Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Muminoon : 62
وَ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا وَ لَدَیْنَا كِتٰبٌ یَّنْطِقُ بِالْحَقِّ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
وَلَا نُكَلِّفُ : اور ہم تکلیف نہیں دیتے نَفْسًا : کسی کو اِلَّا : مگر وُسْعَهَا : اس کی طاقت کے مطابق وَلَدَيْنَا : اور ہمارے پاس كِتٰبٌ : ایک کتاب (رجسٹر) يَّنْطِقُ : وہ بتلاتا ہے بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک وَهُمْ : اور وہ (ان) لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے (ظلم نہ ہوگا)
اور ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور ہمارے پاس کتاب ہے جو سچ سچ کہہ دیتی ہے اور لوگوں پر ظلم نہیں کیا جائے گا
62:۔ اوپر ان نیک لوگوں کا ذکر تھا جو نیک کاموں میں پیش قدمی کرتے ہیں ‘ اس آیت میں فرمایا ‘ اس پیش قدمی میں یہ تائید غیبی بھی ہے کہ شریعت کا کوئی کام اللہ تعالیٰ نے انسان کی طاقت سے باہر نہیں رکھا مثلا جو بیمار آدمی نماز میں کھڑا نہ ہو سکے تو اس کو بیٹھ کر نماز جائز ہے ‘ اسی طرح مسافر یا بیمار آدمی وقت پر روزے نہ رکھے ‘ تو کچھ گناہ نہیں ‘ پھر فرمایا ہر شخص کے ہر طرح کے عمل پہلے لوح محفوظ میں اور پھر نامہ اعمال میں لکھے گئے ہیں جس سے ہر شخص کو اپنے عملوں کا سچا سچا حال سزاو جزا کے وقت معلوم ہوجاوے گا اور سزاو جزاء کے وقت کسی پر یہ ظلم نہ ہوگا کہ نیک کا اجر گھٹا دیا جاوے یا جرم کی حیثیت سے سزا کی مقدار بڑھا دی جاوے ‘ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ جو شخص اپنے نامہ اعمال میں کے لکھے ہوئے گناہوں کا انکار کرے گا تو اس کے ہاتھ پاؤں اعمال نامہ کی صداقت بطور گواہی کے بیان کریں گے ‘ صحیح مسلم ‘ ترمذی وغیرہ کے حوالہ سے ابوذر ؓ کی یہ حدیث بھی کئی جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم اپنی ذات پاک پر حرام ٹھہرا لیا ہے۔ اعمالنامہ میں سچا سچا حال لکھے جانے کا اور سزا وجزا کے وقت کسی پر کچھ ظلم نہ ہونے کا مطلب ان حدیثوں سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اعمال نامہ میں ایسا سچا حال لکھا جاتا ہے جس کی صداقت کو گواہی کے لیے آدمی کے ہاتھ پاؤں تیار ہوجاویں گے اور سزا وجزا کے وقت کسی پر کوئی ظلم اس سبب سے نہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم اپنی ذات پاک پر حرام ٹھہرا لیا ہے۔
Top