Ahsan-ut-Tafaseer - Yunus : 76
فَلَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْۤا اِنَّ هٰذَا لَسِحْرٌ مُّبِیْنٌ
فَلَمَّا : تو جب جَآءَھُمُ : آیا ان کے پاس الْحَقُّ : حق مِنْ : سے عِنْدِنَا : ہماری طرف قَالُوْٓا : وہ کہنے لگے اِنَّ : بیشک هٰذَا : یہ لَسِحْرٌ : البتہ جادو مُّبِيْنٌ : کھلا
تو جب ان کے پاس ہمارے ہاں سے حق آیا تو کہنے لگے کہ یہ تو صریح جادُو ہے۔
76۔ 82۔ جس طرح اکثر منکر لوگوں نے پیغمبروں کے معجزوں کو جادو اور پیغمبروں کو جادوگر بتلایا ہے فرعون اور اس کے ساتھیوں نے بھی حضرت موسیٰ کے عصا اور ید بیضا کو دیکھ کر جادو کہا فرعون کے زمانہ میں جادو کا بڑا چرچہ اور زور تھا فرعون کی طرف سے بہت سے جادوگر جاگیریں پاتے تھے اور مصر کے اطراف میں اپنی جاگیرات میں رہتے تھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو اس لئے یہی جواب دیا کہ تائید آسمانی اور معجزہ نبوی کو اگر تو سمجھتا ہے تو اپنے بڑے بڑے جادوگروں کو بلا کر مجھ سے مقابلہ کرالے اور دیکھ لے کہ تائید آسمانی کے مقابلہ میں جادو کبھی سر سبز نہ ہوگا آخر فرعون نے اپنے جادوگر بلوائے اور فرعون کی سالگرہ کا دن جو بڑے اس کے دربار کا دن تھا مقابلہ کا دن قرار پایا اور جنگل میں ہزارہا آدمی جمع ہوئے اور فرعون کے جادوگر آخر مقابلہ کی تاب نہ لاسکے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت پر ایمان لے آئے فرعون کے ایمان لانے کے لئے اگرچہ یہ معجزہ کافی تھا مگر اس کے سر پر ازلی کمبختی سوار تھی آخر ایمان نہ لایا اور پھر بھی معجزہ کو جادو بتلاتا رہا اور خواری اور ذلت سے ہلاک ہوا یہ قصہ تفصیل سے سورة اعراف میں گزر چکا ہے اور سورة طہ اور سورة شعراء اور سورة قصص میں پھر آوے گا اس قصہ میں بھی آنحضرت کی یہ تسکین اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے اگرچہ قریش معجزہ اور قرآن کو جادو اور اے نبی تم کو جادوگر بتلا رہے ہیں لیکن بالآخر فرعون کے جادوگروں کی طرح اکثر ان کے قائل ہو کر اسلام لاویں گے اور فرعون کی طرح جو سرکشی پر اڑے رہیں گے ہلاک کر دئیے جاویں گے اللہ کا وعدہ سچا ہے تیرہ برس کی آنحضرت ﷺ کی کوشش میں جس مکہ میں سو کے اندر مسلمانوں کی تعداد تھی دس برس کے بعد جب اللہ تعالیٰ کا مقررہ وقت آگیا تو سارا مکہ مسلمانوں سے بھر گیا اور آج تک یہ ہدایت کا اثر باقی ہے کہ سوا مسلمان کلمہ گو کے اور کوئی مکہ میں نظر نہیں آتا اور مشرکین مکہ میں سے جو لوگ مرتے دم تک راہ راست پر نہیں آئے ان کا انجام بدر کی لڑائی میں جو ہوا وہ کچھ تو بدر کی لڑائی کے قصہ میں گزر چکا اور کچھ آگے آتا ہے غرض ہر کام کا اللہ کی طرف سے وقت مقرر ہے وقت کا منتظر رہنا چاہیے گھبرانا نہیں چاہیے۔ تفسیر ابو الشیخ اور تفسیر ابن ابی حاتم میں لیث بن ابی سلیم سے روایت ہے کہ آیت { ان اللّٰہ سیبطلہ } اور آیت { فوقع الحق } اور آیت { ولا یفلح الساحر حیث اتی } (20: 69) پانی پر چڑھ کر وہ پانی جادو کے اثر والے شخص کے سر پر ڈالا جاوے تو فوراً فائدہ ہوتا ہے۔ 1 ؎ صحیح بخاری میں ابو طلحہ کے واسطے سے اور صحیح مسلم میں بغیر واسطہ کے انس بن مالک ؓ کی روایتیں ایک جگہ گزر چکی ہیں جس میں یہ ہے کہ بدر کی لڑائی میں مشرکین مکہ کے بڑے بڑے سردار جو مارے گئے تھے ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے وعدہ کو سچا پالیا۔ 2 ؎ مطلب یہ ہے کہ قرآن شریف میں جس عذاب آخرت کا وعدہ تھا اور اس کو تم لوگ جادوگروں کی باتوں کی طرح جانتے تھے اب تو تم لوگوں نے اس وعدہ کا ظہور آنکھوں سے دیکھ لیا یا اب بھی تمہاری آنکھوں پر وہی پردہ پڑا ہے جو دنیا میں تھا۔ سورة والطور کی آیت { افسحر ھذا ام انتم لا تبصرون (52: 15)} کا مطلب بھی یہی ہے جو انس بن مالک ؓ کی حدیث کا ہے فرق اتنا ہے کہ حدیث میں قرآن کو جادو کہنے والے مشرکین مکہ کو اللہ کے رسول نے عذاب قبر جتلایا اور قائل کیا ہے سورة والطور کی آیت میں اللہ کے فرشتے آسمانی کتابوں کو جادو بتلانے والے مشرکوں کو دوزخ کا عذاب گھڑی گھڑی جتلادیں گے اور قائل کریں گے حاصل کلام یہ ہے کہ والطور کی آیت اور انس بن مالک ؓ کی حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس سے آسمانی کتابوں معجزوں کو جادو اور اللہ کے رسولوں کو جادوگر کہنے والوں کا انجام اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے معجزہ اور جادو میں یہ فرق ہے کہ معجزہ سے جو چیز ظہور میں آتی ہے وہ اصلی ہوتی ہے اور جادو سے جو چیز ظہور میں آتی ہے وہ اصلی نہیں ہوتی اسی واسطے جادو کے اثر کے ہزارہا سانپ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ایک معجزہ کے سانپ کا مقابلہ نہ کرسکے جن لیث بن ابی سلیم تابعی کا ذکر اوپر گزرا یہ ابن جریح کے مرتبہ کے صدوق تابعی ہیں اگرچہ آخر عمر میں ان کا حافظہ بگڑ گیا تھا لیکن ابن معین نے ان کو قابل اعتبار ٹھہرایا ہے۔ 3 ؎ 1 ؎ تفسیر ابن کثیر 427 ج 2۔ 2 ؎ صحیح بخاری ص 566 ج 2 باب قتل ابی جہل۔ 3 ؎ تہذیب ص 467 ج 8۔
Top