Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Baqara : 40
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ١ۚ وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
يَا بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ : اے اولاد یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تمہیں وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِعَهْدِیْ : میرا وعدہ أُوْفِ : میں پورا کروں گا بِعَهْدِكُمْ : تمہارا وعدہ وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَارْهَبُوْنِ : ڈرو
اے آل یعقوب ! میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کئے تھے اور اس اقرار کو پورا کرو جو تم نے مجھ سے کیا تھا میں اس اقرار کو پورا کروں گا جو میں نے تم سے کیا تھا اور مجھی سے ڈرتے رہو
(40 ۔ 41): اسرائیل حضرت یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم ( علیہ السلام) کا نام ہے۔ بنی اسرائیل اور یہود حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کی اولاد کو کہتے ہیں۔ اسرائیل کے معنی ہیں اللہ کا بندہ۔ ان آیتوں میں ان یہود کا ذکر ہے جو مدینہ کے اطراف میں رہتے تھے جن سے مدینہ کے منافق لوگ سازش رکھتے تھے۔ بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی تھے۔ انہوں نے بنی اسرائیل کو فرعون کی قید سے چھڑایا اور ملک شام میں ان کو آباد کیا۔ یہی ملک حضرت یعقوب کا وطن ہے جب حضرت یوسف مصر کو گئے تھے تو ان کے سبب سے اور اولاد یعقوب کا بھی مصر کو جانا ہوا تھا پھر حضرت یوسف کی وفات کے بعد یہ لوگ فرعون کی قید میں پھنس گئے۔ فرعون ان سے قیدیوں کی طرح ذلیل کام لیتا تھا۔ اور نہایت ذلت سے ان کو رکھتا۔ آخر حضرت موسیٰ کے عہد نبوت میں فرعون اور اس کا لشکر سب غرق ہو کر مرگئے اور بنی اسرائیل کو اس بلا سے نجات ہوئی۔ پھر حضرت موسیٰ پر تورات نازل ہوئی جس میں نبی آخر الزمان کی نشانیاں تھیں اور نبی آخر الزمان کی اطاعت کا عہد تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہود کو مخاطب ٹھہرا کر اپنی نعمتوں کے یاد دلانے کے بعد اسی عہد کا ذکر ان آیتوں میں کیا ہے۔ مکہ کے اطراف میں یہود نہیں تھے۔ اس لئے جو حصہ قرآن کا مکہ میں نازل ہوا ہے اس میں یہود کا ذکر نہیں ہے۔ ہجرت کے بعد یہ پہلا فرقہ یہود کا ہے جس کو قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے مخاطب ٹھہرایا ہے اس لئے ان کو پہلا کافر فرمایا ہے جس کا مطلب یہ ہے جس طرح ان کو قرآن پر ایمان لانے کو کہا گیا ہے ان کو اس پر ایمان لانا چاہیے کیونکہ اس قرآن کی تصدیق خود تورات میں موجود ہے اور اگر یہ لوگ قرآن کے منکر ہوئے تو ان کے دیکھا دیکھی ان کے بعد شامد کے ملک کے اور بھی یہود لوگ قرآن کے منکر ہوں گے اول کافر بھی کہلائیں گے کس لئے کہ جو لگ ان کے بعد منکر ہوں گے وہ ان کے ہی پیرو ہوں گے اور کعب بن اشراف وغیرہ علماء اور روسا یہود آنحضرت ﷺ کی نشانیاں جو تورات میں تھیں اذن کو اس لئے چھپاتے تھے کہ جاہل یہود لوگ جب آنحضرت ﷺ کو سچا نبی جان لیویں گے تو آپ کی طرف ان کا میلان طبع ہوجاوے گھا اور اس جاہل فرقہ یہود سے علمائے یہود کو جو کچھ منفعت دنیوی ہے وہ بند ہوجاوے گی۔ اسی تھوڑے سے لالچ کو اللہ تعالیٰ نے تورات کی آیتوں کا تھوڑا مول فرمایا ہے اور اس لالچ کے سبب سے جو وبال ان پر پڑجاوے گا اس سے اذن کو ڈرایا ہے۔ صحیحین میں ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تین شخص دنیا میں ایسے ہیں جن کو دوہرا اجر ملے گا۔ ایک اہل کتاب میں کا وہ شخص جس نے اپنے نبی اور کتاب کو بھی مانا اور قرآن کو اللہ کا کلام اور مجھ کو بھی اللہ کا رسول جانا۔ دوسرا وہ غلام جس نے اپنے آقا کو خوش رکھا اور اللہ تعالیٰ کا بھی حق ادا کیا۔ تیسرا وہ شخص جس نے اپنی لونڈی کو اچھی طرح تربیت کیا اور پھر اس کو آزاد کرکے اس سے نکاح کرلیا۔ 1۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہود تورات کے عہد پر قائم رہتے تو اللہ تعالیٰ دوہرے اجر کا اپنا عہد اذن سے پورا کرتا لیکن وہ اپنے عہد پر قائم نہیں رہے۔ اس واسطے وہ دین دنیا کی رسوائی میں پھنس گئے۔ دنیا میں اکثر ان میں جلا وطن کئے گئے اور کچھ قتل ہوگئے دین میں تو کھلا ٹھکانا ان کا دوزخ ہے۔
Top