Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Muminoon : 50
وَ جَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَ اُمَّهٗۤ اٰیَةً وَّ اٰوَیْنٰهُمَاۤ اِلٰى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیْنٍ۠   ۧ
وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا ابْنَ مَرْيَمَ : مریم کے بیٹے (عیسی) کو وَاُمَّهٗٓ : اور ان کی ماں اٰيَةً : ایک نشانی وَّاٰوَيْنٰهُمَآ : اور ہم نے انہیں ٹھکانہ دیا اِلٰى : طرف رَبْوَةٍ : ایک بلند ٹیلہ ذَاتِ قَرَارٍ : ٹھہرنے کا مقام وَّمَعِيْنٍ : اور جاری پانی
اور مریم کے بیٹے (عیسی) اور ان کی ماں کو (اپنی) نشانی بنایا تھا اور ان کو ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور جہاں (نتھرا ہوا) پانی جاری تھا پناہ دی تھی
50:۔ اوپر ذکر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر توراۃ بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے نازل فرمائی ‘ ان آیتوں میں عیسیٰ (علیہ السلام) اور مریم علیہا 1 ؎ السلام کا ذکر فرما کر یہ جتلایا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد یہود نے تورات کی ہدایت سے فائدہ نہیں اٹھایا کیونکہ تورات کی جن آیتوں میں عیسیٰ (علیہ السلام) اور خاتم الانبیاء ﷺ کے اوصاف تھے ‘ ان آیتوں میں انہوں نے رد وبدل کردیا جس سے شریعت عیسوی اور شریعت محمدی دو شریعتوں کے یہ لوگ منکر بن گئے ‘ حضرت مریم جیسی پاکدامن بی بی کو بدکاری کا الزام لگایا۔ دمشق کے ستارہ پرست بادشاہ کے دربار میں غلط مخبری کر کے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی کے قابل ٹھہرایا چناچہ یہ سب قصہ سورة النسآء کی تفسیر میں گزر چکا ہے ‘ سورة المائدہ اور سورة الاعراف میں اس عہد کا ذکر بھی گزر چکا ہے جو یہود سے توراۃ پر قائم رہنے کے باب میں لیا گیا تھا توراۃ کی آیتوں کے بدل ڈالنے کے سبب سے یہود اس عہد پر قائم نہیں رہے اس لیے ان کو توراۃ کا پابند بھی نہیں کہا جاسکتا ‘ حاصل مطلب یہ ہے کہ بغیر کسی مرد کے چھونے کے حضرت مریم کو حمل کا رہ جانا اور پھر اس خلاف عادت حمل سے عیسیٰ (علیہ السلام) کا پیدا ہونا یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایک ایسی ہی نشانی ہے جس طرح اس نے آدم (علیہ السلام) کو بغیر ماں باپ کے اپنی قدرت سے پیدا کیا جو لوگ اس قدرت کے منکر ہیں وہ اس کی سزا بھگتیں گے ‘ سورة مریم میں گزر چکا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت حضرت مریم ؓ بیت المقدس سے دور ایک اونچے ٹیلے پر چلی گئی تھیں جس ٹیلے کے نیچے کھڑے ہو کر جبرئیل (علیہ السلام) نے مریم (علیہا السلام) کی تسکین کی تھی اور وہیں اللہ کے حکم سے پانی کی نہر بھی جاری ہوئی تھی۔ آخری آیت میں اسی اونچے ٹیلے کو ٹیلہ اور ستھرے پانی کی جگہ فرمایا ‘ اگرچہ بعضے مفسروں نے ربوہ کی تفسیر اس ٹیلہ پر کے گاؤں کو بھی قرار دیا ہے جس کا ذکر شاہ صاحب نے اپنے فائدہ میں کیا ہے لیکن حافظ ابن کثیر (رح) نے اسی تفسیر کو قوی ٹھہرایا ہے جس کا ذکر اوپر گزرا اور اپنی تفسیر میں یہ لکھا ہے کہ یہی تفسیر سورة مریم کی آیتوں کے موافق ہے حافظ ابن کثیر (رح) کی یہ تفسیر حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ضحاک اور قتادہ کے قول کے موافق ہے صحیح مسلم ‘ ترمذی اور نسائی میں زید بن ارقم سے روایت 3 ؎ ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ ایسے علم سے اللہ کی پناہ کی دعا کیا کرتے تھے جس علم سے آدمی کو دین کا کچھ فائدہ نہ پہنچے ‘ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنے کے قابل اسی طرح کا علم ہے جس طرح سے تورات کا علم یہود میں ہے کہ انہوں نے بجائے دین کے فائدہ کے اس علم سے الٹا دین کا اور نقصان کمایا ‘ شریعت محمدی کا علم جن علمائے اسلام کے حق میں اسی حالت کو پہنچ گیا ہو ‘ ان کو اپنی حالت پر ذرا غور کرنا چاہیے۔ (1 ؎ حضرت مریم صحابیہ قرار پاتی ہیں لہٰذا ؓ کہنا چاہیے (ع ‘ ح ) (3 ؎ مشکوٰۃ باب الاستعاذۃ۔ )
Top