Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 152
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ اَنَّ لَهُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّ مِثْلَهٗ مَعَهٗ لِیَفْتَدُوْا بِهٖ مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَا تُقُبِّلَ مِنْهُمْ١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
وَعَدَ : وعدہ کیا اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : اچھے لَهُمْ : ان کے لیے مَّغْفِرَةٌ : بخشش وَّاَجْرٌ : اور اجر عَظِيْمٌ : بڑا
جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کے لیے مغفرت اور اجرِ عظیم ہے
9۔ 10:۔ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ عَظِيْمٌ۔ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ۔ یہ مذکورہ بالا میثاق پر عمل کرنے اور نہ کرنے دونوں کا نتیجہ بیان ہوا ہے کہ جو لوگ اس میثاق پر قائم رہیں گے ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے اور جو اس کو توڑیں گے ان کے لیے جہنم ہے۔ اس سے ایک تو یہ بات نکلی کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہم پر اس میثاق کی ذمہ داری ڈالی ہے، اسی طرح اپنے اوپر بھی اس کے جواب میں ایک عہد کی ذمہ داری لی ہے۔ اس کا اظہار " وعد اللہ " کے الفاظ سے ہورہا ہے۔ یہ رب کریم کی کتنی بڑی بندی نوازی ہے کہ وہ اپنی ہی پیدا کی ہوئی اور اپنی ہی پروردہ مخلوق کے ساتھ ایک معاہدے میں شریک ہو اور جواب میں اپنی ذات پر بھی ایک عہد کی ذمہ داری اٹھائے۔ انسان کو یہ وہ شرف بخشا گیا ہے جس میں کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں۔ دوسری بات یہ نکلی کہ ایمان و عمل صالح کی تعبیر ایک جامع تعبیر ہے جس میں وہ سب کچھ شامل ہے جو پروردگار نے اپنی شریعت کی شکل میں ہمیں عطا فرمایا ہے اور جس کی پابندی کا ہم سے اقرار لیا ہے۔
Top