Ahkam-ul-Quran - At-Tawba : 2
فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰهِ١ۙ وَ اَنَّ اللّٰهَ مُخْزِی الْكٰفِرِیْنَ
فَسِيْحُوْا : پس چل پھر لو فِي الْاَرْضِ : زمین میں اَرْبَعَةَ : چار اَشْهُرٍ : مہینے وَّاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّكُمْ : کہ تم غَيْرُ : نہیں مُعْجِزِي اللّٰهِ : اللہ کو عاجز کرنے والے وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ مُخْزِي : رسوا کرنے والا الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
تو (مشرکو تم) زمین میں چار مہینے چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہ کرسکو گے اور یہ بھی کہ خدا کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔
حجۃ الوداع سے پہلے حج ذی قعدہ میں ہوا اس لئے کہ اس سال کا حج ذی قعدہ میں ہوا جس میں حضرت ابوبکر ؓ کو امیر حج بنا کر بھیجا گیا تھا۔ اور حضرت علی ؓ نے مکہ میں مشرکین کو حضور ﷺ کے حکم کے بموجب سورة برأت پڑھ کر سنائی تھی۔ پھر اگلے سال حج ذی الحجۃ میں ہوا تھا جس میں حضور ﷺ نے فریضہ حج ادا کیا تھا اور جو حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی مہینے کو حج کا مہینہ قرار دے دیا۔ اس لئے کہ مشرکین حج کے مہینے کو آگے پیچھے کردیا کرتے تھے۔ اس طرح حضور ﷺ نے جس سال فریضہ حج ادا کیا اتفاق سے اس سال حج اس مہینے میں ادا کی گیا جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر ابتدا ہی سے حج فرض کردیا تھا اور انہیں لوگوں کو حج کے لئے بلانے کا حکم دیا تھا چناچہ ارشاد ہے (و ادنفی الناس بالحج یا توک رجالا اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو وہ تمہارے پاس پیدل آئیں گے) تا آخر آیت۔ اسی بنا پر حضور صلی اللہ الیہ وسلم نے عرفات میں کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا تھا (الا ان الزمان قد استدارکھیئتہ یوم خلق السماوات والارض۔ لوگو ! آگاہ ہو جائو کہ زمانہ اپنی اس اصل حالت کی طرف پلٹ آیا ہے جو آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے وقت اس کی تھی) اسی طرح ذی الحجہ کی نویں تاریخ یعنی یوم عرفہ حج کا دن مقرر ہوا اور دسویں تاریخ یوم النحر قرار پائی۔ یہ ان لوگوں کا قول ہے جو یہ کہتے ہیں کہ آیت میں مذکور چار مہینے یہی تھے جن میں مشرکین کو ملک میں چلنے پھرنے کی اجازت تھی اور ان کے گزر جانے کے ساتھ ہی مشرکین سے کئے گئے معاہدوں کا خاتمہ ہوگیا اور ان کی جان و مال کی حفاظت کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ معاہدے کی مدت کے اختتام سے پہلے معاہدے کو توڑ دینے اور اسے علانیہ ان کے آگے پھینک دینے نیز حالت جنگ بحال کرنے اور امان یعنی جنگ نہ کرنے کی حالت کو ختم کرنے کے جواز کی کئی صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ دشمن کی بدعہدی اور اس کی خیانت اور بدنیتی کا خطرہ ہو۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس بات کا ثبوت مل جائے کہ وہ خفیہ طور پر اس معاہدے سے پھرگئے ہیں اس صورت میں علانیہ اس معاہدے کو ان ک آگے پھینک دیا جائے۔ تیسری صورت یہ کہ معاہدے کی ایک شق یہ ہو کہ امام المسلمین جب تک چاہے گا انہیں امان یعنی جنگ بندی کی حالت پر برقرار رکھے گا اور جب چاہے گا جنگ بندی کی حالت ختم کر دے گا۔ جس طرح حضور ﷺ نے اہل خیبر سے فرمایا تھا (اقرکم ما اقرکم اللہ۔ جب تک اللہ تعالیٰ تمہیں اس حالت پر برقرار رکھنا چاہے گا میں بھی تمہیں اس پر برقرار رکھوں گا) ایک اور صورت یہ ہے کہ معاہدے میں ایک مدت کی تعیین کے ساتھ یہ شرطیں بھی رکھی گئی ہوں کہ انہیں جنگ سے امان حاصل ہوجائے گی اور انہیں آگاہ کئے بغیر ان پر حملہ نہیں کیا جائے گا۔ نہ ہی انہیں غافل پا کر ان پر دھاوا بولا جائے گا نیز انہیں جب بتادیا جائے گا تو جنگ سے امان کی حالت ختم ہوجائے گی۔ اس قسم کے معاہدے کو مدت کے اختتام سے پہلے توڑ دینا جائز ہوگا اس لئے کہ معاہدے کے مضمون میں یہ بات واضح کردی گئی تھی اس میں خواہ دشمن کی طرف سے غداری کا خطرہ ہو یا نہ ہو یہ کہ معاہدے میں یہ شرط رکھ دی گئی ہو کہ ہم جب چاہیں گے ہمیں اس معاہدے کو ختم کردینے کا اختیار ہوگا یا یہ شرط نہ بھی ہو۔ ان تمام صورتوں میں ہمیں جب وقت بھی اسلام کی سربلندی اور غلبے کا کوئی موقع نظر آئے گا ہمارے لئے دشمن کے سامنے اس معاہدے کو پھینک کر اسے توڑ دینا جائز ہوگا۔ ایسا اقدام بدعہدی نہیں کہلائے گا جس میں قصداً خیانت کا ارادہ کیا گیا ہو نہ ہی یہ عہد سے بےوفائی کہلائے گا۔ اس لئے کہ معاہدے میں مذکور امان کی خلاف ورزی اور نقص عہد اس صورت میں لازم آتا جب امام المسلمین امان کے بعد ایسے وقت ان پر حملہ آور ہوتا جب وہ ہماری اس امان کی بنا پر اس حملے سے غافل ہوتے لیکن جب ہماری طرف سے معاہدے کر ان ک آگے پھینک دیا جائے تو پھر امان کی حالت ختم ہوجائے گی اور ان کے ساتھ حالت جنگ بحال ہوجائے گی، معاہدے کو ان کے سامنے پھینک دینے کے لئے ان کی رضامندی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ امام المسلمین کو جب مسلمانوں میں کمزوری نظر آئے اور وہ انہیں دشمنوں کے خلاف جنگ کرنے کے قابل نہ سمجھتا ہو تو ایسی صورت میں اس کیلئے دشمن کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کرلینا جائز ہوگا۔ پھر جب مسلمانوں کے اندر قوت پیدا ہوجائے گی اور ان میں دشمن سے ٹکر لینے کی سکت آ جائے گی تو امام کے لئے جنگ بندی کے اس معاہدے کو دشمن کے سامنے پھینک کر ان سے قتال کرنا جائز ہوگا۔ اسی طرح امام کے لئے ہر ایسا قدم اٹھانا درست ہوگا جس میں مسلمانوں کی بھلائی کا پہلو موجود ہو۔ دشمن کی طرف سے بدعہدی اور خیانت کے خطرے پر رفع امان اور جنگ بندی کے خاتمہ کا جواز موقوف نہیں ہوتا۔ حرمت کے مہینے حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ آیت زیر بحث میں مذکور چار مہینوں سے اشہر حرم یعنی حرمت کے مہینے مراد ہیں جو یہ ہیں۔ رجب، ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم، سورة برأت کا نزول اس وقت ہوا تھا جب حضور ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو امیر حج بنا کر مکہ بھیجا تھا۔ اس سال حج ذیقعدہ کے مہینے میں ادا کیا گیا تھا۔ اس قول کے مطابق مشرکین کو گویا شہر حرم کے اختتام تک مہلت مل گئی تھی جریر نے مغیرہ سے، انہوں نے شعبی سے، انہوں نے المحرر بن ابی ہریرہ سے اور انہوں نے اپنے والد حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں : حضور ﷺ نے جب حضرت علی ؓ کو مشرکین سے برأت کا اعلان کرنے کے لئے مکہ بھیجا تو میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ میں اعلان کرتا رہا حتیٰ کہ میری آواز بیٹھ گئی۔ حضور ﷺ نے ہمیں ان باتوں کے اعلان کا حکم دیا تھا، اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرسکے گا۔ کوئی شخص برہنہ حالت میں کعبہ کا طواف نہیں کرے گا جنت میں صرف وہی شخص داخل ہوگا جو صاحب ایمان ہوگا نیز جس شخص کے ساتھ حضور ﷺ کا کوئی معاہدہ امن ہے اس کی مدت با چار مہینے ہے، چار ماہ گزر جانے کے بعد اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے بری الذمہ ہوں گے۔ “ یہ کہنا بھی درست ہے کہ چار مہینوں کی ابتدا اس اعلان برأت کے ساتھ ہوگئی تھی اور اس سے اشہر حرم کے اختتام تک کے چار مہینے مراد لینا بھی درست ہے۔ سفیان نے ابو اسحاق سے، انہوں نے زید بن تییع سے اور انہوں نے حضرت علی ؓ سے روایت کی ہے کہ… ہر سال ذی الحجۃ میں حج اکبر ہے حضور ﷺ نے انہیں حج اکبر کے دن یہ اعلان کرنے کے لئے مکہ بھیجا تھا کہ کوئی شخص برہنہ حالت میں بیت اللہ کا طواف نہ کرے۔ جنت میں صرف مسلمان داخل ہوگا اس سال کے بعد آئندہ کوئی مشرک حج نہیں کرسکے گا اور جس شخص کے ساتھ حضور ﷺ کا کوئی معاہدہ ہے وہ اس کی مدت کے اختتام تک باقی رہے گا۔ حضرت علی ؓ کی اس روایت میں معاہدہ کی مدت کو اس کی مدت کے اختتام تک باقی رہنے کا اعلان ہے اس میں چار ماہ کی تخصیص نہیں ہے۔ جبکہ ابوہریرہ کی روایت میں چار ماہ تک کی مدت کا ذکر ہے۔ دونوں باتوں کا درست ہونا ممکن ہے۔ وہ اس طرح کہ آپ ﷺ نے بعض معاہدوں کے لئے چار ماہ کی مدت یا اشہر حرم کے اختتام تک کی مدت مقرر کی اور بعض مشرکین کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی مدت وہ مقرر کی جو معاہدوں میں طے پائی تھی خواہ یہ مدت طویل تھی یا مختصر۔ مشرکین کو چار ماہ کی مہلت حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں چار مہینوں کا جو ذکر ہے وہ قول باری (فسیحوا فی الارض اربعۃ اشھر) سے مطابقت رکھتا ہے جبکہ حضرت علی ؓ کی روایت میں معاہدے کی اصل مدت کو برقرار رکھنے کا ذکر قول باری (الا الذین عاھدتم من المشرکین ثم لم ینقصوکم شیئا ولم یظاہرو اعینکم احدا فاتموا الیھم عھدھم الی مدتھم بجز ان مشرکین ک جن سے تم نے معاہدے کئے پھر انہوں نے اپنے عہد کو پورا کرنے میں تمہارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور تمہارے خلاف کسی کی مدد کی تو ایسے لوگوں کے ساتھ تم بھی مدت معاہدہ تر وفا کرو) کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ اس طرح ان لوگوں کے ساتھ معاہدے کئے گئے معاہدوں کی مدت چار ماہ مقرر کی گئی جن کی طرف سے بدعہدی اور خیانت کا خطرہ تھا اور جن لوگوں کی طرف سے اس قسم کا کوئی خطر نہیں تھا ان کے ساتھ کئے گئے معاہدوں میں طے شدہ مدت کو پورا کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ یونس نے ابو اسحاق سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے 9 ھ میں حضرت ابوبکر ؓ کو امیر حج بنا کر روانہ کردیا۔ حضرت ابوبکر ؓ کی روانگی کے بعد سورة برأت نازل ہوئی جس میں حضور ﷺ اور مشرکین کے درمیان معاہدے کو توڑ دینے کا اعلان تھا۔ اس معاہدے کی یہ شقیں تھیں کہ بیت اللہ میں آنے سے کسی شخص کو روکا نہیں جائے گا اور حرمت والے مہینے میں کسی کو خوفزدہ نہیں کیا جائے گا۔ یہ حضور ﷺ اور تمام اہل شرک کے درمیان ایک عام معاہدہ تھا۔ اس کے علاوہ آپ کے اور قبائل عرب کے درمیان کچھ خصوصی معاہدے بھی تھے جن میں مدتوں کا تعین تھا۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی (براء ۃ من اللہ و رسولہ الی الذین عاھدتم من المشرکین) یعنی مشرکین عرب سے جو عام معادہ ہوا تھا اس میں شریک تمام اہل شرک سے برأت کا اعلان کردیا گیا۔ پھر فرمایا (فسیحوا فی الارض اربعۃ اشھر) یعنی اس حج کے بعد اللہ تعالیٰ یک طرف سے اعلان برأت ہے۔ قول باری (الا الاذین عاھدتم من المشرکین) سے مراد وہ خاص معاہدے ہیں جن میں مدتوں کا تعین کردیا گیا تھا۔ پھر فرمایا (فاذا تسخ الاشھر الحرم۔ جب حرمت کے مہینے گزر جائیں) یعنی وہ چار مہین جن کی انہیں مہلت دی گئی تھی۔ قول باری (الا الذین عاھدتم عند المسجد الحرام۔ مگر وہ لوگ جن کے ساتھ تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھاض سے مراد بنو بکر کے قبائل ہیں جو حدیبیہ میں طے پانے والے معاہدے میں قریش کے ساتھ اس بات تک کے لئے شامل ہوئے تھے جو حضور ﷺ اور قریش کے درمیانطے پائی تھی۔ اس معاہدے کی خلاف ورزی صرف قریش کے قبیلے اور بنو دئل نے کی تھی حضور ﷺ کو یہ حکم دیا گیا کہ بنو بکر میں سے جن لوگوں نے اس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی تھی ان ک ساتھ مدت کے اختتام تک یہ معاہدہ برقرار رکھا جائے۔ چناچہ ارشاد ہوا (فما استقاموا لکم فاستقیموا تھم جب تک یہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو) معاویہ بن صالح نے علی بن ابی طلحہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے قول باری (فسیحوا فی الارض اربعۃ اشھر) کی تفسیر میں ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے جن کے ساتھ حضور ﷺ کا معاہدہ تھا، چار ماہ کی مدت مقرر کی کہ اس مدت میں وہ جہاں چاہیں چلیں پھریں۔ جن لوگوں کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں تھا۔ ان کی مدت اشہر جحرم کا اختتام یعنی پچاس دن مقرر کئے پھر حضور ﷺ کو حکم دیا کہ اشہر حرم کے گزر جانے پر ان لوگوں کا فیصلہ تلوار سے کریں جنہوں نے معاہدے کئے تھے لیکن وہ اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے، آپ کو یہ حکم ملا کہ ان لوگوں کے ساتھ کئے گئے تمام معاہدے اور میثاق ختم کردیئے جائیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ کی اس روایت میں ان لوگوں کے لئے چار مہینوں کو عہد یعنی مہلت کے مہینے قرار دیا جن کے ساتھ کوئی معاہدہ تھا لیکن جن مشرکین کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں تھا ان کی مدت ماہ محرم کا اختتام مقرر کی۔ یہ مدت حج کے وقت یعنی دسویں ذی الحجہ سے محرم کے آخر تک پچاس دنوں کی تھی، محرم کا اختتام اشہر حرم کا آخر ہوتا ہے۔ ابن جریج نے مجاہد سے قول باری (براء ۃ من اللہ و رسولہ الی المین عاھدتم من المشرکین) کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ اس س مراد وہ مشرکین ہیں جنہوں نے معاہدے کر رکھے تھے۔ یہ بنو خزاء اور بنو مدلج اور دیگر قبائل تھے پھر آنحضور ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ اور علی ؓ کو مکہ اس مقصد کے لئے بھیجا تھا کہ وہ جا کر معاہدوں والے مشرکین کو یہ اعلان سنا دیں کہ انہیں چار ماہ تک بےخوف و خطر چلنے پھرنے کی اجازت ہے۔ یہ چار ماہ اشہر حرم تھے جو دس ذی الحجہ سے شروع ہو کر دس ربیع الآخر تک تسلسل کے ساتھ آتے تھے ان چار مہینوں کے بعد ان کے ساتھ کسی قسم کا کوئی معاہدہ باقی نہیں رہے گ۔ مجاہد کہتے ہیں ان مہینوں کو اشر حرم اس لئے کہا گیا ہے کہ مشرکین کو ان میں بےخوف و خطر امن کے ساتھ چلنے پھرنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ مجاہد اشہر حرم سے مہلت والے چار مہینے مراد لئے ہیں اور یہ رائے دی ہے کہ ان میں قتال کی تحریم کی بنا پر انہیں اشہر حرم کہا گیا ہے، یہ وہ اشہر حرم نہیں ہیں جن کا ذکر اس قول باری میں ہوا ہے۔ (منھا اربعۃ حرم۔ ان میں سے چار حرمت کے مہینے ہیں) اسی طرح ان کا ذکر ایک اور آیت میں ہوا۔ حرمت کے مہینوں کی جنگ (یسئلونک عن الشھر الحرام قتال فیہ۔ آپ سے حرمت کے مہینے میں جنگ کے متعلق فتویٰ پوچھتے ہیں ) اس لئے کہ یہ حرمت کے چار مہینے ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب کے مہینے ہیں ان کے بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ حضور ﷺ سے بھی یہی قول منقول ہے۔ اس بارے میں مجاہد نے جو کہا ہے وہ احتمال کے درجے میں ہے۔ قول باری (فسیحوا فی الارض اربعۃ اشھر) کی تفسیہ میں سدی نے کہا ہے کہ اس سے وہ مدت مراد ہے جو دس ذی الحجہ سے شروع ہو کر دس ربیع الآخر پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ اس کے بعد نہ کسی کے لئے امان ہے اور نہ کوئی معاہدہ، اس کے بعد صرف اسلام ہوگا یا تلوار، ہمیں عبداللہ بن اسحاق المروزی نے روایت بیان کی، انہیں حسن بن ابی الربیع الجرجانی نے، انہیں عبدالرزاق نے، انہیں معمر نے زہری سے قول باری (فسیحوا فی الارض اربعۃ اشھر) کی تفسیر میں بیان کیا کہ اس کا نزول شوال میں ہوا، اس طرح چار ماہ یہ ہوئے۔ شوال، ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم۔ قتادہ کا قول ہے کہ اس چر ماہ میں ذی الحجہ کے بیس دن، محرم، صفر، ربیع الاول اور ربیع الآخر کے دس دن شامل ہیں۔ یہی مدت وہ مہلت کی مدت تھی جو انہیں دی گئی تھی۔ سورہ برأت کا زمانہ نزول ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قتادہ کا قول مجاہد کے قول سے مطابقت رکھتا ہے جسے ہم نے ابھی اوپر بیان کیا ہے لیکن زہری کے قول کو میں ان کا وہم خیال کرتا ہوں اس لئے کہ راویوں کا اس پر اتفاق ہے کہ سورة برأت کا نزول ذی الحجہ کے مہینے میں ہوا تھا یہ وہ وقت تھا جب حضور ﷺ حضرت ابوبکر (رح) کو امیر حج بنا کر مکہ کی طرف روانہ کرچکے تھے۔ ان کے جانے کے بعد یہ سورة نازل ہوئی۔ آپ نے حضرت علی ؓ کو اس مقصد کے لئے مکہ کی طرف روانہ کردیا تاکہ وہ منیٰ میں موجود لوگوں کو یہ سورت پڑھ کر سنا دیں۔ درج بالا سطور میں ہم نے جن روایات کا ذکر کیا ہے ان کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ حضور ﷺ اور مشرکین کے درمیان ایک عام معاہدہ تھا جس کی شقیں یہ تھیں کہ کسی شخص کو بیت اللہ سے روکا نہیں جائے گا اور کسی کو حرمت کے مہینے میں خوفزدہ نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس معاہدے کی مدت چارماہ مقرر کردی اور فرما دیا (فسیحوا فی الارض اربعۃ اشھر) حضور ﷺ اور کچھ مخصوص قبیلوں کے درمیان بھی معاہدے موجود تھے جن میں مدتوں کا تعین تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان معاہدوں کو ان کی مدتوں کے اختتام تک پورا کرنے کا حکم دیا بشرطیکہ دوسری جانب سے بد عہدی اور خیانت کا خطرہ نہ ہو، چناچہ ارشاد باری ہے (الا الاذین عاھدتم من المشرکین ثم لم ینقصو کم شیئا ولم یضاھروا علیکم احد فاتموا الیھم عھدھم الی مدتھم۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ان کی مدت یا تو اشہر حرم کے اختتام تک تھی جن میں اللہ تعالیٰ نے قتال کی تحریم کردی تھی یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی مدت معاہدہ توڑنے کے اعلان کے وقت یعنی دس ذی الحجہ سے شروع ہو کر دس ربیع الآخر تک تھی۔ ان مہینوں کو اشہر حرم اس لئے کہا گیا کہ بقول مجاہد ان میں قتال کی تحریم کردی گئی تھی۔ اس مدت کے اختتام کے بعد کسی کے ساتھ کسی قسم کا کوئی معاہدہ باقی نہیں رکھا گیا بلکہ اس مدت کے گزر جانے کے بعد تمام معاہدات کو ختم کرنا واجب کردیا گیا۔ اس حکم میں وہ مشرکین بھی شامل تھے جن کے ساتھ کوئی خصوصی معاہدہ تھا اور وہ تمام مشرکین بھی جن کے ساتھ ایک عام معاہدہ تھا جس کی مشقیں یہ تھیں کہ بیت اللہ میں کسی کو داخل ہونے سے روکا نہیں جائے گا اور اشہر حرم میں کسی کا خون نہیں بہایا جائے گا۔ اس سے ماہ محرم کا نکل جانا بھی مراد ہوسکتا ہے اس لئے کہ اس کے ذریعے اشہر حرم کا اختتام ہوجاتا ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے قتال کی تحریم کا حکم دے رکھا تھا ہم نے اس قول کی روایت حضرت ابن عباس ؓ سے بھی کی ہے۔
Top