Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hijr : 87
وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ
وَلَقَدْ : اور تحقیق اٰتَيْنٰكَ : ہم نے تمہیں دیں سَبْعًا : سات مِّنَ : سے الْمَثَانِيْ : بار بار دہرائی جانیوالی وَالْقُرْاٰنَ : اور قرآن الْعَظِيْمَ : عظمت والا
اور ہم نے تم کو سات (آیتیں) جو (نماز میں) دوہرا کر پڑھی جاتی ہیں (یعنی سورة الحمد) اور عظمت والا قرآن عطا فرمایا ہے۔
87۔ 88۔ ان آیتوں میں اللہ پاک نے ان نعمتوں کا ذکر کیا جو اس نے خاص اپنے رسول برحق کو عطا کی ہیں اس لئے فرمایا کہ ” ہم نے دیں تم کو سات آیتیں وظیفہ کی اور قرآن بڑے درجہ کا عنایت کیا اکثر مفسرین نے { سبعا من المثانی } کی تفسیر میں یہ بیان کیا ہے کہ اس سے سورت فاتحہ مراد ہے کیونکہ سورت فاتحہ کی سات آیتیں ہیں اور ہر نماز میں یہ دوہرائی جاتی ہے خواہ فرض ہو خواہ نفل اور ہر ختم قرآن میں یہ دو دفعہ پڑھی جاتی ہے ایک ابتداء میں اور پھر ختم کرنے کے بعد۔ اس کے علاوہ اور بھی چند باتیں ہیں جن کو مفسروں نے بیان کیا ہے مثلاً اس کی آیتیں دو قسم کی ہیں خدا کی تعریف اور دعا اس لئے بندے اور اس کے رب کے درمیان میں یہ سورت ملی جلی ہے۔ صحیح بخاری 1 ؎ میں ابو سعید بن معلی ؓ کی ایک حدیث ہے جس میں ابو سعید بن معلی ؓ کہتے ہیں کہ میں ایک روز نماز پڑھ رہا تھا۔ آنحضرت ﷺ تشریف لائے اور مجھ کو بلایا مگر میں نماز پڑھ رہا تھا اس لئے میں آپ کے پاس نہ جاسکا جب نماز سے فارغ ہو کر حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا تو میرے بلانے سے کیوں نہیں آیا کیوں رک گیا تھا ابو سعید بن معلی ؓ نے کہا کہ میں نماز پڑ رہا تھا اس لئے نہ آسکا آپ نے فرمایا کہ کیا خدا نے یہ نہیں کہا ہے کہ اے ایمان والو خدا اور اس کے رسول کا حکم مانو اور کیا میں تجھ کو مسجد سے نکلنے کے پہلے ایک بڑے درجے کی سورت نہ بتلا دوں جب حضرت ﷺ مسجد سے باہر نکلنے لگے تو ابو سعید بن معلی نے یاد دلایا کہ آپ نے سورت بتلانے کو فرمایا تھا آپ نے سورت فاتحہ پڑھی اور فرمایا یہ بڑے درجے کا قرآن اور سبع مثانی ہے۔ دوسری حدیث ابوہریرہ ؓ سے بخاری میں ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سورت فاتحہ القرآن ہے اور سبع مثانی ہے اور بڑے درجے کا قرآن 2 ؎ ہے۔ یہ حدیثیں سورت فاتحہ کے سبع مثانی ہونے کی تفسیر ہیں مگر اور سورتوں کو بھی سبع مثانی کہا جائے یا پورے قرآن کو سبع مثانی کہا جائے تو بھی کوئی قباحت نہیں ہے چناچہ بعضے مفسروں نے سبع مثانی قرآن کی سات لمبی سورتوں کو بھی کہا ہے۔ یہ سورتیں سورت بقر سے سورت توبہ کے ختم تک ہیں کیوں کہ سورت توبہ میں بسم اللہ نہیں ہے اور ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ ہے اس لئے اکثر سلف انفال اور توبہ ان دونوں سورتوں کو علیحدہ علیحدہ سورت نہیں سمجھتے ہیں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ بھی اسی کے قائل ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ان سات سورتوں میں سے دو سورتیں موسیٰ (علیہ السلام) کو ملی ہیں باقی اور کسی رسول کو سوائے آنحضرت ﷺ کے نہیں ملیں اور بعضے مفسر ساتوں منزلوں کو بھی سبع مثانی خیال کرتے ہیں جن لوگوں نے سات سورتوں کو سبع مثانی کہا ہے وہ مثانی ہونے کی یہ وجہ فرماتے ہیں کہ ان