Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anbiyaa : 22
لَوْ كَانَ فِیْهِمَاۤ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا١ۚ فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُوْنَ
لَوْ كَانَ : اگر ہوتے فِيْهِمَآ : ان دونوں میں اٰلِهَةٌ : اور معبود اِلَّا : سوائے اللّٰهُ : اللہ لَفَسَدَتَا : البتہ دونوں درہم برہم ہوجاتے فَسُبْحٰنَ : پس پاک ہے اللّٰهِ : اللہ رَبِّ : رب الْعَرْشِ : عرش عَمَّا : اس سے جو يَصِفُوْنَ : وہ بیان کرتے ہیں
اگر آسمان اور زمین میں خدا کے سوا اور معبود ہوتے تو (زمین و آسمان) درہم برہم ہوجاتے۔ جو باتیں یہ لوگ بتاتے ہیں خدائے مالک عرش ان سے پاک ہے
22۔ 24:۔ جن لوگوں نے عقلی بحث کے علم مثلا علم منطق اور علم مناظرہ بنائے ہیں انہوں نے یہ بات طیر دی ہے کہ کسی چیز میں بحث اس وقت تک ہوتی ہے جب تک وہ چیز معلوم نہ ہوجائے جب کوئی چیز معلوم ہوئی اور آنکھوں کے سامنے آگئی تو پھر اس میں بحث کی گنجائش کچھ باقی نہیں رہتی ‘ مثلا دو آدمیوں نے دور سے کہیں گرد اڑتی ہوئی دیکھی اور ایک نے کہا اس گرد میں ایک گھوڑے سوار آرہا ہے دوسرے نے کہا گھوڑے کا سوار نہیں بلکہ سانڈنی سوار ہے۔ جب تھوڑی دیر میں گھوڑے کا سوار آنکھوں کے سامنے آگیا تو بحث ختم ہوگئی ‘ اب آنکھوں کے سامنے کی چیز کو جھٹلا کر اگر کوئی شخص گھوڑے کے سوار کو سانڈنی سوار کہہ دے تو لوگ اس کو بیوقوف بتلا دیں گے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے شرک کے مٹ جانے اور توحید کے ثابت ہوجانے کی بحث کو اس آیت میں اس درجہ تک پہنچا دیا ہے کہ جو مشرک شرک کے رواج دینے میں عقلی بحث کرتے تھے ان کو بحث کی گنجائش نہیں رہی کیونکہ یہ آنکھوں سے دیکھ کر سینکڑوں ہزاروں تاریخ کی کتابیں ان ہی لڑائیوں کے ذکر میں لکھی ہیں اور حال کے لوگوں کے سامنے بھی وہ لڑائیاں بند نہیں ہیں اور ان لڑائیوں میں ایک غالب ایک مغلوب ہوتا رہتا ہے اور لڑائی کے زمانہ تک خونریزی اور طرح طرح کی بدنظمی اور فساد برپا ہوتے رہتے ہیں حکومت آسمانی کی ابتدائے دنیا سے اب تک ایک انتظام جو ہے وہی ہے ‘ حکومت دنیا کا سا حال اس کا نہیں کہ خلجیوں کا انتظام کچھ اور تھا اور تیموریوں کا کچھ اور اب کچھ اور ہی ہے ‘ اس سبب سے آنکھوں دیکھی باتوں سے یہ بات نکلی ‘ کہ آسمانی حکومت ایک ذات پاک کی قدرت اور اختیار میں ہے کہ جس کا نہ کوئی شریک ہے نہ مقابل ‘ اسی کا نام توحید ہے ‘ ترمذی ‘ مستدرک حاکم ‘ صحیح ابن خزیمہ ‘ بیہقی 1 ؎ وغیرہ میں ابی بن کعب وغیرہ سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہی ہے کہ یہود اور مشرکین نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ جس خدا کی تم عبادت کرتے ہو اس کے کچھ اوصاف بیان کرو ‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے قل ھو اللہ نازل فرمائی ‘ حافظ ابن خزیمہ اور حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ‘ اس سے معلوم ہوا کہ قل ھو اللہ کے مضمون کے موافق اللہ کو ذات اور صفات میں وحدہ ‘ لاشریک لہ ‘ جاننا یہی توحید ہے ‘ سوا اس کے اہل بدعت اور اہل تصوف نے توحید کے اور پیچیدہ معنی جو بیان کیے ہیں وہ شریعت سے ثابت نہیں ‘ آگے فرمایا ‘ کہ جب ان لوگوں کے تجربہ عقلی کے موافق اللہ کی وحدانیت اور اس کے