Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anbiyaa : 68
قَالُوْا حَرِّقُوْهُ وَ انْصُرُوْۤا اٰلِهَتَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ
قَالُوْا : وہ کہنے لگے حَرِّقُوْهُ : تم اسے جلا ڈالو وَانْصُرُوْٓا : اور تم مدد کرو اٰلِهَتَكُمْ : اپنے معبودوں کو اِنْ : اگر كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ : تم ہو کرنے والے (کچھ کرنا ہے)
(تب وہ) کہنے لگے کہ اگر تمہیں (اس سے اپنے معبود کا انتقام لینا اور) کچھ کرنا ہے تو اس کو جلادو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو
68۔ 70:۔ جب عقلی حجت میں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے باپ نمردو اور نمرود کے ساتھ کے لوگ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) پر غالب نہ آسکے تو اس وقت ان سب لوگوں نے صلاح کر کے یہ بات نکالی کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو آگ میں ڈال دیں۔ اس قصہ کے وقت حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی عمر سولہ برس 2 ؎ تھی۔ تفسیر سدی 3 ؎ میں ہے کہ وہ لوگ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کرنے کو ایسا اچھا سمجھتے تھے کہ ایک عورت بھی ان لوگوں میں بیمار ہوتی تھی تو یہ نذر مانتی تھی کہ اگر وہ اچھی ہوجائے گی تو ایک گٹھا لکڑیوں کا اس انبار میں ڈلوا دے گی۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت 1 ؎ ہے کہ جب یہ لوگ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو آگ میں ڈالنے کا قصد کر رہے تھے تو جو فرشتہ مینہ برسانے پر تعینات ہے اس کو گمان تھا کہ اللہ کا حکم اسی فرشتہ کو اس آگ کو بجھانے کا ہوگا لیکن اللہ کا حکم کسی ذریعہ کا محتاج نہیں ‘ اللہ تعالیٰ کے حکم سے خود آگ نے پانی کا کام دیا کیونکہ جس طرح پانی سے باغ سرسبز ہوتا ہے اسی طرح آگ سے گلزار قائم ہوگیا اور تمام روئے زمین کی آگ اس روز بجھ گئی اور اگر اللہ تعالیٰ اس طرح آگ کے ٹھنڈے ہونے کا حکم دیتا ‘ جس میں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی صحت وسلامتی کے باقی رہنے کا ذکر نہ ہوتا تو بلاشک اس روز حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو آگ کی ٹھنڈک سے تکلیف اٹھانی پڑتی ‘ تفسیر ابن ابی حاتم میں روایت 2 ؎ ہے کہ چالیس روز تک حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) اس آگ میں رہے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) فرمایا کرتے تھے کہ ان دنوں سے زیادہ آرام کے دن میں نے اپنی عمر میں نہیں دیکھے ‘ نمرود نے ایک اونچا محل اس آگ کا تماشہ دیکھنے کو بنایا تھا۔ جب نمرود نے دیکھا کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) صحیح وسالم اس آگ میں بیٹھے ہیں تو اس نے چلا کر حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) سے کہا کہ ابراہیم ( علیہ السلام) بیشک تمہارا خدا بڑا قدرت والا ہے جس نے تم کو آگ میں جلنے نہیں دیا ‘ میں بھی تمہارے خدا کے نام کی قربانی کروں گا۔ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے جواب دیا کہ جب تو بت پرستی چھوڑے گا ‘ اس وقت تیری قربانی قبول ہوگی ‘ نمرود نے کہا یہ تو مجھ سے نہ ہو سکے گا ‘ اسی طرح آزر اور اور لوگ بھی یہ حال دیکھ کر خدا کی قدرت کے قائل ہوئے مگر ایمان نہ لائے۔ اوپر بیان ہوچکا ہے ‘ کہ اس قصہ کے بعد حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) ملک شام کو چلے گئے ‘ بخاری ومسلم میں ام شریک ؓ سے روایت 3 ؎ ہے کہ روئے زمین پر جس قدر جانور ہیں سب نے اپنے مقدور کے موافق حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی آگ بجھانے کی کوشش کی مگر گرگٹ اس ارادہ سے پھونکیں مارتا تھا کہ وہ آگ اور بھڑک جاوے ‘ اس واسطے آنحضرت ﷺ نے گرگٹ کے مارنے کا حکم دیا۔ حضرت عائشہ ؓ نے ایک برچھی اپنے گھر میں اس غرض سے رکھی تھی کہ اس برچھی سے وہ گرگٹ کو مارا کرتی تھیں ‘ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے بخاری میں یہ بھی روایت 4 ؎ ہے کہ جس وقت حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو آگ میں ڈالا تو حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ پڑھ رہے تھے اور جنگ احد سے واپس ہونے اور پھر دوبارہ لڑائی کے ارادہ سے مدینہ منورہ سے نکلنے کے وقت اللہ کے رسول ﷺ کو لوگوں نے جب مشرکین کی بڑی بھاری فوج کے اکٹھے ہونے کی خبر دی تو آپ نے بھی یہی کلمے پڑھے تھے حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ نمرود اور اس کے ساتھیوں نے مشورہ کر کے یہ بات قراردی کہ اگر اپنے ٹھاکروں کا بدلہ لینا منظور ہے تو ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں جلا دیا جائے یہاں اس قصہ کو مختصر طور پر فرمایا ہے۔ سورة والصافات میں ذکر ہے کہ ان لوگوں نے ایک چنار دیواری کے اندر آگ جلائی اور ابراہیم (علیہ السلام) کو اس میں ڈالا ‘ آگے فرمایا اللہ کے حکم سے وہ آگ ٹھنڈی ہوگئی ‘ اور اللہ کے رسول ابراہیم (علیہ السلام) کو اس آگ سے کچھ نقصان نہیں پہنچا ‘ بلکہ ان لوگوں کا ایندھن کا خرچ آگ جلانے کی محنت سب کچھ رائیگاں گیا جس سے یہ لوگ نقصان میں رہے علاوہ اس نقصان کے پہلے پانچ ہزار گز کی اونچی عمارت کے گر پڑنے سے اور پھر مچھروں کے عذاب سے نمرود اور اس کا لشکر جو ہلاک ہوا ‘ یہ نقصان بھی ان لوگوں کو پہنچا ‘ تفسیر مقاتل تفسیر عبدالرزاق اور تفسیر ابن ابی حاتم کی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور زید بن اسلم کی روایتوں کے حوالہ سے یہ قصہ سورة الخل میں گزرچکا ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ جب تک چاہتا ہے نافرمان لوگوں کو مہلت دیتا ہے اور جب مہلت کے زمانہ میں وہ لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہیں آتے تو ان کو کسی سخت عذاب میں پکڑ لیتا ہے ‘ اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ چار سو برس تک اللہ تعالیٰ نے نمرود کو مہلت دی لیکن جب وہ اتنی مہلت میں اپنی سرکشی سے باز نہ آیا تو مع اپنے لشکر کے بڑی ذلت سے ہلاک ہوگیا۔ اس قصہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی مخالفت کا انجام قریش کو سمجھایا تھا لیکن بارہ تیرہ برس کی مہلت میں جب ان میں کے سرکش لوگ اللہ کے رسول ﷺ کی مخالفت سے باز نہ آئے تو یہی انجام ان کا ہوا کہ بدر کی لڑائی میں یہ لوگ بڑی ذلت سے مارے گئے اور مرتے ہی عذاب آخرت میں گرفتار ہوئے جس کا قصہ صحیح بخاری ومسلم کی انس بن مالک کی روایت سے کئی جگہ گزر چکا ہے۔ (2 ؎ الدرالمنثور ص 323 ج 2 ) (3 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 183 ج 3۔ ) (1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 184 ج 3 ) (2 ؎ ایضا ) (3 ؎ مشکوٰۃ ص 361 باب مایحل 2 کلہ وما یحرم و تفسیر ابن کثیرص 184 ج 3۔ ) (4 ؎ صحیح بخاری ص 655 ج 2 کتاب التفسیر۔ )
Top