سورتوں میں پہلے ان سورتوں میں پہلے رسولوں کے قصے اور ان سے عبرت کا حاصل کرنا اور پچھلی قوموں پر عذاب کا بھیجنا مکرر بیان کیا ہے اور جو لوگ ساتوں منزلوں کو سبع مثانی کہتے ہیں وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ پورے قرآن میں قصے مقرر ذکر کئے گئے ہیں اور دین کے احکام امر و نہی چند مرتبہ مذکور ہوئے ہیں بہر حال اس نعمت کا بیان کر کے اللہ پاک نے حضرت ﷺ کو خطاب کر کے فرمایا کہ دنیا میں جو اور لوگوں کو مال و دولت حاصل ہے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ شاید تمہیں اس کی رغبت ہوجائے تمہیں جو نعمت کے طور پر قرآن مجید عطا کیا گیا ہے اس کے سامنے دنیا کی دولت کیا حقیقت رکھتی ہے۔ یہ جلد فنا ہونے والی ہے اور یہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے ہیں نہ لائیں تم اس کا کچھ غم نہ کرو اس لئے کہ جو لوگ علم الٰہی میں گمراہ ٹھہر چکے ہیں وہ کسی طرح راہ راست پر نہ آویں گے صحیح مسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ دنیا کے مال و متاع میں جو شخص اپنے سے کم ہو اسے ایمان دار لوگوں تم اس کی طرف دیکھو اور جو تم سے بڑے درجے کا ہے اس کی طرف نہ دیکھو تاکہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تم کو دیا ہے تمہاری نظر میں وہ حقیر نہ ٹھہرے 3 ؎۔ حضرت عوف کہتے ہیں کہ میں مالدار لوگوں کے پاس بیٹھا کرتا تھا مجھے بڑا غم رہتا تھا کہ ان کے کپڑے اپنے کپڑے سے اچھا دیکھتا تھا۔ ان کے جانور میرے جانوروں سے موٹے تازے نظر آتے تھے جب میں نے یہ حدیث سنی تو غریبوں کے پاس اٹھنے بیٹھنے لگا اس وقت سے میں نہایت آرام میں ہوں پھر اللہ پاک نے حضرت کو یہ حکم دیا کہ ایمان والوں سے تواضع کے ساتھ پیش آؤ اور ان کی دلجوئی کرتے رہو۔ آیتوں اور ابوہریرہ ؓ کی حدیث کے ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ اہل اسلام کو دین کی نعمت کے طور پر قرآن جو عطا کیا گیا ہے اس کے سامنے تمام دنیا کی کچھ حقیقت نہیں کیونکہ قرآن کی نصیحت پر عمل کرنے والوں کو عقبیٰ میں جو جنت ملنے والی ہے اس کی تھوڑی سی جگہ بھی تمام دنیا سے بہتر ہے چناچہ صحیح بخاری و مسلم کے حوالے سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جتنی جگہ میں سوار اپنا کوڑا رکھ دیتا ہے جنت کی اتنی جگہ تمام دنیا سے بہتر ہے 4 ؎۔ لیکن اہل ایمان و قرآن کو دنیا میں گزر کے قابل جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس کی ناشکری کی نوبت بھی اس طرح نہ آوے گی کہ ہر ایماندار شخص ہمیشہ ایسے آدمی پر نظر ڈالا کرے جو اس شخص سے زیادہ تنگدست ہے کیونکہ تنگدست آدمی پر نظر ڈالنے سے اس کو اپنی تھوڑی سی خوشحالی بھی بڑی نعمت نظر آوے گی نافرمان مالداروں سے بےپروائی کرنے کے حکم کے بعد آخر میں تنگ دست ایمان داروں کی دلجوئی کا حکم اس لئے فرمایا کہ ان لوگوں کو معلوم ہوجاوے کہ اللہ تعالیٰ کو ایمان دار پسند ہے مالداری پسند نہیں عربی کے محاورے میں بازو جھکانا دلجوئی کی جگہ بولا جاتا ہے۔ 1 ؎ ص 6883 ج 2 باب قولہ ولقد اتینک سیعا من المثانف والقرآن العظیم (طبع سابق میں سعید بن معلی مطبوع ہے) ۔ صحیح بخاری سے تصحیح کردی گئی۔ 2 ؎ صحیح بخاری ایضاً ۔ 3 ؎ مشکوٰۃ ص 447 باب فضل الفقراء الخ۔ 4 ؎ مشکوٰۃ ص 495 باب صفۃ الجنتہ واھلہا۔
Top