Ahsan-ut-Tafaseer - Yunus : 106
وَ لَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُكَ وَ لَا یَضُرُّكَ١ۚ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّكَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَلَا تَدْعُ : اور نہ پکار مِنْ دُوْنِ : سوائے اللّٰهِ : مَا : جو لَا يَنْفَعُكَ : نہ تجھے نفع دے وَلَا : اور نہ يَضُرُّكَ : نقصان پہنچائے فَاِنْ : پھر اگر فَعَلْتَ : تونے کیا فَاِنَّكَ : تو بیشک تو اِذًا : اس وقت مِّنَ : سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور خدا کو چھوڑ کر ایسی چیز کو نہ پکارنا جو نہ تمہارا کچھ بھلا کرسکے اور نہ کچھ بگاڑ سکے۔ اگر ایسا کرو گے تو ظالموں میں ہوجاؤ گے۔
106۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو خطاب کر کے یہ فرمایا ہے کہ جس کے ہاتھ میں کچھ نفع و نقصان نہ ہو اس کو مدد کی غرض سے پکارنا اور اس کی پرستش کرنا بےفائدہ اور بڑے ظلم اور ستم کی بات ہے کیوں کہ جس اللہ نے پیدا کیا اور جس اللہ کی قدرت میں بندہ کا نیک و بد نفع و نقصان سب کچھ ہے اس پروردگار کو چھوڑ کر بےنفع و نقصان کی چیزوں کو اپنا معبود بنانا اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی ظلم اور ستم نہیں ہے۔ اس آیت کے مطلب میں بظاہر یہ خطاب تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ سے کیا ہے اور دراصل مکہ کے بت پرست لوگوں کو یہ مطلب سمجھایا ہے کہ اپنے پیدا کرنے والے معبود حقیقی کو چھوڑ کر جو لوگ بتوں کی پرستش کرتے ہیں وہ لوگ بڑے ظالم اور ستم گار ہیں آگے کی آیت میں اس مطلب کے ثابت کرنے کی دلیل یہ بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف کی غیب کی تکلیف اور راحت کا بدلنا جب کہ دنیا میں ہر ایک کے اختیار سے باہر ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ سوا اللہ تعالیٰ کے کسی کو معبود بننے کا حق نہیں ہے اور جو لوگ بغیر کسی حق اور استحقاق کے سوا اللہ تعالیٰ کے اور چیزوں کو معبود قرار دیتے ہیں وہ بڑے ظالم اور ستمگار ہیں مسند امام احمد اور ترمذی میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی حدیث گویا ان آیتوں کی تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے عبد اللہ بن عباس ؓ کو نصیحت کرتے وقت یہ فرمایا کہ ہر طرح کی مدد کی خواہش تجھ کو اللہ تعالیٰ سے ہی کرنی چاہیے کیوں کہ تمام دنیا تجھ کو ضرر پہنچانا چاہے یا نفع جب تک اللہ کی مرضی نہ ہو نہ کوئی تجھ کو نفع پہنچا سکتا ہے نہ کچھ ضرر پہونچا سکتا ہے۔ 1 ؎ ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ 1 ؎ مشکوۃ ص 453 باب التوکل والصبر۔
Top