Ahsan-ut-Tafaseer - Hud : 30
وَ یٰقَوْمِ مَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰهِ اِنْ طَرَدْتُّهُمْ١ؕ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ
وَيٰقَوْمِ : اور اے میری قوم مَنْ يَّنْصُرُنِيْ : کون بچائے گا مجھے مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ اِنْ : اگر طَرَدْتُّهُمْ : میں ہانک دوں انہیں اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ : کیا تم غور نہیں کرتے
اور برادران ملت اگر میں انکو نکال دوں تو (عذاب) خدا سے (بچانے کے لئے) کون میری مدد کرسکتا ہے ؟ بھلا تم غور کیوں نہیں کرتے ؟
30۔ جس طرح نوح (علیہ السلام) کے قوم کے مالدار لوگوں نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے یہ جھگڑا کیا کہ اے نوح (علیہ السلام) اگر تم ان کم عزت اور مفلس لوگوں کو اپنی مجلس میں آنے سے روک دو گے تو ہم مالدار اور عزت دار لوگ کبھی کسی وقت تمہاری مجلس میں آکر کچھ تمہاری نصیحت سنیں گے اور حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو جواب دیا جس جواب کا ذکر اس آیت میں ہے سورة انعام میں گزر چکا ہے کہ قریش میں عزت دار اور مالدار لوگوں نے آنحضرت ﷺ سے بھی یہی خواہش کو پورا کرنے سے منع فرمایا حاصل کلام یہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے زمانہ سے لے کر قیامت تک آخر شیطان تو ایک ہی ہے جو ہر زمانہ کے لوگوں کو بہکاتا ہے اس واسطے ہر ایک زمانہ کے لوگوں کے دلوں میں اس ظالم نے ایک ہی طرح کے وسوسے ڈالے ہیں اور ہر وقت کے منکر لوگوں نے ہر زمانہ کے رسول سے ایک ہی طرح کے ملتے جلتے جھگڑے کئے ہیں اور ایک مدت دراز سے ان جھگڑوں کا رواج ہر زمانہ کے منکر لوگوں میں چلا آیا ہے لیکن خواہ کسی قدر مدت دراز کا رواج ہو شریعت الٰہی میں بغیر حکم الٰہی اور سند شرعی کے کوئی رواج معتبر نہیں ہے اس لئے ہر زمانہ کی شریعت نے اس رواج کو نامعتبر ٹھہرایا اور توڑا یہ رواج تو اللہ کے رسولوں سے جھگڑا کرنے کا ایک بدعات کا رواج تھا۔ ظاہر میں اگر کوئی بات نیک معلوم ہوتی ہو اور سند شرعی سے اس بات کی تائید نہ ہوتی ہو تو اس طرح کی نیک بات کا رواج بھی شریعت میں جائز نہیں ہے۔ صحیحین کی حضرت انس ؓ کی حدیث اوپر گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بعضے صحابیوں نے خلاف سنت ہمیشہ روزہ رکھنے اور بعضوں نے ہمیشہ مجرور رہنے کا عہد کیا تھا۔ آنحضرت ﷺ ان صحابہ پر خفا ہوئے اور فرمایا کہ جو شخص میری سنت کے خلاف کوئی کام کرے گا وہ میری پیروی کرنے والے گروہ سے خارج ہے۔ 1 ؎ { انھم ملاقوا ربھم ولکنی اراکم قوما تجھلون } اس کا مطلب یہ ہے کہ غریب دیندار لوگ ایک دن اللہ کے روبرو کھڑے ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں اس لئے نیک عمل کرتے ہیں تم لوگ جاہل ہو جو ایسے لوگوں سے دوری ڈھونڈتے ہو آگے جو نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے مشرک لوگوں کو جواب دیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ میں ان غریب دیندار لوگوں کو بلا قصور اپنی مجلس کے آنے سے روک دوں گا تو یہ بڑی نا انضافی ہے پھر تم ہی لوگ دھیان کرو کہ اگر اس ناانصافی کی پرسش اللہ کی طرف سے ہوگی تو میں کیا جواب دوں گا۔ سورة انعام میں اللہ تعالیٰ نے یہی ہدایت آنحضرت ﷺ کو فرمائی ہے۔ اگر تم ان مشرکوں کے کہنے سے غریب دیندار لوگوں کو اپنی مجلس کے آنے سے روک دو گے تو تم ناانصاف ٹھہرو گے اس سبب سے سورة انعام کی آیتیں نوح (علیہ السلام) کے اس جواب کی گویا تفسیر ہیں۔ 1 ؎ مشکوٰۃ ص 27 باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ۔
Top