Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anfaal : 28
قَالَ یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ اٰتٰىنِیْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِهٖ فَعُمِّیَتْ عَلَیْكُمْ١ؕ اَنُلْزِمُكُمُوْهَا وَ اَنْتُمْ لَهَا كٰرِهُوْنَ
قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اَرَءَيْتُمْ : تم دیکھو تو اِنْ : اگر كُنْتُ : میں ہوں عَلٰي : پر بَيِّنَةٍ : واضح دلیل مِّنْ رَّبِّيْ : اپنے رب سے وَاٰتٰىنِيْ : اور اس نے دی مجھے رَحْمَةً : رحمت مِّنْ عِنْدِهٖ : اپنے پاس سے فَعُمِّيَتْ : وہ دکھائی نہیں دیتی عَلَيْكُمْ : تمہیں اَنُلْزِمُكُمُوْهَا : کیا ہم وہ تمہیں زبردستی منوائیں وَاَنْتُمْ : اور تم لَهَا : اس سے كٰرِهُوْنَ : بیزار ہو
انہوں نے کہا کہ اے قوم ! دیکھو تو اگر میں اپنے پروردگار کی طرف دلیل (روشن) رکھتا ہوں اور اس نے مجھے اپنے ہاں سے رحمت بخشی ہو جس کی حقیقت تم سے پوشیدہ رکھی گئی ہے تو کیا ہم اس کے لئے تمہیں مجبور کرسکتے ہیں ؟ اور تم ہو کہ اس سے ناخوش ہو رہے ہو۔
28۔ یہ نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے جواب میں کہا کہ جو دین میں خدا کی طرف سے لایا ہوں اور جس بات کی تمہیں ہدایت کرتا ہوں تم پر اس کا قبول کرنا واجب ہے اور جو تم نے جواب دئیے ہیں کوئی بھی ٹھیک نہیں انسان ہونے میں بیشک ہم تم برابر ہیں مگر انسان ہونا نبوت کے مخالف نہیں اور نہ یہ ضرور ہے کہ سب کے سب جتنے انسان ہیں نبی ہوجائیں یہ تو خدا کا فضل ہے جس کو وہ پسند کرتا ہے رسول بنا کر لوگوں کی طرف بھیجتا ہے اگر تم میں اس کی قابلیت اور صلاحیت ہوتی تو ممکن تھا کہ تم بھی رسول بنادئیے جاتے اور رذیلوں کے ایمان لانے سے بھی میری نبوت پر کچھ الزام نہیں آتا کیونکہ تمہاری طرح یہ بھی بشر ہیں ان کو بھی تمہاری طرح عقل و فہم ہے ان کا تابع ہونا میرے لئے حجت ہے میں کہہ سکتا ہوں کہ دیکھو تم ہی لوگوں میں سے یہ ہیں جو مجھ پر ایمان لائے ہیں تم کیوں کر ان کے ایمان لانے سے مجھ پر الزام لگا سکتے ہو تمہاری تو بعینہ وہ مثال ہے کہ کوئی گروہ صحرا میں بھٹکتا پھرتا ہو اور اپنے رہبر کا کہنا نہ مانتا ہو وہ گروہ راستہ پر نہیں آسکتا اسی طرح جب تم مجھے جھٹلاتے ہو اور دین حق کے قبول کرنے سے بیزار ہو تو میں زبردستی تم کو راستہ پر نہیں لاسکتا کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے علم ازلی میں جو گمراہ ٹھہر چکا اس کو زبردستی کون راہ راست پر لاسکتا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے حضرت علی ؓ کی روایت ایک جگہ گزرچکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا علم الٰہی کے موافق جو شخص جنت میں جانے کے قابل ٹھہرا ہے وہ ویسے ہی عمل کرتا ہے اور ویسے ہی کاموں کے کرنے میں اس کو آسانی نظر آتی ہے اور جو شخص دوزخ میں جانے کے قابل ٹھہرا ہے وہ ویسے ہی عمل کرتا ہے اور ویسے ہی کاموں کے کرنے میں اس کو آسانی نظر آتی ہے 1 ؎ نوح (علیہ السلام) کے جواب کا یہ مطلب اس حدیث سے خوب حل ہوجاتا ہے کہ علم الٰہی کے موافق نبوت معجزہ سب چیز کی صداقت جن لوگوں کی نظر سے اس طرح چھپی ہوئی ہے کہ وہ ان حق باتوں کے قبول کرنے سے بیزار رہیں اور یہی بیزاری ان کو آسان اور حق باتوں کی صداقت مشکل نظر آتی ہے تو ایسے لوگوں کو دوزخ کے راستہ سے پھیر کر جنت کے راستہ پر زبردستی کوئی نہیں لاسکتا آگے جا کر نوح (علیہ السلام) نے ان لفظوں میں جو جواب دیا ہے۔ { لا ینفعکم نصحی ان اردت ان انصح لکم ان کان اللہ یرید ان یغویکم (11، 34)} یہ دوسرا جواب گویا پہلے خواب کی تفسیر ہے اور اس دوسرے جواب اور حضرت علی ؓ کی حدیث کو ملا کر پہلے جواب کا مطلب وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 738 تفسیر سورة واللیل اذا یشی۔
Top