Ahsan-ut-Tafaseer - Yunus : 108
قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ١ۚ فَمَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا١ۚ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِوَكِیْلٍؕ
قُلْ : آپ کہ دیں يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ : اے لوگو قَدْ جَآءَكُمُ : پہنچ چکا تمہارے پاس الْحَقُّ : حق مِنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب فَمَنِ : تو جو اهْتَدٰى : ہدایت پائی فَاِنَّمَا : تو صرف يَهْتَدِيْ : اس نے ہدایت پائی لِنَفْسِهٖ : اپنی جان کے لیے وَمَنْ : اور جو ضَلَّ : گمراہ ہوا فَاِنَّمَا : تو صرف يَضِلُّ : وہ گمراہ ہوا عَلَيْهَا : اس پر (برے کو) وَمَآ : اور نہیں اَنَا : میں عَلَيْكُمْ : تم پر بِوَكِيْلٍ : مختار
کہہ دو کہ لوگو ! تمہارے پروردگار کے ہاں سے تمہارے پاس حق آچکا ہے۔ تو جو کوئی ہدایت حاصل کرتا ہے تو ہدایت سے اپنے ہی حق میں بھلا کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو گمراہی سے اپنا ہی نقصان کرتا ہے اور میں تمہارا وکیل نہیں ہوں۔
108۔ 109۔ آنحضرت ﷺ کو اس آیت میں حکم ہوا کہ آپ لوگوں سے کہہ دیں کہ جو دین اور کتاب میں لے کر آیا ہوں وہ بالکل حق ہے اس میں کوئی شک اور شبہ نہیں ہے جو اس سے ہدایت پائے گا وہ اپنی ہی جان کے لئے پائے گا اور اپنا آپ فائدہ اٹھائے گا۔ دوسروں کا اس میں کچھ حصہ نہیں اور جو اس کو نہ مانے گا اور گمراہ کا گمراہ ہی رہے گا اس کا وبال اسی کی گردن پر ہوگا اوروں کو اس سے کوئی علاقہ نہیں اور میں تم لوگوں کا کوئی وکیل و مختار نہیں ہوں کہ سب ہی کو ایماندار بنادوں مجھے تو خدا نے راستہ بتانے کو بھیجا ہے جو خدا کا پیغام ہے وہ تمہیں پہنچا دیتا ہوں اب آگے تم جانو اور خدا جانے۔ اور پھر خاص حضرت کو خدا نے یہ حکم کیا کہ آپ تو وحی کے تابعدار بنے رہیں اور جب تک خدا ان لوگوں کا کوئی فیصلہ نہ کرے آپ صبر کئے رہیں وہ بڑے انصاف کے ساتھ انصاف کرنے والا حاکم ہے۔ امام سیوطی کا قول ہے کہ حضرت صبر کیے رہے پھر خدا کا حکم ہوا کہ ان مشرکوں سے جنگ کرو اگر ایمان لائیں تو خیر ورنہ قتل کر ڈالو۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے مغیرہ بن شعبہ ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ادنیٰ اہل جنت کو اس قدر سامان دیا جاوے گا جو دنیا کی پانچ بادشاہتوں کے برابر ہوگا اور اعلیٰ درجے کے اہل جنت کے سامان کا حال اللہ تعالیٰ کو یہ خوب معلوم ہے نہ کسی نے وہ آنکھوں سے دیکھا نہ کانوں سے سنا نہ اس کا تصور کسی کے دل میں گزر سکتا ہے۔ 1 ؎ یہ حدیث ( فمن اھتدی فانما یھتدی لنفسہ) کی گویا تفسیر ہے صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ ابو جہل اور اس کے چند ساتھیوں نے آنحضرت ﷺ کو سجدہ کی حالت میں دیکھ کر آپ کی پیٹھ پر نجاست کی بھری ہوئی اوجھڑی ڈال دی۔ 2 ؎ عبد اللہ بن مسعود ؓ اس روایت میں یہ بھی کہتے ہیں کہ ان اوجھڑی ڈالنے والوں میں سے اکثر لوگ بدر کی لڑائی میں مشرک مارے گئے اور میں نے ان کی لاشوں کو دیکھا یہ حدیث { واصبر حتی یحکم اللّٰہ وھو خیر الحاکمین } کی گویا تفیر ہے۔ معتبر سند سے ترمذی اور مستدرک حاکم میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے آنحضرت ﷺ سے ایک روز کہا کہ حضرت آپ تو جلدی بوڑھے ہوگئے آپ نے فرمایا مجھ کو سورة ہود اور سورة واقعہ اور سورة والمرسلات اور سورة عم یتسألون اور سورة اذا لشمس کورت نے بوڑھا کردیا۔ 3 ؎ حاصل یہ ہے کہ ان سورتوں میں حالات قیامت کا ذکر ہے ان حالات کے سننے سے آپ کے دل پر ایسا اثر خوف کا ہوا جس خوف اور اندیشہ کے اثر نے آپ کو ضعیف کردیا کیوں کہ آدمی ہر وقت کے اندیشہ سے جلدی ضعیف ہوجاتا ہے امت کے ان غافلوں کو اس حدیث کے مضمون پر ذرا غور کرنا چاہیے جو قیامت کے حساب و کتاب سے بالکل غافل ہیں اور سوچنا چاہیے کہ قیامت ایسی ایک اندیشہ کی چیز ہے جس اندیشہ نے باوجود نبی ہونے کے نبی وقت کو بوڑھا کردیا اسی مضمون کی ایک حدیث صحیح سند سے عقبہ بن عامر ؓ کی روایت سے تفسیر ابن مردویہ اور طبرانی میں ہے 4 ؎ یہ سورة مکی ہے اگرچہ بعضے سلف نے اس میں کچھ آیتیں مدنی قرار دی ہیں لیکن اس تفسیر کے مقدمہ میں یہ گزر چکا ہے کہ جس سورت کی شروع کی آیتیں مکی ہوں وہ ساری سورت مکی کہلاتی ہے۔ 1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 435 ج 2۔ 2 ؎ مجمع الزوائد ص 37 ج 7 تفسیر سورة ھود۔ 3 ؎ الترغیب ص 326 ج 2 فصلی فیما لادنی اھل اجنۃ۔ 4 ؎ مشکوۃ ص 502 باب صفۃ النار واھلہا۔
Top