ہاتھ میں تمام عالم کے انتظام کا ہونا ثابت ہوگیا تو یہ مشرک لوگ اللہ کی شان میں جو باتیں بناتے ہیں ان سے وہ پاک ذات بالکل پاک ہے اور اس کے کسی طرح کے انتظام میں جب کوئی شریک نہیں ہے تو اس کی تعظیم میں دوسروں کو شریک ٹھہرانا بڑے وبال کی بات ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم کے 1 ؎ حوالہ سے عبداللہ ؓ بن معسود کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ‘ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پید کیا اس واسطے خالص اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور عبادت انسان پر واجب ہے اس واجب کو چھوڑ کر اللہ کی تعظیم میں شریک ٹھہرانا ایسے بڑے وبال کی بات ہے کہ اس سے بڑھ کو دنیا میں کوئی جرم نہیں ‘ شرک کے وبال کا حال اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے پھر فرمایا ابتدائے دنیا سے اب تک تمام دنیا کا انتظام ایک وتیرہ پر اس طرح قائم ہے ‘ نہ کوئی دوسرا اللہ کے انتظام میں شریک ہے نہ اس سے کوئی پوچھنے والا کہ مثلا اتنی پچھلی قوموں کو اس نے طرح طرح کے عذابوں سے کیوں ہلاک کردیا ہاں اس کا حکم تمام مخلوقات پر جاری ہے اس واسطے تمام مخلوقات میں سے جو کوئی اس کے حکم کے برخلاف عمل کرے گا وہ ضرور اس کو پکڑے گا اور اس کی پکڑ کو کوئی ٹال نہیں سکتا ‘ فرعون جیسے صاحب لشکر بادشاہ کو اس نے ایک دم میں ڈبو کر ہلاک کردیا اور کوئی اس سے پوچھ نہ سکا ‘ پھر فرمایا کہ اس عقلی تجربہ کے طور پر سمجھانے کے بعد بھی کیا یہ لوگ شرک کو نہیں چھوڑتے تو اچھا یہ لوگ اپنے آپ کو ملت ابراہیمی پر بتلاتے ہیں اس واسطے اے رسول اللہ کے ان کو قائل کرنے کے لیے تم ان سے کہو کہ ملت ابراہیمی میں شرک کی کوئی سند ہو تو لاؤ اس کو پیش کرو ‘ ورنہ مجھ پر جو قرآن نازل فرمایا اس میں حال کے اور پچھلے لوگوں کا سب حال ہے ‘ مطلب یہ ہے کہ شرک کے وبال میں جس طرح پچھلی قومیں طرح طرح کے عذابوں میں ہلاک ہوچکی ہیں ‘ قرآن میں ان کے قصے جگہ جگہ اس بات کے جتلانے کے لیے بیان کردیئے گئے ہیں کہ حال کے لوگوں میں سے جو کوئی ان پچھلی قوموں کے قدم بقدم چلے گا ‘ اس کا انجام بھی وہی ہوگا جو ان پچھلی قوموں کا ہوا ‘ بدر کی لڑائی کے وقت اس وعدہ کا جو کچھ ظہور ہوا ‘ صحیح بخاری ومسلم کی انس بن مالک کی روایت کے حوالہ سے اس کا قصہ کئی جگہ گزر چکا ہے آخر کو فرمایا کہ یہ بات تو نہیں کہ ان کے پاس شرک کی کوئی سند ہو بلکہ بات فقط اتنی ہی ہے کہ ان میں کے جو لوگ اللہ کے علم غیب میں گمراہ ٹھہر چکے ہیں وہ حق بات کے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ حق بات کو مسخراپن میں ڈال دیتے ہیں۔ صحیح بخاری ومسلم کے 2 ؎ حوالہ سے حضرت علی ؓ کی حدیث اوپر گزرچکی ہے کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کون شخص دنیا میں دوزخیوں کے سے کام کر کے مرتے دم تک انہیں کاموں کو اچھا اور آسان سمجھتا رہے گا ‘ عقلی تجربہ اور ملت ابراہیمی کے حوالہ سے سمجھانے کے بعد بھی مشرکین مکہ میں کے جو لوگ مرتے دم تک شرک سے باز نہیں آئے ان کی گمراہی کا سبب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔ (1 ؎ فتح الباری ص 412 ج 4 تفسیر ” قل ھواللہ احد “ ) (1 ؎ مشکوٰۃ باب الکبائر و علامات النفاق ) (2 ؎ مشکوٰۃ باب القدر )
Top