Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hajj : 15
مَنْ كَانَ یَظُنُّ اَنْ لَّنْ یَّنْصُرَهُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَى السَّمَآءِ ثُمَّ لْیَقْطَعْ فَلْیَنْظُرْ هَلْ یُذْهِبَنَّ كَیْدُهٗ مَا یَغِیْظُ
مَنْ : جو كَانَ يَظُنُّ : گمان کرتا ہے اَنْ : کہ لَّنْ يَّنْصُرَهُ : ہرگز اس کی مدد نہ کریگا اللّٰهُ : اللہ فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت فَلْيَمْدُدْ : تو اسے چاہیے کہ تانے بِسَبَبٍ : ایک رسی اِلَى السَّمَآءِ : آسمان کی طرف ثُمَّ : پھر لْيَقْطَعْ : اسے کاٹ ڈالے فَلْيَنْظُرْ : پھر دیکھے هَلْ : کیا يُذْهِبَنَّ : دور کردیتی ہے كَيْدُهٗ : اس کی تدبیر مَا يَغِيْظُ : جو غصہ دلا رہی ہے
جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ خدا اس کو دنیا اور آخرت میں مدد نہیں دے گا تو اس کو چاہیے کہ اوپر کی طرف (یعنی اپنے گھر کی چھت میں) ایک رسی باندھے پھر (اس سے اپنا) گلا گھونٹ لے پھر دیکھے کہ آیا یہ تدبیر اس کے غصے کو دور کردیتی ہے
15۔ 16۔ اوپر ذکر تھا کہ بعضے لوگ دنیا کی خوشحالی کی امید پر اسلام میں داخل ہوتے ہیں اور جب ان کی امید پوری نہیں ہوتی تو اس غصہ سے وہ لوگ اسلام کے دائرہ سے نکل جاتے ہیں کہ اسلام لانے والوں سے دین ودنیا کی بہبودی کا جو وعدہ اللہ کے رسول کرتے اور اس کو اللہ کا وعدہ بتلاتے ہیں ہمارے اسلام لانے کے بعد اس وعدہ کا ظہور جلدی کیوں نہیں ہوا اور جب اس وعدہ کا ظہور جلدی نہیں ہوا تو ہمارے دل میں یہ خیال جم گیا ہے کہ جو وعدہ یہ رسول اللہ لوگوں سے کرتے ہیں ‘ سرے سے وہ اللہ کا وعدہ ہی نہیں ہے ان رسول کا جو جی چاہتا ہے ‘ یہ اپنی طرف سے کہہ دیتے ہیں ان لوگوں کی خیالی باتوں کا جو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انتظام میں ہر کام کا وقت مقرر ہے ‘ اس لیے جس طرح یہ لوگ اگر رسی گلے میں ڈالیں اور اپنا گلا گھونٹ کر مرجاویں تو نہ بےوقت ان کو کچھ خوشحالی حاصل ہوسکتی ہے ‘ نہ ان کا وہ بےجا غصہ رفع ہوسکتا ہے ‘ اسی طرح وقت مقررہ سے پہلے کچھ نہیں ہوسکتا ‘ ہاں وقت مقررہ پر اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی دین و دنیا میں ضرور مدد کرتا ہے جس کا نتیجہ ان کی آنکھوں کے سامنے آجائے گا ‘ اس وعدہ کے ظہور کا ذکر سورة التوبہ میں گزر چکا ہے کہ جب وقت مقررہ میں مدد الٰہی کا نتیجہ ان دیہاتی لوگوں نے دیکھ لیا تو ان میں کے بہت لوگ پکے مسلمان بن گئے آگے فرمایا کہ جس طرح ایسے لوگوں کے خیال کو جھٹلائے گئے ہیں ‘ لیکن دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق جو گمراہ اور دوزخی ٹھہر چکے ہیں وہ خود تو راہ راست پر نہیں آسکتے اور اللہ تعالیٰ مجبور کر کے ان کو راہ راست پر لانا نہیں چاہتا کیونکہ دنیا انتظام الٰہی کے موافق نیک وبد کی آزمائش کے لیے پیدا کی گئی ہے کسی کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے وہ سب لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے سورة یونس کی آیتوں اور عبداللہ بن عمرو بن العاص کی حدیث کو ان آیتوں کے ساتھ ملانے سے وہی مطلب ہوا جو اوپر بیان کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق جہاں اور سب کچھ لوح محفوظ میں لکھا گیا ہے وہاں یہ بھی ہے کہ ان مشرکوں میں سے کچھ لوگ خود تو راہ راست پر نہیں آسکتے اور ان کو مجبور کر کے راہ راست پر لانا انتظام الٰہی کے برخلاف ہے ثم الیقطع کی تفسیر عبداللہ بن عباس ؓ نے ثم لتخنق کی فرمائی 1 ؎ ہے ‘ اختناق کے معنی گلے میں پھانسی لگالینے کے ہیں ‘ حاصل مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص اپنے گلے میں پھانسی ڈال کر جائے جب بھی انتظام الٰہی پلٹ نہیں سکتا ‘ پھانسی کو قطع اس لیے کہتے ہیں کہ جس طرح گردن کے قطع کردینے اور کاٹ ڈالنے سے آدمی مرجاتا ہے اسی طرح پھانسی گلے میں لگادینے سے سانس رک کر آدمی مرجاتا ہے۔ (1 ؎ تفسیر ابن کیثر ص 210 ج 3 )
Top