Ahsan-ut-Tafaseer - Hud : 114
وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ١ؕ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّاٰتِ١ؕ ذٰلِكَ ذِكْرٰى لِلذّٰكِرِیْنَۚ
وَاَقِمِ : اور قائم رکھو الصَّلٰوةَ : نماز طَرَفَيِ : دونوں طرف النَّهَارِ : دن وَزُلَفًا : کچھ حصہ مِّنَ : سے (کے) الَّيْلِ : رات اِنَّ : بیشک الْحَسَنٰتِ : نیکیاں يُذْهِبْنَ : مٹا دیتی ہیں السَّيِّاٰتِ : برائیاں ذٰلِكَ : یہ ذِكْرٰي : نصیحت لِلذّٰكِرِيْنَ : نصیحت ماننے والوں کے لیے
اور دن کے دونوں سروں (یعنی صبح و شام) کے اوقات میں اور رات کی چند (پہلی) ساعات میں نماز پڑھا کرو۔ کچھ شک نہیں کہ نیکیاں گناہوں کو دور کردیتی ہیں۔ یہ ان کے لئے نصیحت ہے جو نصیحت قبول کرنیوالے ہیں۔
114۔ صحیحین ترمذی مسند امام احمد وغیرہ میں جو شان نزول اس آیت کی حضرت عبد اللہ بن مسعود عبد اللہ بن عباس اور ابی الیسر ؓ کی روایت سے بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ابی الیسر کے پاس ایک عورت کھجوریں خریدنے آئی تھی ابو الیسر بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس عورت سے کہا کہ بہ نسبت میری دکان کے میرے گھر میں عمدہ کھجوریں ہیں یہ سن کر جب وہ عورت میرے ساتھ میرے گھر میں آئی تو میں نے اس سے مباشرت تو نہیں کی لیکن سوا مباشرت کے اور سب بےشرمی کی باتیں کی پھر مجھ کو ندامت ہوئی پہلے میں نے حضرت عمر ؓ سے اس کا ذکر کیا حضرت عمر ؓ نے فرمایا تیرا برا ہو شاید وہ عورت کسی غازی کی تھی جو لڑائی پر گیا ہوا ہے میں نے کہا کہ ہاں پھر میں نے ابوبکر صدیق ؓ سے اس کا ذکر کیا اور پھر میں نے خود آنحضرت ﷺ سے اس کا ذکر کیا آنحضرت ﷺ نے تھوڑی دیر یہ قصہ سن کرسکوت کیا اتنے میں حضرت جبرئیل (علیہ السلام) یہ آیت لائے اس کے بعد میں نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا یہ حکم میرے لئے کیا خاص ہے اس پر حضرت عمر ؓ نے میرے سینہ پر ایک تھپڑ مارا اور کہا کہ نہیں سب مسلمانوں کے لئے یہ حکم عام ہے اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ عمر ؓ نے سچ کہا ہے 1 ؎۔ صحیح مسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ایک نماز سے دوسری نماز تک کے اور ایک جمعہ اور رمضان سے دوسرے جمعہ اور رمضان تک کے صغیرہ گناہ نماز اور روزہ سے معاف ہوجاتے 2 ؎ ہیں۔ حاصل یہ ہے کہ شرک اور کبیرہ گناہ تو بدوں توبہ کے معاف نہیں ہوتا صغیرہ گناہ نماز اور روزہ سے معاف ہوجاتا ہے۔ یہ تو اوپر بیان ہوچکا ہے کہ مشرک بدوں توبہ کے مرجاوے تو اس کی بخشش نہیں ہے اور کبیرہ گناہ والا شخص بدوں توبہ کے مرجاوے تو اس کی بخشش اللہ کی مرضی پر ہے وہ چاہے بلا سزا کے اس کو جنت میں داخل کرے چاہے کچھ سزا دے کر داخل کرے غرض جہاں تک ہو سکے کبیرہ گناہ سے بچنا چاہیے اور شامت نفس سے کبیرہ گناہ ہوجاوے تو فوراً توبہ کرنی چاہیے شرائط توبہ کے اوپر بیان ہوچکے ہیں حاصل ان کا یہی ہے کہ گناہ سے دل میں شرمندہ ہونا چاہیے اور آئندہ کے لئے گناہ سے باز رہنے کا پورا قصد اور ارادہ دل میں توبہ کے وقت رکھنا چاہیے۔ آیت کے ٹکڑے اقم الصلوٰۃ طرفی النھار وزلفا من اللیل سے پانچوں وقت کی نمازیں نکلتی ہیں اور ان نمازوں سے گناہوں کے دور ہوجانے اور جاتے رہنے کا یہ مطلب ہے کہ ایک نماز سے دوسری نماز تک کے صغیرہ گناہ بغیر توبہ کے فقط نماز کی برکت سے معاف ہوجاتے ہیں چناچہ اسی مضمون کی ابوہریرہ ؓ کی حدیث صحیح مسلم کے حوالہ سے ابھی اوپر گزر چکی ہے وہی حدیث آیت کے ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے ذلک کا اشارہ ان باتوں کی طرف ہے جن کا ذکر اوپر کی آیتوں میں گزرا مثلاً مشرکین مکہ اور یہود کی بیڈھنگی باتوں سے بیچ کر دین پر پورے طور سے قائم رہنا مطلب یہ ہے کہ وہ باتیں تو سب لوگوں کی عقبیٰ کی بہبودی کی ہیں مگر یہ قرآن کی نصیحت انہی لوگوں کے دل پر اثر کرتی ہے جو عقبیٰ کی جزا وسزا کے قائل ہیں اور حساب و کتاب کے لئے اللہ کے روبرو حاضر ہونا ان کو یاد ہے صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے قرآن کی نصیحت کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی فرمائی 3 ؎ ہے۔ اسی طرح قرآن کی نصیحت انہی لوگوں کے دل پر اثر کرتی ہے جو علم الٰہی میں نیک ٹھہر چکے ہیں اور جس طرح بری زمین میں مینہ کا پانی رائیگاں جاتا ہے اسی طرح ازلی بد لوگوں کے حق میں قرآن کی نصیحت رائیگاں ہے۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 678 ج 2 باب قولہ واقم الصلوٰۃ طرفی النہار الخ و تفسیر ابن کثیر ص 462۔ 463 ج 2۔ 2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 462 ج 2 و مشکوٰۃ ص 57 کتاب الصلوٰۃ۔ 3 ؎ صحیح بخاری ص 18 باب فضل من علم و علم و مشکوٰۃ ص 28 باب الاعتصام بالکتاب والسنہ۔
Top