کوڑے اور سنگساری ہے) ۔ پھر اس کے بعد اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی (الزانیۃ والزانی فاجلد وا کل واحد منہما مائۃ جلدہ) زنا کار عورت اور زنا کار مردان میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگائو) اس طرح آیت میں مذکورہ سزا زنا کی حد بن گئی۔ اس کے سوا اور کوئی چیز اس کی حد مقرر نہیں ہوئی۔ جلاوطنی کی سزا آیت کی بنا پر منسوخ ہوگئی۔ زیر بحث آیت عرنیین کے بارے میں نہیں ہے بلکہ ان کے واقعہ کے بعد نازل ہوئی اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ آیت میں قتل اور سولی کی سزا کا ذکر ہے لیکن آنکھیں پھوڑنے کی سزا کا ذکر نہیں ہے۔ اب یہ بات درست نہیں ہوسکتی کہ آیت کا نزول ان لوگوں پر حکم جاری کرنے کے بعد ہوا اور آیت میں یہی لوگ مراد ہیں۔ اس لئے کہ اگر ایسی بات ہوتی تو حضور ﷺ ان پر آیت کا حکم جاری کرتے۔ لیکن جب سولی کی سزا نہیں دی گئی بلکہ ان کی آنکھیں پھوڑ دی گئیں تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ آیت کا حکم اس واقعہ کے وقت موجود ہی نہیں تھا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت کا حکم مرتدین تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ تمام محاربین کے لئے عام ہے۔ اس بارے میں اختلاف کا ذکر سلف اور فقہائے امصار کے مابین آیت کے حکم کے متعلق کئی پہلوئوں سے اختلاف رائے ہے جن کا اہم ابھیذکر کریں گے۔ پہلے ہم یہ بتاتے چلیں کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ آیت کا حکم ان لوگوں پر بھی جاری ہوگا جو اہل ملت میں سے ہوں اور رہزنی کرتے ہوں۔ حجاج بن ارطاۃ نے عطیہ العوفی سے روایت کی ہے۔ انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے قول باری (انما جزاء الذین یحاربون اللہ ورسولہ) تاآخر آیت کی تفسیر کے سلسلے میں نقل کیا ہے کہ جب کوئی شخص کسی سے لڑے اور اس کا مال چھین کر اسے قتل کر دے تو ایسے شخص کے ہاتھ اور پائوں مخالف سمتوں سے کاٹ دیئے جائیں گی اور پھر اسے قتل کر کے پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا۔ اگر اس نے صرف قتل کیا ہو اور مال نہ چھینا ہو تو ایسی صورت میں اسے قتل کردیا جائے گا۔ اگر اس نے قتلنہ کیا ہو صرف مال چھینا ہو تو اس کے ہاتھ اور پائوں مخالف سمتوں سے قطع کردیئے جائیں گے۔ اگر اس نے نہ قتل کیا ہو اور نہ ہی مال چھینا ہو تو ایسے شخص کو جلاوطن کردیا جائے گا۔ امام ابوحنیفہ نے حماد سے روایت کی ہے، انہوں نے ابراہیم نخعی سے کہ ایک شخص رہزنی کرتا، مال لوٹنا اور لوگوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتا ہے تو ایسے شخص کے بارے میں امام المسلمین کو اختیار ہوگا چاہے تو اس کے ہاتھ اور پائوں مخالف سے کاٹ کر اسے قتل کر دے اور بعد ازاں سولی پر لٹکا دے اور اگر چاہے تو ہاتھ پائوں کاٹے بغیر سولی پر لٹکا دے، اگر چاہے تو پھانسی دیئے بغیر صرف اس کی گردن اڑا سکتا ہے۔ اگر اس نے صرف مال چھینا ہو اور کسی کی جان نہ لی ہو تو ایسی صورت میں اس کے ہاتھ پائوں مخالف سمتوں سے قطع کردیئے جائیں گے۔ اگر اس نے نہ مال چھینا ہو نہ ہی کسی کی جان لی ہو تو تعزیری سزا دے کر اسے جلاوطن کردیا جائے گا۔ جلاوطنی کے معنی یہ ہیں کہ اسے قید میں ڈال دیا جائے گا۔ ایک روایت میں ہے کہ اسے سخت ترین سزا دے کر قید میں ڈال دیا جائے گا یہاں تک کہ وہ نیک چلنی کی کیفیت اپنے اندر پیدا کرلے۔ ایک روایت کے مطابق حسن کا بھی یہی قول ہے۔ سعید بن جبیر، حماد، قتادہ اور عطاء خراسانی کا بھی یہی قول ہے۔ یہ سلف کے ان حضرات کا قول ہے جنہوں نے آیت کے حکم کو اسی ترتیب سے جاری کیا جس ترتیب سے الفاظ میں اس کا ذکر ہوا ہے۔ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ جب لوگ خروج کریں تو امام المسلمین کو اختیار ہے کہ ان سزائوں میں سے جو بھی سزا وہ مناسب سمجھے انہیں دے دے خواہ انہوں نے نہ کوئی مال چھینا ہو اور نہ کسی کی جان لی ہو۔ سعید بن المسیب، مجاہد، حسن (ایک روایت کے مطابق) عطاء بن ابی رباح کا یہی قول ہے۔ امام ابو یوسف، امام محمد اور زفر کا قول ہے کہ محاربین نے اگر صرف جانیں لی ہوں گی اور مال وغیرہ لوٹا نہ ہوگا تو سزا میں ان کی گردنیں اڑا دی جائیں گی۔ اگر انہوں نے صرف مال چھینا ہوگا اور اس سے تجاوز نہ کیا ہوگا تو ان کے ہاتھ پائوں مخالف سمتوں سے کاٹ دیئے جائیں گے۔ ان دو صورتوں میں ہمارے اصحاب کے درمیان کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔ لیکن ان لوگوں نے اگر مال بھی لوٹا ہو اور جان بھی لی ہو تو اس بارے میں امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ امام المسلمین کو چار باتوں کا اختیار ہوگا۔ اگر وہ چاہے گا تو ان کے ہاتھ پائوں کاٹ کر ان کی گردن اڑا دے گا اور اگر چاہے گا تو ان کے ہاتھ پائوں کاٹ دینے کے بعد انہیں سولی پر لٹکا دے گا، اگر چاہے گا تو صرف ان کی گردنیں اڑا دے گا اور اگر چاہے گا تو انہیں سولی پر چڑھا دے گا اور ہاتھ کاٹنے کی سزا ترک کر دے گا۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کا قول ہے اگر ان لوگوں نے مال بھی چھینا ہو اور جان بھی لی ہو تو انہیں سولی پر چڑھایا جائے گا اور ان کی گردنیں اڑا دی جائیں گی، ان کے ہاتھ پائوں قطع نہیں کئے جائیں گے۔ امام ابو یوسف سے املائً یہ مروی ہے کہ امام المسلمین اگر چاہے گا تو اس کے ہاتھ پائوں کاٹ کر اسے سولی پر لٹکا دے گا۔ سولی پر چڑھنے کی سزا معاف کرنے کی میں اجازت نہیں دیتا۔ رہزنوں کے متعلق امام شافعی کا قول ہے کہ اگر ان لوگوں نے جان بھی لی ہو اور مال بھی چھینا ہو تو انہیں قتل کر کے سولی پر لٹکا دیا جائے گا۔ اگر انہوں نے صرف جان لی ہو اور مال نہ چھینا ہو تو ایسی صورت میں انہیں قتل کردیا جائے گا سولی پر لٹکایا نہیں جائے گا۔ اگر انہوں نے مال چھینا ہو اور کسی کی جان نہ لی ہو تو ان کے ہاتھ پائوں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں گے۔ لیکن اگر انہوں نے صرف لوگوں کو ہراساں کیا ہو تو انہیں جلاوطن کردیا جائے گا۔ اگر وہ بھاگ کھڑے ہوں اور پھر پکڑے جائیں تو ان پر ان کے حسب حال سزائیں دی جائیں گی۔ البتہ اگر قابو میں آنے سے پہلے وہ تائب ہوجائیں تو ان سے حد ساقط ہوجائے گی لیکن انسانوں کے حقوق ساقط نہیں ہوں گے۔ یہ صورت بھی ہوسکتی ہے کہ توبہ کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے تمام حقوق ساقط ہوجائیں اور چوتھائی دینار یا اس سے زائد رقم چھیننے کی وجہ سے ہاتھ پائوں کاٹنے کی سزا اسے مل جائے۔ امام مالک کا قول ہے کہ جب ایسا محارب پکڑا جائے جس نے خوف و ہراس پھیلا رکھا ہو تو امام کو اختیار ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے جو سزائیں مقرر کی ہیں ان میں سے کوئی بھی سزا اسے دے دے خواہ اس نے کسی کی جان لی ہو یا زلی ہو اور خواہ اس نے کوئی مال چھینا ہو یا نہ چھینا ہو۔ امام المسلمین کو اس بارے میں اختیار ہوگا وہ اپنے صوابدید کے مطابق اگر چاہے گا تو اسے قتل کر دے گا اور اگر چاہے گا تو اس کے ہاتھ پائوں کاٹ دے گا اور اگر چاہے گا تو جلاوطنی کی سزا دے دے گا، جلاوطنی کی سزا اسے قید میں ڈالنے کی صورت میں۔۔۔۔۔۔۔۔ دی جائے گی۔ اسے قید میں رکھا جائے گا یہاں تک کہ توبہ کا اظہار کر دے۔ اگر محارب قابو میں نہ آئے اور خود تائب ہو کر چلا آئے تو اس سے محاربت کی سزائیں یعنی قتل سولی پر چڑھنا اور جلاوطنی تو معاف ہوجائیں گی لیکن لوگوں کے حقوق کے سلسلے میں اس کی گرفت کی جائے گی۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ جو شخص کسی کی جان لیتا ہے اور مال بھی چھین لیتا ہے اسے سولی پر لٹکا دیا جائے گا اور نیزوں کے زخم لگائے جائیں گے یہاں تک کہ اس کی موت واقع ہوجائے گی۔ لیکن جو شخص صرف قتل کا ارتکاب کرے گا اسے تلوار سے قتل کردیا جائے گا۔ ابوالزناد کا قول ہے کہ محاربین کے بارے میں والی اور حاکم گردن اڑانے، سولی پر چڑھانے ہاتھ پائوں کاٹنے اور جلاوطن کرنے کی جو سزا بھی تجویز کرے گا وہ درست ہوگی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت کا حکم اسی ترتیب سے ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے اس کی دلیل حضور ﷺ کا یہ ارشاد ہے (لایحل دم امرئی مسلم الا باحدی ثلاث، کفر بعد ایمان وزنا بعد احصان وقتل نفس بغیر نفس۔ کسی مسلمان کا خون بہانا حلال نہیں مگر صرف تین صورتوں میں سے ایک کے اندر، ایمان لانے کے بعد کافر ہوجانے کی صورت میں، صفت احصان حاصل کرنے کے بعد زنا کاری کی صورت میں اور ناحق کسی کو قتل کرنے کی صورت میں) ۔ حضور ﷺ نے اس شخص کے قتل کی نفی فرما دی جو ان تینوں صورتوں سے خارج ہو۔ آپ ﷺ نے رہزنوں کی تخصیص نہیں کی اس لئے ایسے رہزنوں کے قتل کا انتفاء ہوگیا جنہوں نے کسی کی جان نہ لی ہو۔ جب ان کا قتل منتفی ہوگیا تو مال چھیننے کی صورت میں ان کے ہاتھ پائوں کاٹنا واجب ہوگیا۔ ان مسئلوں میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ابراہیم بن طہمان نے عبد العزیز بن رفیع سے روایت کی ہے، انہوں نے عبید بن عمیر سے، انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : (لا یحل دم امری مسلم الا باحدی ثلاث، زنا بعد احصان، ورجل قتل رجلا فقتل بہ ورجل خرج محاربا للہ و لرسولہ فیقتل ویصلب او ینفی من الارض۔ کسی مسلمان کا خون بہانا حلال نہیں مگر تین صورتوں میں سے ایک صورت کے اندر۔ صفت احصان حاصل کرلینے کے بعد زنا کی صورت میں، کسی شخص کی ناحق جان لینے کی صورت میں اور اس صورت میں کہ کوئی شخص اللہ اور اس کے رسول کا محارب بن کر خروج کرے، اسے یا تو قتل کردیا جائے گا یا سولی پر لٹکا دیا جائے گا یا اس سرزمین سے جلاوطن کردیا جائے گا) اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اس حدیث کی روایت صحیح اسناد سے ہوئی ہے لیکن ان میں محارب کے قتل کا ذکر نہیں ہے۔ اس حدیث کی حضرت عثمان ؓ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے لیکن اس میں محارب کے قتل کا ذکر نہیں ہے۔ دراصل صحیح روایت وہی ہے جس میں محارب کے قتل کا ذکر نہیں ہے۔ اس لئے کہ مرتد لامحالہ قتل کا مستحق ہوتا ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے۔ ان حضرات کی روایت کی رو سے مرتدان تینوں میں سے ایک ہے جن کا خون حلال کردیا گیا ہے اس لئے ان مذکورہ لوگوں کے سوا اور کوئی باقی نہیں۔ محارب نے اگر کسی کی جان نہ لی ہو تو وہ ان سے خارج ہوگا۔ ان محارب کا ان میں داخل ہونا درست ہوجائے تو اس صورت میں مفہوم یہ ہوگا۔ محارب اگر کسی کی جان لے چکا ہو تو اسے مذکورہ سزائوں میں سے کوئی ایک سزا مل جائے گی۔ تاکہ اس مفہوم کی بنا پر یہ روایت دوسری روایتوں کے مطابق بن جائے اور پھر اس روایت کا فائدہ یہ ہوگا کہ ایسے شخص کو سولی پر لٹکانے کے ذریعے قتل کرنے کا جواز ہوجائے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس روایت میں جلاوطنی کا بھی ذکر ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس میں کوئی امتناع نہیں کہ اس لفظ سے فقرے کی ابتدا ہوئی اور اس میں ” ان لم یقتل (اگر اس نے کسی کی جان نہ لی ہو) کے الفاظ پوشیدہ ہوں۔ اگر یہ کہا جائے کہ بعض دفعہ باغی کو قتل کردیا جاتا ہے اگرچہ اس نے کسی کی جان نہ بھی لی ہو، حالانکہ وہ روایت میں مذکورہ تینوں قسم کے افراد سے خارج ہے۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ظاہر روایت اس کے قتل کی نفی کرتا ہے۔ ہم ایسے شخص کے قتل کا حکم سب سے اتفاق کی دلالت کی بنا پر دیتے ہیں۔ اس کے بعد محارب کے قتل کی نفی کے سلسلے میں روایت کا حکم عموم کی صورت میں باقی رہ جاتا ہے الایہ کہ محارب کسی کی جان بھی لے چکا ہو۔ اس صورت میں اسے قتل کردیا جائے گا۔ ایک اور پہلو سے دیکھا جائے یہ روایت ان لوگوں کے بارے میں وارد ہوئی ہے جو اپنے سابقہ کسی فعل کی وجہ سے قتل کے مستحق ہوئے ہیں اور اس پر قتل کا حکم قرار پا چکا ہو۔ مثلاً صفت احسان حاصل کرنے والا زناکار، مرتد اور قاتل وغیرہ۔ لیکن باغی شخص اس بنا پر قتل کا مستحق قرار نہیں پاتا اسے تو صرف چھٹکارا حاصل کرنے کی خاطر قتل کیا جاتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر ایک باغی اپنے گھر بیٹھ رہے اور برسرپیکار نہ بنے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا اگرچہ وہ بغاوت کرنے والوں جیسے خیالات اور عقائد کیوں نہ رکھتا ہو۔ ہمارے اس بیان سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت کا حکم اسی ترتیب سے ہے جو ہم نے بیان کی ہے، اس میں تبخیر نہیں ہے کہ اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر محاربین نے مال چھینا ہو لیکن کسی کی جان نہ لی ہو تو امام المسلمین کے لئے یہ جائز نہ ہوگا کہ انہیں ہاتھ پائوں کاٹنے کی سزا نہ دے اور صرف جلاوطن کر دے۔ اسی طرح اگر انہوں نے مال بھی لوٹا ہو اور جانیں بھی لی ہوں تو اس صورت میں امام المسلمین کے لئے جائز نہیں ہوگا کہ ان سے قتل یا سولی کی سزا معاف کر دے۔ اگر معاملہ اس طرح ہوتا جس طرح تخییہ کے قائلین کہتے ہیں تو یہ تخییہ اس صورت میں بھی ثابت ہوتی جس میں محاربین نے مال بھی چھینا ہو اور جان بھی لی ہو یا صرف مال چھینا ہو اور جان نہ لی ہو۔ لیکن جب ان صورتوں میں ہمارے بیان کردہ حکم پر سب کا اتفاق ہے تو سا سے یہ بات ثابت ہوئی کہ آیت میں پوشیدہ الفاظ موجود ہیں جو یہ ہیں۔ ان یقتلوا ان قتلوا او یصلبو ان قتلوا واخذو المال، اوتقطع ایدیھم و ارجلھم من خلاف ان اخذوا المال ولم یقتلوا، وینفوا من الارض ان خرحوا ولم یفعلا شیئا من ذلک حتی ظفربھم۔ (انہیں قتلکر دیا جائے اگر انہوں نے قتل کیا ہو، یا انہیں سولی پر لٹکا دیا جائے اگر انہوں نے جان بھی لی ہو اور مال بھی چھینا ہو یا ان کے ہاتھ پائوں مخالف سمت سے کاٹ دیئے جائیں اگر انہوں نے صرف مال چھینا ہو اور کسی کی جان نہ لی ہو، یا انہیں جلاوطن کردیا جائے اگر انہوں نے خروج تو کیا ہو لیکن ابھی قتل و غارت گری میں ملوث نہ ہوئے ہوں کہ حکومت کے ہتھے چڑھ گئے ہوں) ۔ تخییہ کے قائلین ظاہر آیت زیر بحث اور ظاہر قول باری (من قتل نفسا بغیر نفس او فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا) سے استدلال کرتے ہیں۔ یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ زمین میں فساد مچانا فسادی کے قتل کے وجوب کے لحاظ سے کسی شخص کی جان لینے کے برابر ہے۔ محارب لوگ اپنے خروج کی بنا پر نیز طاقت پکڑنے اور خوف و ہراس پیدا کرنے کی وجہ سے فساد فی الارض کے مرتکب ہوتے ہیں خواہ انہوں نے کسی کی جان نہ بھی لی ہو یا کسی کا مال نہ بھی چھینا ہو۔ لیکن ان حضرات کے اس استدلال میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو تخییہ کی موجب بنتی ہو جبکہ یہ دلالت قائم ہوچکی ہے کہ آیت میں پوشیدہ الفاظ موجود ہیں اور حکم کا تعلق ان پوشیدہ الفاظ کے ساتھ ہے۔ ظاہر آیت کے مقتضیٰ کے ساتھ نہیں ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ اگر آیت تخییہ کی موجب ہوتی اور اس میں پوشیدہ الفاظ نہ ہوتے تو امام المسلمین کے لئے اس صورت میں بھی اختیار باقی رہتا جس میں محاربین جان لینے اور مال لوٹنے کے دونوں جرائم کے مرتکب پائے گئے ہوں۔ اس صورت میں امام کو اختیار ہوتا کہ انہیں قتل اور قطع کی سزا کی بجائے جلاوطنی کی سزا دے دیتا۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس صورت میں امام کے لئے قتل اور قطع کی سزا سے عدول کرنا جائز نہیں ہے تو پھر یہ کہنا درست ہے کہ آیت میں الفاظ پوشیدہ ہیں اور ترتیب کچھ اس طرح ہے : ” انہیں قتل کردیا جائے اگر انہوں نے قتل کیا ہو یا انہیں سولی پر چڑھا دیا جائے اگر انہوں نے مال لوٹا ہو اور قتل بھی کیا ہو یا ان کے ہاتھ پائوں مخالف سمت سے کاٹ دیئے جائیں اگر انہوں نے صرف مال چھینا ہو “۔ اگر کوئی یہ کہے کہ محاربین کو قتل کرنا اس وقت واجب ہوتا ہے جب اس نے کسی کو قتل کردیا ہو اسی طرح ہاتھ پائوں کاٹنے کا وجوب اس حالت میں ہوتا ہے جب اس نے مال چھینا ہو اور ان سزائوں کی بجائے جلاوطنی کی سزا جائز نہیں ہوتی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ناحق کسی کی جان لینا یہ خود ایسا جرم ہے جس کی سزا قتل ہے۔ خواہ قاتل محارب نہ بھی ہو۔ اسی طرح مال ہتھیانے کی سزا بھی قطع ید ہے اگر اس فعل کا مرتکب کوئی چور ہو۔ اس بنا پر اس صورت میں قتل اور قطع ید کی سزا سے عدول کر کے جلاوطنی کی سزا جائز نہیں ہوتی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس صورت میں محارب کو قتل اور قطع کی جو سزا دی جاتی ہے وہ قصاص کے طور پر نہیں ہوتی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اس صورت میں اگر مقتولین کے اولیا ان کے محاربین کو معاف بھی کردیں تو ان کی معافی جائز نہیں ہوتی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ مذکورہ بالا صورت میں یہ سزا حد کے طور پر دی گئی ہے اس لئے کہ اس نے محاربت کی بنا پر قتل کے اس فعل کا ارتکاب کیا تھا۔ اسی طرح قطع کی سزا اس لئے واجب ہوئی کہ اس نے محاربت کی بنا پر مال چھینا تھا اگر وہ کسی کو قتل نہ کرتا اور مال نہ چھینتا تو اسے قتل کرنا نیز اس کے ہاتھ پائوں کاٹ دینا جائز نہ ہوتا۔ اس لئے کہ اس کا قتل اگر حد کے طور پر واجب ہوتا تو اس سزا کو چھوڑ کر جلاوطنی کی سزا دینا ہرگز جائز نہ ہوتا۔ یہی کیفیت قطع کی بھی ہوتی۔ جس طرح اگر یہ محاربین جان بھی لیتے اور مال بھی لوٹتے تو اس صورت میں قتل اور قطع کی سزا کو چھوڑ کر جلاوطنی کی سزا دینا جائز نہ ہوتا اس لئے کہ اس کا وجوب حد کے طور پر ہوا تھا۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ محارب صرف اسی صورت میں قتل کا مستحق ہوتا ہے جب اس نے کسی کی جان لی ہو اسی طرح اگر اس نے مال چھینا ہو تو وہ قطع کا مستحق ہوگا۔ اس بات میں اس مسئلے میں ایک نئی دلیل بننے کی صلاحیت موجود ہے اس لئے کہ جب قتل حد کے طور پر واجب ہوتا ہے تو اسے چھوڑ کر کسی اور سزا کو اختیار کرنا جائز نہیں رہتا۔ یہی بات قطع کی سزا کے اندر بھی ہے۔ جس طرح زانی اور چور کی سزائوں میں ہوتا ہے۔ جب امام المسلمین کے لئے اس صورت میں محارب کو قتل کرنے کی بجائے جلاوطنی کی سزا دینا جائز ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ جب اس نے کسی کی جان نہ لی ہو تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ محارب نفس خروج کے ساتھ قتل کا مستحق نہیں ہوا تھا اسی طرح اگر وہ قتل کا ارتکاب کرلیتا تو قتل کی سزا سے اسے معافی نہ ملتی۔ اگر محارب نفس محاربت کی بنا پر قتل کا مستحق ہوجاتا تو اس سزا کو چھوڑ کر کسی اور سزا کو اختیار کرنا جائز نہ ہوتا۔ جس طرح جان لینے کی صورت میں قتل کی سزا کو چھوڑ کر اسے کوئی اور سزا دینا جائز نہیں ہوتا۔ قول باری ہے (من قتل نفسا بغیر نفس او فساد فی الارض) اس آیت میں ناحق کسی کو قتل کرنے اور زمین میں فساد پھیلانے کو یکساں درجہ دیا گیا ہے۔ اس فساد فی الارض سے وہ فساد اور گڑبڑ مراد ہے جس کے ساتھ جان لینا اور قتل کرنا بھی پایا جائے یا فساد کے اظہار کی حالت میں قتل کا وقوعہ پیش آگیا ہو۔ اس صورت میں فسادی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے اسے قتل کردیتے ہیں حالانکہ اس نے کسی کی جان نہیں لی ہوتی۔ اب بحث صرف اس صورت کے اندر ہے کہ جب محارب توبہ کرنے سے پہلے امام المسلمین کے قابو میں آ جائے تو اگرچہ اس نے کسی کی جان نہ بھی لی ہو، اسے قتل کرنا جائز ہوگا۔ اگر چھٹکارا حاصل کرنے کی خاطر اسے قتل کردیا جائے تو اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہیالاعین ممکن ہے کہ قول باری (او فساد فی الارض) میں یہی صورت مراد ہو۔ اس لئے کہ فساد فی الارض کی بنا پر اگر قتل کا استحقاق ہوجاتا تو اسے چھوڑ کر جلاوطنی کی سزا دینا جائز نہ ہوتا۔ جب سب کے نزدیک جلاوطنی کی سزا درست ہے تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ وہ قتل نہیں ہوا تھا۔ اس بیان کی رو سے ان لوگوں کا قول درست ہوگیا جو آیت میں بیان شدہ سزائوں کے اندر ترتیب کے ایجاب کے قائل ہیں جس طرح ہم پہلے پر روشنی ڈال آئے ہیں۔ ایک اور پہلو بھی ہے مال چھیننے یا مال چھیننے کا ارادہ کرلینے پر سزائے موت تک پہنچنے کا استحقاق پیدا نہیں ہوتا جبکہ یہ بات واضح ہو کہ محاربین صرف مال لوٹنے کی غرض سے باہر آئے ہیں جب اصول کے اندر مال چھین لینے پر سزائے موت کا استحقاق پیدا نہیں ہوتا تو مال لوٹنے کے ارادے کی صورت میں ایسے لوگوں کا بطور حد سزائے موت کا مستحق نہ ہونا اولیٰ ہوگا۔ البتہ اگر محاربین لوگوں کی جانیں لینے کے جرم کے مرتکب پائے جائیں گے تو انہیں سزائے موت دے دی جائے گی۔ یہ سزا انہیں قتل کے ارتکاب کی وجہ سے حد کے طور پر دی جائے گی۔ ان کی یہ سزا قصاص کے طور پر نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ اصول میں قتل کرنے کی وجہ سے قاتل سزائے موت کا مستحق ہوتا ہے تاہم محارب نے فساد فی الارض کے مقصد کے تحت اس قتل کا ارتکاب کیا تھا تو اس سزا کا حکم اس لحاظ سے اور موکد ہوگیا کہ اسے حد کے طور پر یہ سزا دے دی گئی۔ اور اس میں یہ لحاظ بھی رکھا گیا کہ حد کی صورت میں ہونے کی وجہ سے یہ سزا حق اللہ بن گئی اس لئے مقتول کے اولیاء کے معاف کردینے پر بھی یہ سزا معاف نہیں ہوگی۔ اگر ان محاربین نے صرف مال لوٹا ہو اور کسی کے خون سے اپنا ہاتھ نہ رنگا ہو تو اس صورت میں ان کے ہاتھ پائوں مخالف سمت سے کاٹ دیئے جائیں گے اس لئے کہ آیت میں اس کا ذکر آیا ہے۔ اصول کے اندر مال چھیننے پر ہاتھ پائوں کاٹ دینے کی سزا کا استحقاق ہوجاتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ پہلی چوری پر چور کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے لیکن اگر وہ دوبارہ چوری کرتا ہے تو اس کی ٹانگ کاٹ دی جاتی ہے۔ البتہ مال چھیننے کا عمل جب فساد فی الارض کے مقصد کے تحت کیا جائے تو اسی سزا میں اور سختی کردی جاتی ہے اور فسادی یا محارب کے ہاتھ پائوں مخالف سمت سے کاٹ دیئے جاتے ہیں۔ اگر ایک شخص قتل بھی کرتا ہے اور مال بھی لوٹ لیتا ہے تو اسے سزا دینے میں امام المسلمین کو اختیار ہوتا ہے۔ اس اختیار کے بارے میں ہمارے اصحاب کے درمیان اختلاف رائے کا ہم نے پہلے کردیا ہے جس کے مطابق امام ابوحنیفہ کے نزدیک ایسے شخص کو یہ سزا دی جائے گی کہ اس کے ہاتھ پائوں مخالف سمت سے کاٹنے کے بعد سولی پر لٹکا کر اسے قتل کردیا جائے گا۔ اس طرح امام المسلمین کو اسے یہ تینوں سزائیں بیک وقت دینے کا اختیار ہوگا اور یہ ایک حد شمار ہوں گی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اس صورت میں حد کے طور پر قتل کی سزا کا استحقاق ہوتا ہے۔ جس طرح قطع کی سزا حد کے طور پر واجب ہوتی ہے اس میں مقتول کے اولیاء کی طرف سے معاف کردینے کی بھی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ دونوں سزائیں ایک ہی حد شمار ہوں گی۔ اس بنا پر امام المسلمین کو اختیار ہوگا کہ مجرموں پر ان دونوں سزائوں کا بیک وقت نفاذ کر دے یا یہ کہ انہیں قتل کر دے۔ قتل کردینے کی صورت میں ہاتھ پائوں کاٹنے کی سزا خود اس میں داخل ہوجائے گی۔ اس لئے کہ امام المسلمین اس بات کا پابند نہیں ہے کہ ان سزائوں میں سے فلاں سزا پہلے دی جائے اس لئے اسے اختیار ہے کہ قتل اور قطع میں سے جو سزا پہلے دینا چاہے دے سکتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ آپ اس طرح کیوں نہیں کرتے کہ ایسے مجرم کو ق تل کی سزا دے کر قطع کی سزا ساقط کردیتے جس طرح چور کی صورت میں آپ کرتے ہیں کہ اگر چور کے ہاتھوں کسی کا قتل بھی ہوگیا تو چور کو قتل کی سزا دے دی جائے گی اور اس کا ہاتھ کاٹا نہیں جائے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے پہلے بیان کردیا ہے کہ قتل اور قطع کی دونوں سزائیں ایک ہی حد کی صورت میں ہوتی ہیں جس کا استحقاق ایک ہی سبب کی بنا پر ہوتا ہے وہ سبب یہ کہ محاربت کے مقصد کے تحت جان لی گئی اور مال لوٹا گیا۔ لیکن اعتراض کے اندر دی گئی مثال میں چوری اور قتل دوالگ الگ جرم تھے اس لئے دونوں کی سزائوں کا سبب ایک دوسرے سے مختلف تھا، دوسری طرف ہمیں حتی الامکان حد کو ٹالے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی بنا پر ہم نے قاتل چور پر پہلے قتل کی حد جاری کردی تاکہ دوسری حد یعنی حد سرقہ جاری کرنے کی نوبت نہ آئے لیکن زیر بحث مسئلے میں ایک حد کو ٹالنے کی صورت میں نہیں ہے بلکہ یہ سزائیں ایک ہی حد کی صورت میں دی جا رہی ہیں اس لئے ہم پر یہ لازم نہیں آتا کہ اس کے ایک حصے کو ساقط کردیں اور ایک حصے کا نفاذ کردیں۔ امام المسلمین کو یہ بھی اختیار ہے کہ ایسے مجرم کو سولی پر چڑھا کر قتل کر دے یا صرف قتل کردینے پر اکتفا کرلے اس لئے کہ قول باری ہے (ان یقتلوا اویصلبوا) ابوجعفر طحاوی نے ذکر کیا ہے کہ آیت میں مذکور سولی کا حکم امام ابوحنیفہ کے قول کے مطابق قتل کے بعد سولی دینے پر محمول ہے۔ ابو الحسن کرخی امام ابوحنیفہ سے نقل کرتے تھے کہ اسے سولی پر چڑھا دیا جائے گا پھر اس کے پیٹ میں نیزہ وغیرہ مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔ ابو الحسن کرخی فرماتے تھے کہ یہی طریقہ درست ہے ورنہ قتل کرنے کے بعد سولی پر لٹکانے کے کوئی معنی نہیں ہیں اس لئے کہ سولی پر چڑھانا خود ایک سزا ہے اور یہ بات مردہ انسان کے حق میں محال ہوتی ہے۔ ان سے جب یہ سوال کیا گیا۔ قتل کرنے کے بعد دوسروں کی عبرت کے لئے لاش کو سولی پر لٹکانے میں کیا حرج ہے تو انہوں نے جواب میں کہا کہ سولی پر لٹکانا تعذیب اور سزا کے لئے عمل میں آتا ہے۔ اس لئے اسے اسی طریقے پر عمل لانا جائز ہوسکتا ہے جو شریعت کے اندر مقرر کیا گیا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے قتل اور پھانسی کی سزا تخییہ کے طور پر مقرر فرما دیا ہے تو مجرم پر ان دونوں سزائوں کو یک جا کردینا کس طرح جائز ہوسکتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب محارب کسی کی جان لے لے لیکن مال نہ لوٹے تو اس صورت میں اللہ تعالیٰ نے قتل کی وہ سزا تجویز کی جو سولی کی شکل میں نہ ہو۔ لیکن اگر اس نے جان بھی لی ہو اور مال بھی لوٹا ہو تو اس صورت میں اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے سولی کی شکل میں قتل کی سزا مقرر کی ہے اور اس طرح جان لینے اور مال لوٹنے کی صورت میں قتل کی سزا کے اندر شدت پیدا کردی گئی ہے۔ مغیرہ نے ابراہیم نخعی سے روایت کی ہے کہ محاربین کو پھانسی پر چڑھا کر ایک دن تک لٹکتا رہنے دیا جائے گا، جبکہ یحییٰ بن آدم کا قول ہے کہ تین دنوں تک لٹکتا رہے گا۔ جلاوطنی کی سزا کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ امام المسلمین جس جگہ مناسب سمجھے گا اسے قید میں ڈال دے گا۔ ابراہیم سے بھی اسی قسم کی روایت ہے، ابراہیم سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ جلاوطنی کی صورت یہ ہے کہ اس کا پیچھا کیا جائے۔ امام مالک کا قول ہے کہ ایسے مجرم کو اس کے اپنے شہر سے جہاں اسے سزا ملی تھی دوسرے شہر میں جلاوطن کر کے قید میں ڈال دیا جائے گا۔ مجاہد اور دوسرے حضرات کا قول ہے کہ جلاوطنی کی صورت یہ ہوگی کہ امام المسلمین اس پر حد جاری کرنے کے درپے ہوجائے گا یہاں تک کہ وہ خود دارالاسلام سے نکل کر دوسرے ملک میں چلا جائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جن لوگوں کا یہ قول ہے کہ اس کا پیچھا کر کے جس شہر میں بھی وہ جائے اسے وہاں سے نکال دیا جائے تو یہ درحقیقت اسے اس شہر سے نکالنے اور اس میں قیام سے روک دینے کے مترادف ہے جہاں وہ رہتا ہے۔ لیکن اس صورت میں اسے دوسرے شہر میں جا کر اپنی سرگرمیوں میں لگ جانے سے روکا نہیں گیا اس لئے یہ قول ایک بےمعنی سی بات ہے۔ اسی طرح یہ بھی ایک بےمعنی بات ہے کہ اسے اس کے اپنے شہر سے لے جا کر کسی اور شہر میں قید کردیا جائے۔ اس لئے کہ حبس کے مفہوم میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسے حبس کی سزا اپنے شہر کے اندر قید کی صورت میں ملی ہے یا کسی اور شہر میں۔ اس لئے درست بات یہ ہے کہ اسے اپنے شہر کے اندر قید میں ڈال دیا جائے۔ نیز قول باری (او ینفوا من الارض) کا مفہوم یا تو یہ ہے کہ اسے پوری روئے زمین سے جلاوطن کردیا جائے، لیکن یہ صورت محال ہے اس لئے کہ پوری روئے زمین سے صرف اسے قتل کر کے ہی جلاوطن کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ یہ واضح ہے کہ آیت میں جلاوطنی سے قتل مراد نہیں ہے۔ اس لئے کہ آیت میں جلاوطنی کے ساتھ قتل کا بھی ذکر ہوا ہے۔ یا آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اسے اس سرزمین سے جلاوطن کردیا جائے جہاں سے اس نے محارب کی صورت میں خروج کیا تھا، اسے قید میں نہ ڈالا جائے صرف جلاوطن کردیا جائے۔ جبکہ دوسری طرف یہ بات واضح ہے کہ آیت میں اس کے ذکر سے مراد یہ ہے کہ اسے یہ سزا دے کر خوف و ہراس پھیلانے سے روک دیا جائے اور مسلمانوں کو اس کی اذیتوں سے بچا لیا جائے۔ لیکن اگر وہ اپنے شہر سے شہر بدر ہو کر دوسرے شہر میں آزادانہ نقل و حرکت کرے گا تو اس صورت میں مسلمانوں پر اس کی کج روی کا منحوس سایہ قائم رہے گا جب اس دوسرے شہر میں بھی اس کی سرگرمیاں حسب سابق جاری رہیں گی۔ یا آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اسے دارالسلام سے جلاوطن کردیا جائے۔ لیکن یہ صورت بھی ممتنع ہے اس لئے کہ کسی مسلمان کو دارالحرب کی طرف جلاوطن کردینا جائز نہیں ہے، ایسا کر کے گویا اسے ارتداد کا موقعہ فراہم کردیا جائے گا اور انجامکار وہ حربی بن جائے گا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جلاوطنی کے معنی یہ ہیں کہ اس جگہ کے سوا جہاں اسے قید کردیا جائے اور اس کے لئے وہاں فتنہ و فساد پھیلانا ناممکن بنادیا جائے پوری روئے زمین کو اس کے وجود سے پاک کردیا جائے۔ قول باری ہے (ذلک لھم خزی فی الدنیا ولھم فی الاخرۃ عذاب عظیم) یہ ان کے لئے دنیا میں ذلت اور رسوائی کا سامان ہے اور آخرت میں ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے) آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ محارب پر حد کا نفاذ اس کے گناہوں کا کفارہ نہیں بنے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ دنیا میں ان پر حد جاری ہونے کے بعد آخرت کی وعید باقی رہے گی۔
Top