Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Kahf : 71
فَانْطَلَقَا١ٙ حَتّٰۤى اِذَا رَكِبَا فِی السَّفِیْنَةِ خَرَقَهَا١ؕ قَالَ اَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ اَهْلَهَا١ۚ لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا اِمْرًا
فَانْطَلَقَا : پھر وہ دونوں چلے حَتّٰٓي : یہاں تک کہ اِذَا : جب رَكِبَا : وہ دونوں سوار ہوئے فِي السَّفِيْنَةِ : کشتی میں خَرَقَهَا : اس نے سوراخ کردیا اس میں قَالَ : اس نے کہا اَخَرَقْتَهَا : تم نے اس میں سوراخ کردیا لِتُغْرِقَ : کہ تم غرق کردو اَهْلَهَا : اس کے سوار لَقَدْ جِئْتَ : البتہ تو لایا (تونے کی) شَيْئًا : ایک بات اِمْرًا : بھاری
تو دونوں چل پڑے یہاں تک کہ جب کشتی میں سوار ہوئے تو (خضر نے) کشتی کو پھاڑ ڈالا (موسی نے) کہا کیا آپ نے اس کو اسلئے پھاڑا ہے کہ سواروں کو غرق کردیں ؟ یہ تو آپ نے بڑی عجیب بات کی
71۔ 82:۔ جب خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ کہا کہ تم میرے ساتھ رہو گے تو تم سے میری باتوں پر صبر نہ ہو سکے گا اسی کا یہ جواب موسیٰ (علیہ السلام) نے دیا کہ اگر اللہ نے چاہا تو میں تمہاری باتوں پر صبر کروں گا اور تمہاری کوئی بات نہ ٹالوں گا حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی حدیث صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ 1 ؎، سے جو قصہ کے شروع میں گزری اس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا اس وعدہ کے موافق موسیٰ (علیہ السلام) اگر خضر (علیہ السلام) کی باتوں پر صبر کرکے کچھ اور خضر (علیہ السلام) کے ساتھ رہتے تو خوب ہوتا کیونکہ اس صورت میں اور نئی باتیں اللہ تعالیٰ اس قصہ میں ذکر فرماتا اسی سورة میں مسند امام احمد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ کے حوالہ سے عبداللہ بن عمر کی صحیح روایت گزر چکی ہے جس میں یہ ہے کہ قسم کے ساتھ ہی اگر کوئی شخص انشاء اللہ کہہ لیوے تو قسم کے ٹوٹ جانے پر کفارہ نہیں آتا 2 ؎ وعدے کے ساتھ ہی موسیٰ (علیہ السلام) نے انشاء اللہ جو کہا اس کا فائدہ اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے حضرت موسٰی (علیہ السلام) کے اس وعدے کے بعد حضرت خضر (علیہ السلام) نے یہ شرط کی کہ اگر تم میرے ساتھ رہنا چاہئے ہو تو کسی بات کو جب تک میں نہ بتاؤں اس وقت تک اس کی تفصیل تم خود مجھ سے نہ پوچھنا حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی اوپر کی روایت میں ہے کہ کشتی والوں نے مفت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت خضر (علیہ السلام) کو کشتی میں بٹھا لیا تھا اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) کو کشتی کا تختہ توڑ ڈالنے پر بڑا تعجب ہوا کہ بھلائی کرنے والوں کے ساتھ خضر (علیہ السلام) نے یہ برائی کیوں کی اسی روایت میں یہ بھی ہے کہ کشتی کی منڈیر پر ایک چڑیا آن کر بیٹھی اور ایک بوند پانی دریا میں سے پی کر اڑ گئی اس پر حضرت خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا میرا اور تمہارا علم اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابلہ میں ایسا ہے جیسے دریا کے مقابلہ میں چڑیا کا پیا ہوا وہ ایک قطرہ پانی کا حدیث کا یہ ٹکڑا موسیٰ (علیہ السلام) کے سفر کا نتیجہ ہے کیونکہ یہ اوپر گزر چکا ہے کہ اسرائیل میں کے ایک شخص نے موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ پوچھا تھا کہ بڑا صاحب علم کون ہے اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سوال کے جواب کو اللہ تعالیٰ کے علم پر نہیں سونپا تھا۔ اسی خرابی کے جتلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو سفر کرنے اور خضر (علیہ السلام) سے ملنے کا حکم دیا تھا حدیث کے اس ٹکڑے میں خضر (علیہ السلام) کی جس نصیحت کا ذکر ہے اس سے وہی خرابی جتلائی گئی ہے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی اوپر کی روایت میں یہ بھی ہے کہ خضر ( علیہ السلام) نے جس لڑکے کو قتل کیا اللہ کے علم غیب میں وہ لڑکا کافر ٹھہر چکا تھا اگر وہ جیتا رہتا تو ماں باپ کو بھی اپنے جیسا کرلیتا۔ حدیث کے اس ٹکڑے سے اس لڑکے کے قتل کرنے کی مصلحت سمجھ میں آسکتی ہے اس روایت میں یہ بھی ہے کہ اس گاؤں کے لوگ جبکہ ایسے بےرحم تھے مسافروں کو کھانا نہیں دیتے تھے تو ایسے لوگوں کی دیوار کو بےمزدوری کے درست کردینا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ایک تعجب کی بات معلوم ہوئی کشتی کی حالت پر جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اعتراض کیا تو خضر علیہ اسلام الم اقل کہہ کر ٹال گئے جس کا مطلب یہ ہے کیا میں نے یہ پہلے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ تم سے میری باتوں پر صبر نہ ہو سکے گا لڑکے کی قتل کی حالت پر جب موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر اعتراض کیا تو خضر (علیہ السلام) نے الم اقل کے آگے لام کاف بڑھا کر تاکید کے طور پر کہا کہ تم میری باتوں پر صبر نہ کرسکو گے اس تاکید سے مطلب یہ ہے کہ جب تم میری باتوں پر صبر نہیں کرسکتے تو پھر میرے ساتھ کیوں رہتے ہو حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی اوپر کی روایت میں یہ بھی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا پہلا اعتراض بھولے سے تھا اور دوسرا جدائی کی شرط کے طور پر اور تیسرا جان بوجھ کر جدائی کے قصد سے اس سفر کا نتیجہ تو موسیٰ (علیہ السلام) سمجھ چکے تھے اس واسطے انہوں خضر (علیہ السلام) کے ساتھ اب زیادہ رہنا ضروری نہیں خیال کیا اور دوسرے اعتراض کے وقت جدائی کی شرط کو ظاہر کردیا۔ کشتی کا تختہ توڑنے کا سبب خضر (علیہ السلام) نے یہ بیان کیا کہ وہ کشتی ایسے محتاجوں کی تھی جن کی گزر اسی کشتی کے کرایہ کی آمدنی پر تھی اور دریا کے پرلے کنارہ پر ایک ظالم بادشاہ تھا جس کے حکم سے بادشاہی لوگ اچھی اچھی ثابت کشتیاں مفت بیکار میں پکڑ لیتے تھے اس واسطے میں نے اس کشتی کا ایک تختہ توڑ کر اس کو عیب دار کردیا تھا کہ بادشاہ کے لوگ اس کشتی کو نہ پکڑیں اور ان محتاجوں کی آمدنی میں خلل نہ پڑے صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی روایت ایک جگہ گزر چکی ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ جو کوئی اس بادشاہ کی طرح کسی کا کچھ مال زبردستی چھین لے گا قیامت کے دن اس کی اسی قدر نیکیاں چھین کر مالک مال کو دے دی جائیں گی 3 ؎۔ حدیث کے اسی ٹکڑے کو پہلی آیت کے ساتھ ملانے سے ایسے ظالم لوگوں کی آخرت کی سزا کا حال اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے جس طرح کے ظالم بادشاہ کا ذکر آیت میں ہے لڑکے کے مار ڈالنے کا سبب یہ بیان کیا کہ اس کے ماں باپ ایماندار تھے اور وہ لڑکا اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں منکر ایمان ٹھہر چکا تھا اس لیے اس کے زندہ رہنے سے اس کے ماں باپ بھی اس کی محبت میں اپنی حالت پر نہ رہتے۔ دین کی حفاظت کی نظر سے یہ قتل ایسا ہی ہے جیسے مثلا کعب بن اشرف کا قتل کا قصہ صحیح بخاری میں جابر بن عبداللہ ؓ کی روایت سے ہے۔ دونوں قتلوں میں فرق اتنا ہے کہ کعب بن اشرف کا دین میں خلل ڈالنا ظاہر ہوچکا تھا اور اس لڑکے کا یہ خلیل اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق آئندہ ظاہر ہوتا مگر اللہ تعالیٰ نے وہ غیب کا حال خضر (علیہ السلام) کو جتلا دیا اور انہوں نے اللہ کے حکم سے اس کو مار ڈالا حاصل کلام یہ ہے کہ شریعت اللہ کے حکم کا نام ہے خضر (علیہ السلام) کے حق میں اللہ کا وہی حکم شریعت کا حکم تھا جس کے موافق انہوں نے عمل کیا شریعت موسوی کے موافق موسیٰ (علیہ السلام) نے خضر (علیہ السلام) کے وہ کام شرعی ہوگئے ناقابل اعتراض سند سے نسائی میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ اس لڑکے کے مرجانے پر اس کی ماں کے پیٹ سے ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کو اللہ تعالیٰ نے ایک نبی کی ماں کردیا۔ حدیث فَاَرَدْنَآ اَنْ يُّبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِّنْهُ کی گویا تفسیر ہے۔ دیوار کے سیدھا کردینے کا سبب یہ بیان کیا کہ اس دیوار کے نیچے کا گڑا ہوا مال ان دونوں یتمیوں کو پہنچ جانا اللہ کو منظور تھا صحیح بخاری میں سہل ؓ بن سعد سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی دو انگلیوں کو ذرا فرق کر کے کھڑا کر کے فرمایا میں اور یتیم کے ساتھ شفقت سے پیش آنے والا شخص جنت میں ایسے قریب ہوں گے جس طرح یہ دونوں انگلیاں ہیں 4 ؎۔ اس حدیث کو آخری آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ یتیموں کے حال پر اللہ تعالیٰ کی ایک خاص نظر رحمت ہے جس کے سبب سے ان یتیموں کے ساتھ شفقت سے پیش آنے والے شخص کی یتیم اولاد کے مال کی حفاظت فرمائی۔ جس کا ذکر آیت میں ہے۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 687 ج 2 کتاب التفسیر۔ 2 ؎ ابن ماجہ ص 153 باب الاستثناء فی الیمین۔ 3 ؎ مشکوٰۃ ص 435 باب الظلم۔ 4 ؎ مشکوٰۃ ص 422 باب الشفقتہ والرحمۃ علی الخلق۔
Top