Ahkam-ul-Quran - At-Tawba : 1
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ
بَرَآءَةٌ : بیزاری (قطعِ تعلق) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖٓ : اور اس کا رسول اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے عٰهَدْتُّمْ : تم سے عہد کیا مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
(اے اہل اسلام اب) خدا اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے مشرکوں سے جن سے تم نے عہد کر رکھا تھا بیزاری (اور جنگ کی تیاری ہے)
معاہدہ مشرکین سے اعلان برأت قول باری ہے (براء ۃ من اللہ و رسولہ الی الذین عاھدتم من المشرکین اعلان برأت ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکین کو جن سے تم نے معاہدے کئے تھے) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ برأت قطع موالات اور امان کے خاتمہ نیز بچائو کے مرتفع ہوجانے کا نام ہے۔ ایک قول کے مطابق اس کے معنی ہیں۔ نذہ براء ۃ من اللہ و رسولہ “ اسی بناء لفظ براۃ مرفوع ہے۔ ایک قول ہے کہ ’ براۃ ‘ مبتدا ہے اور اس کی خبر حرف الی میں موجود ظرفیت کا معنی ہے اس بناء پر یہ آیت اس معاہدہ کے خاتمہ کی مقتضی ہے جو حضور ﷺ اور مشرکین کے درمیان طے پایا تھا نیز امان کے ارتفاع۔ حالت جنگ کی بحالی اور قتال کے اعلان کی بھی مقتضی ہے۔ یہ آیت اس قول باری کی طرح ہے (و اما تخافن من قوم خیانۃ فانبذالیھم علی سواء اور اگر کبھی تمہیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانہ اس کے آگے پھینک دوض اس طرح زیر بحث آیت میں برات کچا جو ذکر ہے وہ گویا اس معاہدے کو علانیہ ان کے آگے پھینک دینے اور معاہدہ ختم کردینے کے مترادف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ درج بالا آیت میں معاہدے کو علانیہ پھینک دینے کا حکم ان مشرکین کے ساتھ خاص تھا جو اپنے دلوں میں خیانت چھپائے ہوئے تھے اور معاہدے سے غداری اور بدعہدی کا ارادہ رکھتے تھے۔ اس بنا پر زیر بحث آیت میں مذکورہ لفظ برأت کا تقاضا تو یہ تھا کہ مشرکین کو اعلان برأت کے ساتھ ہی معاہدہ کا خاتمہ وہ جاتا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے فواً بعد یہ فرمایا (فسیحوا فی الارض اربعۃ اشھر۔ پس تم لوگ ملک میں چار مہینے اور چل پھر لو) تو اس کے ذریعے یہ بیان کردیا کہ معاہدے کے خاتمہ کی ابتدا چار ماہ بعد ہوگی اور جن مشرکین سے اس قسم کے معاہدے کئے گئے تھے وہ چار ماہ کی مدت کے اختتام تک باقی رہیں گے۔ حسن کا قول ہے کہ اس وقت جن مشرکین کے ساتھ چار ماہ سے زائد مدت تک کے معاہدے تھے ان کی مدت گھٹا کر چار ماہ کردی گئی اور جن کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی مدت چار ماہ سے کم تھی وہ بڑھا کر چار ماہ کردی گئی۔ ایک قول یہ ہے کہ ان چار مہینوں سے عہد یعنی اعلان کے مہینے مراد ہیں جن کی مشرکین کو مہلت دی گئی تھی۔ اس کی ابتدا بیس (20) ذی قعدہ سے ہوئی تھی، اور ذی الحجہ، محرم اور صفر کے مہینے اس میں شامل کر کے دس ربیع الاول کو اس کا اختتام ہوا تھا۔
Top