Ahsan-ut-Tafaseer - Yunus : 57
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ١ۙ۬ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّاسُ : لوگو قَدْ جَآءَتْكُمْ : تحقیق آگئی تمہارے پاس مَّوْعِظَةٌ : نصیحت مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب وَشِفَآءٌ : اور شفا لِّمَا : اس کے لیے جو فِي الصُّدُوْرِ : سینوں (دلوں) میں وَهُدًى : اور ہدایت وَّرَحْمَةٌ : اور رحمت لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کے لیے
لوگو ! تمہارے پاس پروردگار کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی بیماریوں کی شفاء اور مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت آپہنچی ہے۔
57۔ جس طرح آدمی کے بدن کے لئے بخار کھانسی وغیرہ طرح طرح کے مرض ہیں اسی طرح عقیدہ کے بگڑنے سے آدمی کے دل میں کفر و نفاق حسد ریا کاری یہ طرح طرح کے مرض پیدا ہوجاتے ہیں اور جس طرح طب کی کتابوں میں جسمانی مرض کے ہر طرح کے علاج لکھے ہیں قرآن شریف اور حدیث میں اس طرح ان دلی مرضوں کے ہر طرح کے علاج ہیں اس واسطے قرآن شریف اور آنحضرت ﷺ کے دنیا میں آنے کو دل کی تندرستی کا سبب فرمایا اور اوپر کی آیت میں فرمایا تھا کہ تمام دنیا کے مال و متاع کے بدلا دینے پر بھی قیامت کے دن نجات میسر نہ آوے گی۔ اس لئے اس آیت میں فرمایا کہ تمام دنیا کی جمع پونجی سے اللہ تعالیٰ کی یہ رسول اور کتاب آسمانی کے بھیجنے کی رحمت بہتر ہے دنیا کا رہنا چند روزہ ہے اور یہ چند روز کی کمائی بھی یہیں رہ جاوے گی رسول اور کتاب آسمانی کی فرمانبرداری اگر تم کرو گے تو یہ کمائی تمہارے ساتھ جاوے گی اور وہ نجات آخرت تم کو نصیب ہوگی جو دنیا بھر کا مال خرچ کرنے سے اس دن نہیں مل سکتی اس لئے اس رحمت الٰہی کی خوشی کرو اور دنیا بھر کے مال و متاع سے اس رحمت الٰہی کو بہتر جانو۔ صحیح بخاری میں نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا آدمی کے بدن میں دل ایک ایسا ٹکڑا ہے جس کی درست حالت میں ہوجانے سے آدمی کا تمام جسم درست حالت میں ہوجاتا ہے اور اگر آدمی کا دل درست حالت میں نہ ہو تو آدمی کا ہاتھ پیر کا کوئی کام اعتبار کے قابل نہیں 1 ؎۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ نیت دلی ارادہ کا نام ہے اور ہاتھ پیر کا ہر ایک کام دلی ارادہ کی بنیاد پر ہوتا ہے اس لئے ہاتھ پیر کا جو نیک کام عقبی کے ثواب کی خالص نیت سے نہ کیا جاوے وہ بالکل رائیگاں ہے چناچہ ابو داود اور نسائی کے حوالہ سے ابو امامہ ؓ کی صحیح حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے۔ 2 ؎ جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا بغیر خالص نیت کے کوئی نیک کام بارگاہ الٰہی میں مقبول نہیں ہوسکتا یہ تو دل کے ارادہ کا خلل شریعت کی ان باتوں میں ہوا جن میں دلی ارادہ اور ہاتھ پیروں کے عمل دونوں کا دخل ہے جس طرح مثلاً نماز کا رکوع سجدہ تو سب پورا ہو مگر اس میں دلی ارادہ دنیا کے دکھاوے کا ہو تو اس طرح کی نماز نا مقبول ہے۔ شریعت میں بعضی باتیں ایسی بھی ہیں جن میں ہاتھ پیروں کے عمل کا کچھ دخل نہیں ہے بلکہ ان باتوں کا فقط دل میں یقین اور عقیدہ رکھنے کا حکم ہے مثلا ہر ایمان دار شخص کو دل میں یہ یقین اور عقیدہ رکھنا چاہیے کہ اللہ وحدہ لا شریک ہے اس کی ذات وصفات میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے اس کے سب رسول اور سب آسمانی کتابیں برحق ہیں ان باتوں میں دل کی حالت میں نادرستی یہی ہے کہ یہ دلی یقین یا تو سرے سے ہو ہی نہیں جیسے مشرکوں کے دل کا حال ہے یا یقین ہو تو سہی مگر پورا نہ ہو جیسے کچے مسلمانوں کے دل کا حال ہے غرض اللہ تعالیٰ نے دل کی ہر طرح کی نادرست حالت کو دلی مرض قرار دے کر قرآن شریف کی نصیحت کو اس مرض کی شفاعت کا سبب قرار دیا ہے اس لئے ہر ایمان دار شخص کو چاہیے کہ ہمیشہ اپنے دل کی حالت کو قرآن شریف کی نصیحت کا پابند رکھے اور جس طرح جسمانی مرض کا علاج فوراً کیا جاتا ہے۔ اسی طرح دلی ہر مرض کا علاج بھی نصیحت الٰہی کے موافق وقت پر کرتا رہے تاکہ کوئی دلی مرض بڑھنے نہ پاوے۔ 1 ؎ دیکھئے تفسیر ہذا جلد دوم ص 506۔ 2 ؎ تفسیر ہذا جلد دوم 364۔
Top