Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 32
وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْ١ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُعَذِّبَهُمْ : کہ انہیں عذاب دے وَاَنْتَ : جبکہ آپ فِيْهِمْ : ان میں وَمَا : اور نہیں كَانَ : ہے اللّٰهُ : اللہ مُعَذِّبَهُمْ : انہیں عذاب دینے والا وَهُمْ : جبکہ وہ يَسْتَغْفِرُوْنَ : بخشش مانگتے ہوں
اور خدا ایسا نہ تھا کہ جن تک تم ان میں تھے انہیں عذاب دیتا۔ اور نہ ایسا تھا کہ وہ بخش مانگیں اور انہیں عذاب دے۔
قوم کو پیغمبر کی موجودگی میں عذاب الٰہی نہیں ہوتا قول باری ہے وماکان اللہ لیعذبھم وانت فیھم وماکان اللہ معذبھم وھم یستغفرون۔ اس وقت تو اللہ ان پر عذاب نازل کرنے والا نہیں تھا جب کہ تو ان کے درمیان موجود تھا اور نہ یہ اللہ کا باقاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ ان کو عذاب دے دے) یعنی اللہ تعالیٰ انہیں ایسا عذاب دینے والا نہیں تھا جو ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دیتا جبکہ حضور ﷺ کے درمیان موجود ہوتے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا تھا اس لئے آپ ﷺ کے ہوتے ہوئے انہیں عذاب نہیں دیا جائے گا جب آپ ﷺ ان کے یعنی اہل مکہ کے درمیان سے نکل جائیں گے تو یہ لوگ عذاب کے مستحق قرار پائیں گے۔ اللہ کی دی ہوئی نعمت ان سے سلب کرلی جائے گی اور سب کے سب اللہ کے عذاب کی لپیٹ میں آجائیں گے آپ نہیں دیکھتے کہ پہلی امتیں جب عذاب الٰہی کی زد میں آکر مٹ جانے کے مرحلے پر پہنچ جاتیں تو اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کو ان کے درمیان سے نکل جانے کا حکم دے دیتا۔ حضرت لوط، حضرت صالح اور حضرت شعیب (علیہم السلام) کی قوموں کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ قول باری وماکان اللہ معذبھم وھم یستغفرون) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب حضور ﷺ مکہ سے ہجرت کر گئے تو مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی تعداد وہاں رہ گئی۔ مجاہد، قتادہ اور سدی کا قول ہے کہ اگر یہ لوگ استغفار کرتے تو اللہ انہیں عذاب نہ دیتا۔ قول باری ہے وما لھم الایعذبھم اللہ وھم یصدوان عن المسجد الحرام لیکن اب کیوں نہ وہ ان پر عذاب نازل کرے جبکہ وہ مسجد حرام کا راستہ روک رہے ہیں) یہ عذاب اس عذاب سے مختلف ہے جس کا ذکر پہلی آیت میں ہوا ہے اس لئے کہ یہ آخرت کا عذاب ہے اور پہلا عذاب دنیا میں ملنے والا عذاب ہے جس سے ان کی جڑ کٹ کر رہ جاتی۔ قول باری ہے وماکانوا اولیاء ہ حالانکہ وہ اس مسجد کے جائز متولی نہیں ہیں) اس کی تفسیر میں دو قول ہیں۔ حسن کے قول کے مطابق ان مشرکین کا یہ دعویٰ تھا کہ ہم مسجد حرام کے متولی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دعوے کی تردید کردی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مشرکین مسجد حرام کے متولی نہیں ہیں بلکہ اس کے جائز متولی وہ لوگ ہیں جو تقویٰ اور پرہیزگاری کے وصف سے متصف ہیں۔ اگر اس سے مسجد حرام کے متولی مراد ہیں تو اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ انہیں مسجد حرام میں داخل ہونے اور اسے آباد کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ احترام مساجد اہل ایمان کا کام ہے اس کی نظیر یہ قول باری ہے ماکان للمشرکین ان یعمروا مساجد اللہ ۔ مشرکین کو اللہ کی مسجدیں آباد کرنے کی اجازت نہیں ہے) قول باری ہے وماکان صدرتھم عند البیت الامکاء و تصدیۃ۔ بیت اللہ کے پاس ان کی نماز کیا ہوتی ہے بس سیٹیاں بجاتے اور تالیاں پیٹتے ہیں) مکاء سیٹیاں بجانے کو کہتے ہیں اور تالیاں پیٹنے کو۔ حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ ، حسن، مجاہد، عطیہ، قتادہ اور سدی سے یہی مروی ہے۔ سعید بن جبیر سے منقول ہے کہ تصدیہ کے معنی ہیں ” بیت اللہ میں داخل ہونے سے لوگوں کو ان کا روکنا “ مکاء اور تصدیہ کو صلاۃ کا نام دیا گیا اس لئے کہ مشرکین دعا اور تسبیح کی بجائے سیٹیاں بجایا کرتے تھے اور تالیاں پیٹتے تھے ۔ ایک قول ہے کہ وہ اپنی نمازوں میں یہ حرکتیں کرتے تھے۔
Top