Ahkam-ul-Quran - Al-A'raaf : 26
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًا١ؕ وَ لِبَاسُ التَّقْوٰى١ۙ ذٰلِكَ خَیْرٌ١ؕ ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ : اے اولاد آدم قَدْ اَنْزَلْنَا : ہم نے اتارا عَلَيْكُمْ : تم پر لِبَاسًا : لباس يُّوَارِيْ : ڈھانکے سَوْاٰتِكُمْ : تمہارے ستر وَرِيْشًا : اور زینت وَلِبَاسُ : اور لباس التَّقْوٰى : پرہیزگاری ذٰلِكَ : یہ خَيْرٌ : بہتر ذٰلِكَ : یہ مِنْ : سے اٰيٰتِ : نشانیاں اللّٰهِ : اللہ لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَذَّكَّرُوْنَ : وہ غور کریں
اے بنی آدم ہم نے تم پوشاک اتاری کی تمہاری ستر ڈھانکے اور تمہارے بدن کو زینت دے اور جو پرہیزگاری کا لباس ہے وہ سب سے اچھا ہے۔ یہ خدا کی نشانیاں ہیں تاکہ لوگ نصیحت پکڑیں
لباس کی حقیقت قول باری ہے یا بنی ادم قدانزلنا علیکم لباساً یواری سواتکم وریشاً ولباس التقوی ذلک خیر۔ اے اولاد آدم ! ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لئے جسم کی حفاظت اور نیت کا ذریعہ بھی ہو اور بہترین لباس تقوی ٰ کا لباس ہے) یہ انسانوں میں سے تمام مکلفین کے لئے خطاب عام ہے جس طرح یہ قول باری یایھا الناس اتقواربکم۔ اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو) ان تمام مکلفین کے لئے خطاب ہے جو حضور ﷺ کے زمانے میں موجود تھے اور جو اس زمانے کے بعد کے زمانوں میں آنے والے تھے۔ البتہ جو لوگ اس وقت موجود نہیں تھے ان کے لئے یہ خطاب وجود میں آجانے اور کمال عقل کو پہنچنے کی شرط کے ساتھ مشروط تھا۔ قول باری قد انزلنا علیکم لباساً یواری سواتکم) نیز قول باری (وطفقا یغصفان علیھا من ورق الجنۃ۔ اور وہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے) ستر عورت کی فرضیت پر دلالت کرتے ہیں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ اس نے ہم پر لباس نازل کیا تاکہ ہم اس کے ذریعے اپنے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانک لیں۔ نزول لباس کی کیفیت اللہ تعالیٰ نے (انزلنا) فرمایا اس لئے کہ لباس یا تو زمین کی پیداوار یعنی روئی وغیرہ سے تیار ہوتا ہے یا جانوروں کی کھالوں اور اون سے بنایا جاتا ہے۔ ان سب کی بنیاد بارش ہے جو آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ ایک قول کے مطابق لباس کو آسمان سے نازل کرنے کی بات اس لئے کہی گئی کہ تمام برکتوں کی نسبت آسمان سے اترنے کی طرف کی جاتی ہے جس طرح یہ قول باری ہے وانزلنا الحدید فیہ باس شدید و منافع للناس اور ہم نے لوہا نازل کیا جس میں زبردست طاقت ہے اور لوگوں کے لئے اس میں بڑے بڑے فائدے ہیں) ۔ قول باری ریشاً کے بارے میں ایک قول ہے کہ اس سے گھریلو سامان مراد ہے مثلاً بستر چادریں وغیرہ ایک قول کے مطابق اس سے مراد وہ لباس ہے جو زینت کا ذریعہ بنتا ہے اسی بنا پر پرندے کے پروں کو ریش کہا جاتا ہے۔ لباس التقوی کیا ہے ؟ قول باری (ولباس التقویٰ ) کے متعلق حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اس سے عمل صالح مراد ہے۔ اسے لباس کے نام سے اس لئے موسوم کی گیا کہ عمل صالح کے ذریعے انسان اللہ کے عذاب سے بچ جاتا ہے جس طرح لباس کے ذریعے گرمی سردی سے بچتا ہے۔ قتادہ اور سدی کے قول کے مطابق اس سے ایمان مراد ہے۔ جن کا قول ہے کہ اس سے حیا مراد ہے جس کے نتیجے میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ بعض اہل علم کا قول ہے کہ اس سے ادنیٰ لباس نیز ایسا موٹا لباس مراد ہے جو تواضع کے طور پر نیز عبادت میں زہد و ریاضت کی بنا پر پہنا جاتا ہے۔ آیت ستر عورت کی فرضیت کے لزوم پر دلالت کرتی ہے اس پر تمام امت کا اتفاق ہے۔ اس بارے میں حضور ﷺ سے روایات بھی منقول ہیں۔ تنہائی میں برہنگی بہزبن حکیم نے اپنے والد سے انہوں بہز کے دادا سے روایت کی ہے۔ انہوں نے پوچھا تھا “۔ اللہ کے رسول ہم اپنی شرمگاہوں کے سلسلے میں کیا کریں اور کیا نہ کریں ؟ “ آپ نے جواب میں فرمایا ” اپنی بیوی یا لونڈی کے سوا اپنی شرمگاہ کو ہر ایک سے بچا کے رکھو “۔ میں نے عرض کیا ” اگر ہم میں سے کوئی شخص تنہا ہو تو کیا وہ اپنی شرمگاہ برہنہ کرسکتا ہے ؟ “ آپ نے فرمایا ” اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی ذات اس بات کی زیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جائے “۔ حضرت ابوسعید خدری ؓ نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کوئی مرد کسی مرد کی شرمگاہ پر اور کوئی عورت کسی عورت کی شرمگاہ پر نظر نہ ڈالے “۔ نگاہ کی حفاظت ایک اور روایت میں آپ نے فرمایا ” وہ شخص ملعون ہے جو اپنے بھائی کی شرمگاہ پر نظر ڈالتا ہے “۔ قول باری ہے قل للمومنین یغضوا من ابصارھم۔ اہل ایمان سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں) نیز فرمایا وقل للمومنت یغضضن من البصار ھن۔ مومن خواتین سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں) یعنی دوسروں کے جسم کے اس حصے پر نظر ڈالنے سے جس کا ڈھانکنا فرض ہے۔ اس لئے کہ جسم کے جس حصے کو ڈھانکنا فرض ہے اس کے سوا جسم کے دوسروں حصوں پر نظر ڈالنے کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
Top