Ahsan-ut-Tafaseer - Adh-Dhaariyat : 44
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : کو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے بَدَّلُوْا : بدل دیا نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت كُفْرًا : ناشکری سے وَّاَحَلُّوْا : اور اتارا قَوْمَهُمْ : اپنی قوم دَارَ الْبَوَارِ : تباہی کا گھر
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے خدا کے احسان کو ناشکری سے بدل دیا۔ اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں اتارا ؟
28۔ 30۔ صحیح بخاری، نسائی مستدرک حاکم تفسیر عبد الرزاق، ابن جریر اور تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ اور حضرت علی ؓ کی روایتوں سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ قریش پر اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑا احسان کیا کہ اس قوم میں سے آنحضرت ﷺ کو نبی بنایا تاکہ قریش کی دین و دنیا درست ہوجاوے دنیا میں رسول کی برکت سے غیر قوموں پر فتح پاویں دین میں رسول سے راہ نجات سیکھ کر جس کے دائمی عیش میں رہیں لیکن فتح مکہ سے پہلے قریش لوگ اللہ کی اس نعمت سے خبر دار نہ ہوئے اور رسول وقت سے طرح طرح کی مخالفت کرتے رہے اور بت پرستی سے باز نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہر کام کا وقت مقرر ہے اس لئے وقت مقررہ تک ان کو مہلت دی گئی پھر آخر نتیجہ یہ ہوا کہ بدر کی لڑائی میں اللہ تعالیٰ نے قریش کے اکثر ان بڑے بڑے سرداروں کو جنہوں نے اللہ کی اس نعمت کی ناشکری کی تھی مسلمانوں کے ہاتھ سے غارت کرا دیا اسی باب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی 1 ؎ ہے۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ بنی امیہ میں سے بعضے لوگ تو وہ تھے کہ بدر اور احد میں مخالفت رسول کے سبب سے دنیا میں کتے کی موت مارے گئے اور آخرت میں فی النار ہوئے اور بعضے وہ جنہوں نے اللہ کی اس نعمت کی قدر کی اسلام لائے رسول کی اطاعت کی انہوں نے دنیا میں بھی عیش کئے حکومت پائی خلافت پائی دین میں بھی عیش دائمی کا وعدہ اللہ نے ان سے اور ہر سچے مسلمان سے کیا ہے۔ اسی واسطے آگے کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس وقت کے جو دو فرض نماز اور زکوٰۃ تھے ان کے ادا کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح دنیا میں اللہ کے وعدہ کا ظہور ہوا ہے مرتے دم تک جو اللہ کے رسول کی اطاعت میں رہے گا اور اللہ تعالیٰ نے اس وقت تک جو چیز فرض ٹھہرائی ہے اس کی ادائیگی میں کسی طرح کی کوتاہی نہ کرے گا اس سے آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ ایسا ہی پورا کرے گا جس طرح اس نے دنیا میں اپنا وعدہ سب کی آنکھوں کے سامنے پورا کیا ہے۔ صحیح روایتوں کے حوالہ سے اوپر گزر چکا 2 ؎ ہے کہ پہلے پہل ایک شخص عمرو بن لحی نے ملت ابراہیمی کو بگاڑ کر مکہ میں بت پرستی پھیلائی پھر اس کے بعد قریش کے سرداروں میں ابو جہل وغیرہ ایسے لوگ تھے جو خود بھی عمرو بن لحی کی رسموں کے پابند تھے اور دوسروں کو بھی اسی کی رغبت دلاتے تھے۔ مثلاً مستدرک حاکم اور بیہقی کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی صحیح روایت ایک جگہ گزر چکی ہے کہ ولید بن مغیرہ قرآن شریف کی آیتیں سن کر کچھ نرم دل ہوگیا تھا مگر ابو جہل نے پھر اس کو 3 ؎ بہکادیا حاصل کلام یہ ہے کہ ان آیتوں میں ایسے ہی لوگوں کو قوم کے بہکانے والے اور قوم کے تباہ کرنے والے فرمایا ہے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی روایت گزر چکی ہے کہ قیامت کے دن ایسے لوگوں پر دوہرا عذاب ہوگا خود بہکنے کا جدا اور دوسروں کے بہکانے کا 4 ؎ جدا اس واسطے ایسے لوگوں کو برے ٹھکانے کے لوگ فرمایا۔ بعضے مفسروں نے اس آیت اور آیت { الا خلاء یومئذ بعضھم لبعض عدو الا المتقین } (43: 67) کو ملا کر یہ شبہ پیدا کیا ہے کہ ایک آیت سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن مطلق دوستی نہ ہوگی اور دوسری آیت سے معلوم ہوتا کہ کچھ متقی لوگوں میں دوستی ہوگی جواب اس شبہ کا یہ ہے کہ قیامت کے حالات کئی طرح کے ہوں گے چناچہ نامہ اعمال تقسیم ہونے اور حساب و کتاب کے ہوجانے سے پہلے تو لوگ اس طرح کے بد حواس ہوں گے کہ آپس میں میل جول اور دوستی تو درکنار ایک کو دوسرے کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کا موقع بھی نہ رہے گا چناچہ بخاری، مسلم، نسائی، ابن ماجہ میں حضرت عائشہ ؓ کی اور طبرانی میں حضرت ام سلمہ ؓ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے لوگوں کے ننگے قبروں سے اٹھنے کا ذکر کیا تو حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ نے کہا کہ بڑا افسوس ہے سب مرد ننگی عورتوں کو دیکھیں گے آنحضرت ﷺ نے فرمایا اس وقت مردوں کو عورتوں کے اور عورتوں کے مردوں کے دیکھنے کا ہوش نامہ اعمال اور حساب کے خوف سے کہاں 5 ؎ ہوگا پھر حضرت ابوسعید خدری ؓ کی صحیح بخاری ومسلم کی روایت میں آپ نے فرمایا ہے کہ متقی لوگ جب جنت میں داخل ہونے کی اجازت حساب و کتاب سے فارغ ہوجانے کے بعد پاویں گے تو اپنے بھائی گنہگار مسلمانوں کی نجات کے لئے اللہ تعالیٰ سے ایسے جھگڑیں گے کہ وہ جھگڑا دیکھنے کے قابل ہوگا اس لئے دونوں آیتوں میں مختلف وقتوں کا حال ہے۔ حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ اے رسول اللہ کے اہل مکہ میں سے جو لوگ راہ راست پر نہیں آتے ان کو تم ان کی حالت پر چھوڑ دو اللہ کے علم ازلی میں جو انجام ان کا ٹھہرا ہے وقت مقررہ پر وہ خود ظہور میں آجاوے گا لیکن جو لوگ تم کو سچا رسول اور قرآن کو اللہ کا کلام مان چکے ہیں ان کو نماز اور زکوٰۃ کی تاکید کر دو اور ان کو یہ سمجھا دو کہ یہاں دنیا میں تو فرض اور نفل صدقہ خیرات میں تھوڑا سا مال خرچ کرنے سے ایک کے بدلہ میں سات سو تک کمانے کی تجارت کا موقع حاصل ہے جس سے نیکی کا پلڑا بھاری ہو کر آدمی کی نجات قیامت کے دن ہوسکتی ہے لیکن خاص اس دن عذاب الٰہی سے چھٹکارہ ہوجانے کے بدلہ میں کوئی شخص تمام دنیا کا مال و متاع بھی دینا چاہے گا تو چھٹکارہ نہ ہو سکے گا اور اس دن کوئی دوست بھی ایسا نظر نہیں آنے کا جو اللہ کی مرضی کے برخلاف سفارش کر کے کسی کو چھٹکارہ کرا دیوے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی کے موافق جو باتیں انسان پر فرض ٹھہرا دی ہیں خالص دل سے ان کو پورے طور پر ادا کرنے کی کوشش ہر ایمان دار شخص پر لازم ہے کہ قیامت کے دن یہی نجات کی صورت ہے صحیح قول حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کا یہی ہے کہ انہوں نے { ینفقوا مما رزقنھم } کی تفسیر زکوٰۃ کے لفظ سے کی ہے۔ اس لئے اس قول سے ان مفسروں کے مذہب کی بڑی تائید ہوتی ہے جو زکوٰۃ کے مکہ میں فرض ہونے کے قائل ہیں۔ 1 ؎ تفسیر ابن جریرص 219۔ 220 ج 12 و تیر ل ابن کثیر ص 538 ج 2 و تفسیر الدرالمنثور ص 84 ج 4۔ 2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 443 ج 4 تفسیر سورت المدثر 3 ؎ جلد ہذا ص 26۔ 4 ؎ صحیح بخاری ص 107 ج 2 باب قول اللہ وجوہ یو مئذ ناضرۃ الی ربہا فاظرۃ۔ 5 ؎ تفسیر ابن جریر ص 224 ج 13۔
Top