Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Muminoon : 63
بَلْ قُلُوْبُهُمْ فِیْ غَمْرَةٍ مِّنْ هٰذَا وَ لَهُمْ اَعْمَالٌ مِّنْ دُوْنِ ذٰلِكَ هُمْ لَهَا عٰمِلُوْنَ
بَلْ : بلکہ قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل فِيْ غَمْرَةٍ : غفلت میں مِّنْ ھٰذَا : اس سے وَلَهُمْ : اور ان کے اَعْمَالٌ : اعمال (جمع) مِّنْ دُوْنِ : علاوہ ذٰلِكَ : اس هُمْ لَهَا : وہ انہیں عٰمِلُوْنَ : کرتے رہتے ہیں
مگر ان کے دل ان (باتوں) کی طرف سے غفلت میں (پڑے ہوئے) ہیں اور اسکے سوا اور اعمال بھی ہیں جو یہ کرتے رہتے ہیں
63۔ 67:۔ اوپر کی آیتوں میں ان کا ذکر تھا ‘ جو اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں نیک قرار پاچکے ہیں ‘ ان آیتوں میں ان بدلوگوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جو علم ازلی الٰہی میں بد قرار پاچکے ہیں اور ہر وقت دین کے کاموں کی طرف سے ان کے دل غافل ہیں ‘ ان آیتوں کی تفسیر بہت سی صحیح حدیثوں میں آئی ہے چناچہ صحیح بخاری میں جو روایتیں ہیں ‘ ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جس وقت فرمایا دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جنتی ہر شخص کا نام اہل جنت میں اور دوزخی ہر شخص کا نام اہل دوزخ میں لکھ لیا ہے تو یہ بات سن کر صحابہ ؓ نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ حضرت پھر نیک عمل کی کیا ضرورت ہے ہم لوگ اپنی تقدیر پر شاکر ہو نہ بیٹھ جائیں اور یقین کرلیں کہ اگر اللہ کے علم میں ہم جنتی ہوں گے تو آخر جنت میں جاویں گے آپ نے فرمایا نہیں یہ نہیں ہوسکتا بلکہ ہر شخص کا جو انجام علم الٰہی میں قرار پا چکا ہے دنیا میں وہ شخص اسی طرح کے کام بھی کرتا ہے حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں جو شخص جس طرح کا قرار پایا ہے وہ ایک غیب کی بات ہے اس کو سوائے اللہ کے اور کوئی نہیں جانتا اور جزا وسزا کا مدار بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے علم غیب کا قرار دیا ہے جس طرح رزق ہر ایک شخص کا یا موت یا بیماری ہر شخص کی خدا کی طرف سے ہے مگر عالم اسباب میں اس کے سبب اور حیلے خدا نے ٹھہرا دیئے ہیں اسی طرح دنیا کے نیک و بدعمل کو اللہ نے سبب ٹھہرایا ہے اس سبب کو چھوڑ کر تقدیر پر شاکر ہونا ایسا ہی ہے جیسے کوئی بےحیلہ کے دنیا میں مثلا رزق چاہے ‘ اب اس نیک وبد کی پہچان کا موقع آدمی کی آخری عمر تک ہے ‘ اسی واسطے شریعت میں خاتمہ کا بڑا اعتبار ہے ‘ چناچہ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ 2 ؎ سے اور ترمذی وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے 3 ؎ اور مسند امام احمد بن حنبل اور صحیح ابن حبان میں حضرت انس ؓ سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ کسی شخص کو نیک عمل کرتے ہوئے دیکھ کر کوئی بات منہ سے نہیں نکالنی چاہیے ‘ جب تک خاتمہ اچھا نظر نہ آوے کیونکہ بہت سے لوگ عمر بھر اچھے کام کرتے رہتے ہیں اور آخری عمر میں بگڑ کر برے کاموں میں لگ جاتے ہیں اور برے کاموں پر ان کا خاتمہ ہو کر دوزخ کے مستحق ٹھہر جاتے ہیں اور بہت سے لوگ عمر بھر برے کام کرتے ہیں اور آخر عمر میں نیک راستہ سے لگ جاتے ہیں اور نیکی پر ان کا خاتمہ ہوتا ہے اور جنتی بن جاتے ہیں اوپر یہ بیان ہوچکا ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ اندازہ فرمایا ہے کہ اگر دنیا پیدا کی جاوے اور ہر شخص کو اس کے فعل کا فعل مختار کیا جاوے تو کون اچھا عمل کرے گا اور کون برا اور اسی اندازہ کو لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے اسی کا نام تقدیر ہے دنیا میں نیک وبد فعل ہونے کے بغیر نہ اس تقدیر کے لکھے پر کچھ سزا جزا ہے ‘ نہ تقدیر کے لکھتے وقت اللہ تعالیٰ نے کسی کو کسی کام پر مجبور کیا ہے۔ جو لوگ حشر کے منکر ہیں ان کا بڑا شبہ یہ ہے کہ جب وہ مرجاویں گے اور ان کی ہڈیاں تک خاک ہوجاویں گی اور وہ خاک کچھ ہوا میں اڑ جاوے گی اور کچھ پانی کے ریلوں میں بہہ جاوے گی تو پھر وہ رواں دواں خاک کیونکر جمع ہوجاوے گی جس کا پتلا بنے گا ‘ سورة قٓ میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے شبہ کا یہ جواب دیا ہے کہ ان منکرین حشر کے پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم غیب کے موافق لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ ان لوگوں کی خاک ہوا میں اڑ کر یا پانی میں بہہ کر کہاں جاوے گی اسی پتہ سے ان کی خاک جمع کرلی جاوے گی کیونکہ جنگل دریا کوئی چیز اس کے علم غیب اور حکم سے باہر نہیں ہے صحیح بخاری اور مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ایک شخص بڑا گنہگار تھا اس نے اپنے مرجانے کے بعد اس کی لاش کو جلا کر آدھی خاک کو ہوا میں اڑا دینے اور آدھی کو دریا میں بہا دینے کی وصیت کی اور اس کے وارثوں نے وصیت کے موافق عمل بھی کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے جنگل اور دریا کو اس کی خاک کے حاضر کرنے کا حکم دیا جس سے وہ خاک حاضر ہوگئی ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے اس خاک کا پتلا بنایا اور اس میں دوبارہ روح پھونکی جس کے سبب سے وہ شخص دوبارہ زندہ ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اس وصیت کا سبب اس سے پوچھا ‘ اس شخص نے جواب دیا اللہ تم کو خوب معلوم ہے کہ یہ کام میں نے تیرے سامنے کھڑے ہونے سے ڈر کر کیا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی مغفرت فرمادی ‘ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ جس طرح جنگل اور دریا میں سے اس شخص کی خاک حاضر ہوگئی اسی طرح منکرین حشر کی خاک جہاں ہوگی وہاں سے حاضر ہوجاوے گی۔ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ شرک کے وبال میں ان لوگوں سے بڑھ کر خوش حال پچھلی قومیں جب طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک ہوگئیں جن کے قصے کئی دفعہ ان لوگوں کو سنا دیئے گئے تو ان مشرکوں کا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ ان کے مال اور اولاد کی ترقی اس سبب سے ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی اور خوش ہے بلکہ ان لوگوں کے اس غلط خیال پر جمے رہنے کا سبب یہی ہے کہ یہ لوگ قرآن کی نصیحت کو دھیان سے نہیں سنتے اور نیک لوگوں کے جو کام ان کو اوپر کی آیتوں میں بتلائے گئے ہیں ‘ رات دن ان کاموں کے برخلاف کام کرتے ہیں لیکن ان میں کے بڑے بڑے خوشحال وقت مقررہ پر جب عذاب آخرت میں گرفتار ہوجاویں گے تو عذاب کی تکلیف سے بہت چلاویں گے جن پر ان کو ذلیل کرنے کے لیے یہ کہا جاوے گا کہ آج تمہاری فریاد سن کر کوئی تمہاری مدد نہیں کرسکتا اور یہ بھی کہا جاوے گا کہ یہ عذاب تمہاری اسی شرارت کی سزا ہے کہ تم قرآن کی نصیحت کو سن کر الٹے قدموں بھاگتے تھے اور کعبہ کے خادم ہونے کی بڑائی جتلا کر اپنے گھروں میں راتوں کو قصے کہانیوں کی طرح قرآن اور اللہ کے رسول کی مذمت کیا کرتے تھے تَھْجُرُوْنَ کے معنی بےہودہ بکواس کے ہیں۔ (2 ؎ صحیح مسلم ص 224 ج 3 کتاب القدر ) (3 ؎ تنقیح الرواۃ ص 26 باب الایمان بالقدر )
Top