Ahsan-ut-Tafaseer - Hud : 93
وَ یٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰى مَكَانَتِكُمْ اِنِّیْ عَامِلٌ١ؕ سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ١ۙ مَنْ یَّاْتِیْهِ عَذَابٌ یُّخْزِیْهِ وَ مَنْ هُوَ كَاذِبٌ١ؕ وَ ارْتَقِبُوْۤا اِنِّیْ مَعَكُمْ رَقِیْبٌ
وَيٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْمَلُوْا : تم کام کرتے ہو عَلٰي : پر مَكَانَتِكُمْ : اپنی جگہ اِنِّىْ : بیشک میں عَامِلٌ : کام کرتا ہوں سَوْفَ : جلد تَعْلَمُوْنَ : تم جان لوگے مَنْ : کون۔ کس ؟ يَّاْتِيْهِ : اس پر آتا ہے عَذَابٌ : عذاب يُّخْزِيْهِ : اس کو رسوا کردیگا وَمَنْ : اور کون هُوَ : وہ كَاذِبٌ : جھوٹا وَارْتَقِبُوْٓا : اور تم انتظار کرو اِنِّىْ : میں بیشک مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ رَقِيْبٌ : انتظار
اور برادران ملت ! تم اپنی جگہ کام کئے جاؤ میں (اپنی جگہ) کام کئے جاتا ہوں۔ تم کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ رسوا کرنے والا عذاب کس پر آتا ہے۔ اور جھوٹا کون ہے ؟ اور تم بھی انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔
93۔ پہلے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اصحاب مدین کو شرک اور کم تولنے کی عادت سے توبہ استغفار کرنے کی نصیحت کی اور یہ کہا کہ مجھ کو ڈر ہے کہ اگر تم میرا کہنا نہ مانو گے تو قوم نوح اور قوم ہود اور قوم صالح اور قوم لوط کی طرح تم ہلاک ہوجاؤ گے جب ان لوگوں نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کا کہنا نہ مانا تو آخر درجہ انہوں نے یہ فرمایا کہ خیر جو تمہارا جی چاہے وہ کرو اب تم کو معلوم ہوجاوے گا کہ تمہاری کیا رسوائی ہونے والی ہے آخر وہی ہوا کہ تھوڑے دنوں میں عذاب آیا آگ برسی اور سب ہلاک ہوگئے آخری نصیحت حضرت شعیب (علیہ السلام) نے جو اپنی امت کو کی تھی جب بلوہ کے لوگ حضرت عثمان ؓ کے گھر پر چڑھ آئے اور حضرت عثمان ؓ کے شہید کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت عثمان ؓ نے بھی یہی نصیحت کی تھی کہ دیکھو مجھ کو شہید نہ کرو مجھ کو خوف ہے کہ قوم نوح اور قوم ہود اور قوم صالح اور قوم شعیب (علیہ السلام) کا سا وبال تم پر نہ آوے آخر وہی ہوا کہ اس روز سے مسلمان طرح طرح کے وبال میں گرفتار ہیں۔ آنحضرت ﷺ کے زمانہ سے لے کر حضرت عثمان ؓ کے زمانہ تک جو اقبال مندی اور خوشحالی تھی وہ بات باقی نہ رہی۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے حضرت علی ؓ کی حدیث گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا علم الٰہی میں جو لوگ دوزخ کے قابل ٹھہر چکے ہیں دنیا میں پیدا ہونے کے بعد وہ لوگ کام بھی ویسے ہی کرتے ہیں 1 ؎ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ شعیب (علیہ السلام) جب نصیحت کرتے کرتے تھک گئے اور ان کی قوم کے لوگ راہ راست پر نہ آئے تو اللہ کے نبی شعیب (علیہ السلام) نے جان لیا کہ یہ لوگ علم الٰہی میں دوزخ کے قابل ٹھہر چکے ہیں ان کے دل پر نصیحت کا کچھ اثر نہ ہوگا اس لئے اللہ کے نبی نے ان لوگوں سے کہہ دیا کہ اب تم لوگوں کا جو جی چاہے سو کرو یہ ایسی بات ہے جیسے کوئی طبیب کسی بیمار کی زندگی سے مایوس ہو کر کہہ دیتا ہے کہ جو تیرا جی چاہے وہ کھا پرہیز کی اب ضرورت نہیں ہے۔ اس آیت میں عذاب کے آجانے کی پیشین گوئی جو اللہ کے رسول شعیب (علیہ السلام) نے کی تھی اس کے ظہور کا حال آگے کی آیت میں آتا ہے۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 38 ج 2 تفسیر سورة واللیل اذا یفشی۔
Top