Ahkam-ul-Quran - Al-A'raaf : 29
قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ١۫ وَ اَقِیْمُوْا وُجُوْهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ ادْعُوْهُ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ١ؕ۬ كَمَا بَدَاَكُمْ تَعُوْدُوْنَؕ
قُلْ : فرما دیں اَمَرَ : حکم دیا رَبِّيْ : میرا رب بِالْقِسْطِ : انصاف کا وَاَقِيْمُوْا : اور قائم کرو (سیدھے کرو) وُجُوْهَكُمْ : اپنے چہرے عِنْدَ : نزدیک (وقت) كُلِّ مَسْجِدٍ : ہر مسجد (نماز) وَّادْعُوْهُ : اور پکارو مُخْلِصِيْنَ : خالص ہو کر لَهُ : اسکے لیے الدِّيْنَ : دین (حکم) كَمَا : جیسے بَدَاَكُمْ : تمہاری ابتداٗ کی (پیدا کیا) تَعُوْدُوْنَ : دوبارہ (پیدا) ہوگے
کہہ دو کہ میرے پروردگار نے تو انصاف کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور یہ کہ ہر نماز کے وقت سیدھا (قبلے کی طرف) رخ کیا کرو اور خاص اسی کی عبادت کرو اسی کو پکارو۔ اس نے جس طرح تم کو ابتداء میں پیدا کیا تھا اسی طرح تم پھر پیدا ہو گے۔
نماز با جماعت قول باری ہے واقیمواوجوھکم عند کل مسجد۔ اور ہر عبادت میں اپنا رخ ٹھیک رکھو) مجاہد اور سدی سے مروی ہے کہ ” نماز میں مسجد کے قبلے کی طرف اپنا رخ ٹھیک رکھو “۔ ربیع بن انس کا قول ہے کہ اخلاص کے ساتھ اللہ کی طرف اپنا رخ کرلو، نہ کسی بت کی طرف اور نہ کسی اور چیز کی طرف “۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں آیت میں دو باتیں بیان کی گئی ہیں اول یہ کہ قبلے کی طرف اس طرح رخ ٹھیک رکھنا کہ اس کی سمت رخ ہٹا ہوا نہ ہو۔ دوم یہ کہ مسجد میں جا کر نماز ادا کرنا۔ یہ بات مسجد میں جماعت کے ساتھ فرض نمازوں کی ادائیگی کے وجوب پر دلالت کرتی ہے۔ اس لئے کہ مساجد جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی کے لئے تعمیر کی جاتی ہیں۔ حضور ﷺ سے جماعت کے ساتھ نماز ادا نہ کرنے والے کے لئے وعید کی روایتیں منقول ہیں۔ ایسی روایتیں بھی منقول ہیں جن میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ترک جماعت پر وعید ترک جماعت کی نہی کی مقتضی روایات میں سے چند یہ ہیں۔ آپ کا ارشاد ہے من سمع النداء فلم یجب فلا صلاۃ لہ۔ جس شخص نے اذان کی آواز سن لی اور پھر وہ نماز کے لئے مسجد میں نہیں گیا اس کی کوئی نماز نہیں) حضرت عبداللہ بن ام مکتوم نے عرض کیا کہ میرا گھر مسجد سے دور ہے۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا ۔” اذان کی آواز سنتے ہو ؟ “ انہوں میں اثبات میں جواب دیا۔ اس پر آپ نے فرمایا لااجدلک عذراً ۔ پھر تو مجھے تمہارے لئے کوئی عذر نظر نہیں آتا) آپ کا ارشاد ہے لقد ھممت ان امور جلایصلی بالناس ثم امر بحطب فیحرق علی المتخلفین عن المجاعۃ بیوتھم۔ میں نے ارادہ کرلیا ہے کہ کسی شخص کو جماعت کرانے کے لئے کہوں اور خود لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں اور پھر جماعت سے پیچھے رہ جانے والوں کے گھروں کو آگ لگا دوں) اسی مضمون کی دیگر روایتیں بھی موجود ہیں۔ جماعت سے نماز ادا کرنے کی ترغیب کے سلسلے میں ایک روایت ہے کہ جماعت کے ساتھ ادا کی جانیوالی نماز تنہا پڑھی جانے والی نماز سے پچیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے “۔ نیز یہ کہ فرشتے پہلی صف میں نماز ادا کرنے والوں کے لئے رحمت کی دعائیں مانگتے ہیں “ نیز آپ ؐ کا ارشاد ہے بشرالمشائین فی ظلال اللیل الی اسماجد بالنور التام یوم القیامۃ۔ رات کی تاریکی میں مساجد کی طرف چل کر آنے والوں کو قیامت کے دن کامل روشنی کی بشارت سنا دو ) ہمارے شیخ ابوالحسن کرخی فرمایا کرتے تھے کہ میرے نزدیک نماز باجماعت فرض کفایہ ہے۔ جس طرح مردوں کا غسل، ان کی تدفین اور ان کی نماز جنازہ فرض کفایہ ہے کہ جب کچھ لوگ اس کی ادائیگی کرلیں تو باقی ماندہ لوگوں سے اس کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ آیت نماز کے اندر ستر عورت کی فرضیت پر دلالت کرتی ہے۔ اس بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، زفر، امام محمد اور حسن بن زیاد کا قول ہے کہ ستر عورت نماز میں فرض ہے اگر کوئی شخص امکان کے باوجود اس کا تارک ہوگا تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ امام شافعی کا بھی یہی قول ہے امام مالک اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ کشف عورت کے ساتھ نماز جائز ہوتی جاتی ہے۔ تاہم وقت کے اندر اس کا اعادہ واجب ہوگا ان دونوں حضرات کے نزدیک وقت کے اندر نماز کا اعادہ استجباب کے طور پر ہوگا۔ نماز میں ستر عورت کی فرضیت پر اس آیت کی کئی وجوہ سے دلالت ہو رہی ہے ایک تو یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا خذواذینتکم عندکل مسجد۔ ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ ہو) اور اپنے حکم کو مسجد کے ساتھ معلق کردیا تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ اس سے نماز کے لئے ستر عورت مراد ہے اگر یہ بات نہ ہوتی تو مسجد کے ذکر کا کوئی فائدہ نہ ہوتا اس طرح مفہوم کے لحاظ سے عبارت یہ ہوگئی خذوازینتکم فی الصلوۃ (نماز کے اندر اپنا لباس پہن لو) اگر لوگوں کی نظروں سے اس کا چھپانا مراد ہوتا تو خصوصیت کے ساتھ مسجد کا ذکر نہ کیا جاتا اس لئے کہ مسجد کی بہ نسبت بازاروں میں لوگ زیادہ ہوتے ہیں۔ مسجد کا ذکر کر کے یہ بتادیا کہ نماز کے اندر ستر عورت واجب ہے اس لئے کہ مسجد نماز کے لئے مخصوص ہوتی ہے۔ نیز جب اللہ تعالیٰ نے مسجد میں ستر عورت کو واجب کردیا تو ظاہر آیت سے مسجد میں ادا کی جانے والی نماز میں ستر عورت واجب ہوگیا جب ایسی نماز میں ستر عورت واجب ہوگیا تو دوسری جگہوں پر ادا کی جانے والی نمازوں میں بھی ستر عورت واجب ہوگیا۔ اس لئے کہ کسی نے مسجد میں ادا کی جانے والی اور غیر مسجد میں ادا کی جانیوالی نمازوں میں کوئی فرق نہیں کیا ہے نیز لفظ مسجد اگر سجدہ کے مفہوم کی تعبیر ہوجائے تو اس کی گنجائش موجود ہے جس طرح یہ قول باری ہے وان المساجد اللہ اور مساجد اللہ کے لئے ہیں) جب بات اس طرح ہے تو آیت سجدہ کرتے وقت ستر عورت کے لزوم کی مقتضی ہوگی جب سجدے میں ستر عورت لازم ہوگا تو نماز کے دوسرے ارکان میں بھی اس کا لزوم ہوجائے گا اس لئے کہ کسی نے بھی ان دونوں کے درمیان فرق نہیں کیا ہے حضرت ابن عباس ؓ ابراہیم، مجاہد، طائوس اور زہری سے مروی ہے کہ مشرکین برہنہ ہو کر بیت اللہ کا طواف کرتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی خذوازینتکم عندکل مسجد۔ نماز میں ستر کا حکم ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ مشرکین برہنہ حالت میں بیت اللہ کا اس لئے طواف کرتے تھے کہ ان کے خیال میں کپڑے گناہوں کی وجہ سے گندے ہوتے تھے اس لئے وہ ان کپڑوں سے اپنے آپ کو آزاد کرلیتے تھے۔ ایک قول ہے کہ وہ تفاول کے طور پر اس طرح طواف کرتے تھے یعنی ان کے خیال میں جس طرح وہ کپڑوں سے آزاد ہوگئے تھے اسی طرح گناہوں سے بھی آزاد اور پاک ہوجاتے تھے۔ امام مالک کے مسلک کے حق میں استدلال کرنے والوں کا قول ہے کہ حضرات سلف نے جب آیت کے نزول کا سبب بیان کردیا جو یہ تھا کہ مشرکین برہنہ حالت میں بیت اللہ کا طواف کرتے تھے اس کی ممانعت میں آیت نازل ہوئی تو اب ضروری ہوگیا کہ آیت کا حکم صرف طواف بیت اللہ تک محدود رکھا جائے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہمارے نزدیک بات اس طرح نہیں ہے اس لئے کہ ہم اس اصول کے قائل ہیں کہ کسی سبب کے پس منظر میں آیت کا نزول آیت کے حکم کو صاف اسی سبب تک محدود رکھنے کا موجب نہیں ہوتا اس لئے کہ ہمارے نزدیک حکم کا تعلق عموم لفظ کے ساتھ ہوتا ہے سبب کے ساتھ نہیں۔ علاوہ ازیں اگر بات اس طرح ہوتی جس طرح استدلال کرنے والے نے بیان کی ہے تو بھی اس کا استدلال نماز میں ستر عورت کے وجوب کو مانع نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ جب طواف میں ستر عورت واجب قرار دیا جائے گا تو نماز کے اندر یہ بڑھ کر واجب ہوگا اس لئے کہ کسی نے بھی ان دونوں میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اس بنا پر ستر عورت کا ترک نماز کی صحت کے لئے مانع نہیں ہونا چاہیے جس طرح اس کا ترک طواف کی صحت کے مانع نہیں ہے جس کے پس منظر میں آیت کا نزول ہوا تھا اگرچہ یہ طواف ناقص شمار کیا جائے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ظاہر آیت برہنہ حالت میں طواف اور نماز سب کے بطلان کا مقتضی ہے لیکن برہنہ حالت میں طواف کے جواز پر دلالت قائم ہوچکی ہے اگرچہ ساتھ ساتھ اس سے منع بھی کیا گیا ہے۔ جس طرح جسم پر کپڑوں کے ساتھ احرام کا جواز ہے اگرچہ اس سے روکا بھی گیا ہے لیکن دوسری طرف برہنہ حالت میں نماز کے جواز پر کوئی دلالت قائم نہیں ہوئی ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ نماز کے فرائض میں سے بعض کا ترک نماز کو فاسد کردیتا ہے مثلاً طہارت اور استقبال قبلہ وغیرہ۔ احرام نماز سے مضبوط ہے احرام کے بعض فرائض کا ترک احرام کو فاسد نہیں کرتا اس لئے کہ اگر کوئی شخص وقت کے اندر احرام ترک کردیتا ہے اور پھر احرام باندھ لیتا ہے تو اس کا احرام درست ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ہمبستری کے دورا ن احرام باندھ لیتا ہے تو اس کا احرام واقع ہوجاتا ہے اس طرح احرام اپنی بقا کے لحاظ سے نماز کی بہ نسبت زیادہ مضبوط ہوتا ہے اور طواف احرام کے موجبات میں سے ہے۔ اس لئے یہ ضرور ی ہوگیا کہ ستر عورت کا ترک احرام کو فاسد نہ کرے اور نہ ہی اس کے وقوع کے لئے مانع بن جائے۔ یہ آیت ہر مسجد کے لئے عام ہے آیت میں ستر عورت کا حکم طواف تک محدود نہیں ہے بلکہ نماز بھی اس میں مراد ہے اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے اخذوازینتکم عندکل مسجد) جبکہ طواف صرف ایک مسجد یعنی مسجد حرام کے ساتھ مخصوص ہے اور کسی دوسری مسجد میں اس کی ادائیگی نہیں ہوتی۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے آیت میں نماز مراد ہے جس کی ادائیگی ہر مسجد میں درست ہوتی ہے سنت کی جہت سے بھی اس پر دلالت ہوتی ہے۔ نماز میں ستر ضروری ہے ابوالزناد نے اعرج سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا لایصلی احد کم فی ثوب واحدلیس عل فرجہ منہ شئی۔ تم میں سے کوئی شخص ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے کہ اس کپڑے کا کوئی حصہ اس کی شرمگاہ پر نہ ہو) ۔ عورت کی نماز بغیر دوپٹہ کے قبول نہیں محمد بن سیرین نے صفیہ بنت الحارث سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا لایقبل اللہ صلوۃ حائض الابخمار۔ اللہ تعالیٰ کسی بالغ عورت کی نماز دوپٹے کے بغیر قبول نہیں کرتا) آپ نے بالغ عورت کی ننگے سرنماز کی قبولیت کی اسی طرح نفی فرما دی جس طرح طہارت کے بغیر اس کی قبولیت کی نفی کردی چناچہ آپ کا ارشاد ہے لایقبل اللہ صلوۃ بغیر طھور۔ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں کرتا) اس سے ستر عورت کا نماز کے فرائض میں ہے ہونا ثابت ہوگیا۔ نیز سب کا اس پر اتفاق سے کہ نماز میں ستر عورت کا حکم ہے۔ اسی بنا پر ہمارے مخالف برہنہ حالت میں نماز پڑھ لینے کی صورت میں وقت کے اندر اس کے اعادے کا فتویٰ دیتے ہیں۔ جب نمازی کو ستر عورت کا حکم دیا گیا اور کشف عورت سے منع کردیا گیا تو اب ضروری ہوگیا کہ ستر عورت نماز کے فرائض میں داخل سمجھا جائے۔ اس لئے کہ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ فرضیت کا حکم آیت سے ماخوذ ہے اور آیت میں نماز کے اندر ستر عورت مراد ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ نہی فعل کے فساد کی مقتضی ہوتی ہے الایہ کہ اس فعل کے جواز کی کوئی دلالت قائم ہوجائے۔ ستر عورت کا کوئی بدل نہیں اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ ستر عورت اگر نماز کے فرائض میں داخل ہوتا تو ضرورت کے وقت اس کے بغیر نماز اسی صورت میں جائز ہوتی جب اس کا کوئی بدل اس کے قائم مقام پر ہوجاتا جس طرح تیمم وضو کے قائم مقام ہوجاتا ہے جب ضرورت کے وقت ایک برہنہ انسان کی نماز جائز ہوجاتی ہے اور ستر عورت کا کوئی بدل نہیں ہوتا تو اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ستر عورت نماز کے فرائض میں داخل نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ ایک فضول سا اعتراض ہے۔ اس لئے کہ نماز میں قرات فرض ہے لیکن ان پڑھ اور گونگے کی نماز کے جواز پر سب کا اتفاق ہے جبکہ قرات کا کوئی بدل نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود قرات نماز کے فرائض سے خارج نہیں ہے۔ امام مالک کے مسلک کے حق میں استدلال کرنے والے ایک صاحب کا خیال ہے کہ اگر لباس نماز کے اعمال اور اس کے فرائض میں داخل ہوتا تو نماز کے لئے کپڑا پہنتے وقت نماز کی نیت ضروری ہوتی ہے جس طرح ایک شخص تکبیر تحریمہ کے وقت یہ نیت کرتا ہے کہ یہ تحریمہ فلاں نماز کے لئے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ ایک واہیات اعتراض اور فاسد کلام ہے اس کلام کے نہ الفاظ درست ہیں اور نہ معنی۔ وہ اس لئے کہ کپڑا نہ تو نماز کے اعمال میں سے ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے فرائض میں داخل ہوتا ہے لیکن ستر عورت نماز کی شرائط میں شامل ہے جن کے بغیر نماز درست نہیں ہوتی۔ جس طرح قبلے کی طرف رخ کرنا اس کی شرائط میں داخل ہے۔ اب ظاہر ہے کہ استقبال قبلہ کے لئے کسی نیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی طرح طہارت نماز کی ایک شرط ہے اور ہمارے نزدیک اس میں بھی نیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی طرح قدرت رکھنے والے شخص کے لئے نماز کے افتتاح کی حالت میں قیام نماز کے فرائض میں شامل ہے لیکن اس قیام کے لئے نیت ضروری نہیں ہوتی۔ اسی طرح افتتاح صلوۃ کے بعد قیام قرات رکوع اور سجود سب نماز کے فرائض میں داخل ہیں لیکن ان میں سے کسی فرض کے لئے نیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ افتتاح صلوۃ کے بعد درج بالا امور کے لئے تجدید نیت کی اس لئے ضرورت نہیں پڑتی کہ نماز کی نیت کافی ہوجاتی ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اسی طرح نماز کی نیت ستر عورت کی نیت کے لئے کافی ہوجائے گی۔
Top