Ahsan-ut-Tafaseer - Hud : 29
وَ یٰقَوْمِ لَاۤ اَسْئَلُكُمْ عَلَیْهِ مَالًا١ؕ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ وَ مَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ؕ اِنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَ لٰكِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُوْنَ
وَيٰقَوْمِ : اور اے میری قوم لَآ اَسْئَلُكُمْ : میں نہیں مانگتا تم سے عَلَيْهِ : اس پر مَالًا : کچھ مال اِنْ : نہیں اَجْرِيَ : میرا اجر اِلَّا : مگر عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر وَمَآ اَنَا : اور نہیں میں بِطَارِدِ : ہانکنے والا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ جو ایمان لائے اِنَّهُمْ : بیشک وہ مُّلٰقُوْا : ملنے والے رَبِّهِمْ : اپنا رب وَلٰكِنِّيْٓ : اور لیکن میں اَرٰىكُمْ : دیکھتا ہوں تمہیں قَوْمًا : ایک قوم تَجْهَلُوْنَ : جہالت کرتے ہو
اور اے قوم ! میں اس (نصیحت) کے بدلے تم سے مال وزر کا خواہاں نہیں ہوں۔ میرا صلہ تو خدا کے ذمے ہے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں میں انکو نکالنے والا بھی نہیں ہوں۔ وہ تو اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ نادانی کر رہے ہو۔
29۔ پھر نوح (علیہ السلام) نے اس بات کی تفصیل بیان کی کہ میں جو لوگوں کو راہ حق بتلاتا ہوں اور خدا کا پیغام پہنچاتا ہوں اس سے میرا منشأ یہ نہیں ہے کہ کوئی مجھے اس کی اجرت میں مال و دولت دے یہ نبوت کا دعویٰ ہرگز طلب دنیا کے لئے نہیں ہے جو تم کوئی تہمت مجھ پر دھر سکو گے یہ تو خالص خدا کے واسطے ہے۔ اس کا اجر بھی خدا ہی دے گا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء پر یہ بات فرض ہے کہ وہ خالص دل کی نصیحت کے طور پر احکام الٰہی امت کے لوگوں کو پہنچا دیں۔ اب انبیاء اس نصیحت کے معاوضہ میں اگر امت کے لوگوں سے کچھ اجرت اور مزدوری لیویں تو وہ خالص دلی کی نصیحت کا موقع باقی نہیں رہتا اس واسطے وعظ و نصیحت کے معاوضہ میں انبیاء کو کسی اجرت یا مزدوری کا لینا جائز نہیں ہے رہی یہ بات کہ امت کے علماء انبیاء کے وارث بن کر لوگوں کو قرآن کے موافق کچھ وعظ و نصیحت کریں یا قرآن پڑھاویں تو ان کی اجرت کا کیا حکم ہے اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام احمد (رح) کے نزدیک قرآن کی تعلیم کے معاوضہ میں کسی اجرت کا لینا جائز نہیں ہے۔ ابوداؤد اور ابن ماجہ میں ابی بن کعب ؓ اور عبادہ بن الصامت ؓ کی جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ عبادہ بن الصامت ؓ اور ابی بن کعب ؓ نے کچھ لوگوں کو قرآن کی سورتیں سکھائیں ان لوگوں نے اپنے ان استادوں کو کچھ تحفہ دیا آنحضرت ﷺ کے روبرو جب اس تحفہ کا ذکر آیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ تحفہ قیامت کے دن تحفہ لینے والے کے حق میں دوزخ کی آگ بن جاوے گا 1 ؎ اس حدیث سے امام ابوحنیفہ (رح) کے اور امام احمد (رح) کے مذہب کی پوری تائید ہوتی ہے جو علماء اس اجرت کے جائز ہونے کے قائل ہیں انہوں نے اس قسم کی آیتوں اور حدیثوں کا طرح طرح سے جواب دیا ہے جس کی تفصیل حدیث کی شرح اور فقہ کی کتابوں میں ہے۔ 1 ؎ مشکوٰۃ ص 58 باب الاجارہ و شقیح الرواۃ ص 196 ج 2۔
Top