Ahsan-ut-Tafaseer - An-Noor : 6
وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ وَ لَمْ یَكُنْ لَّهُمْ شُهَدَآءُ اِلَّاۤ اَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِمْ اَرْبَعُ شَهٰدٰتٍۭ بِاللّٰهِ١ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يَرْمُوْنَ : تہمت لگائیں اَزْوَاجَهُمْ : اپنی بیویاں وَلَمْ يَكُنْ : اور نہ ہوں لَّهُمْ : ان کے شُهَدَآءُ : گواہ اِلَّآ : سوا اَنْفُسُهُمْ : ان کی جانیں (خود) فَشَهَادَةُ : پس گواہی اَحَدِهِمْ : ان میں سے ایک اَرْبَعُ : چار شَهٰدٰتٍ : گواہیاں بِاللّٰهِ : اللہ کی قسم اِنَّهٗ لَمِنَ : کہ وہ بیشک سے الصّٰدِقِيْنَ : سچ بولنے والے
اور جو لوگ اپنی عورتوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور خود ان کے سوا ان کے گواہ نہ ہوں تو ہر ایک کی شہادت یہ ہے کہ پہلے تو چار بار خدا کی قسم کھائے کہ بیشک وہ سچا ہے
6۔ 10:۔ اس آیت کی شان نزول میں علمائے مفسرین نے بڑا اختلاف کیا ہے بعضے کہتے ہیں کہ ہلال بن امیہ ؓ ایک صحابی تھے ‘ ان کا قصہ اس آیت کا شان نزول ہے ‘ رفع اس اختلاف کا وہی ہے ‘ جو حافظ ابن حجر نے فتح الباری شرح صحیح بخاری 3 ؎ میں بیان کیا ہے کہ دونوں قصے صحیح روایتوں میں ہیں اور ایک ہی زمانہ میں گزرے ہیں ‘ اس واسطے دونوں قصوں کو شان نزول کہنا چاہیے ‘ کیونکہ قرآن شریعت میں ایسی آیتیں بہت ہیں کہ کئی قصے ایک قسم کے گزرنے کے بعد وہ آیتیں نازل ہوئی ہیں اور ان چند قصوں کا مجموعہ ان کی شان نزول ہے ‘ ہلال بن امیہ کا قصہ صحیح بخاری میں عکرمہ کی سند سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے جو روایت کیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے روبرو ہلال بن امیہ نے اپنی بی بی کی بدکاری کی شکایت کی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس شکایت کے ثبوت میں تم کو چار گواہی پیش کرنے پڑیں گے ورنہ تمہاری پیٹھ پر جھوٹی تہمت کے جرم میں اسی کوڑے پڑیں گے ‘ ہلال میں امیہ نے کہا کہ ایسے موقع پر گواہ کہاں پیدا ہوسکتے ہیں۔ مجھ کو اللہ کی ذات سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی حکم نازل فرما کر میرے سچ کو سب پر ظاہر کردے گا اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور عیومر عجلانی کا قصہ صحیحین 5 ؎ میں سہل بن سعد کی روایت سے ہے حاصل اس کا یہ ہے کہ عویمرنے ایک صحابی عاصم ؓ سے کہا کہ تم آنحضرت ﷺ سے یہ مسئلہ پوچھو کہ کوئی شخص اپنی بی بی کے پاس غیر مرد کو دیکھے اور اس کو مار ڈالے تو کیا وہ قصاص میں قتل کیا جاوے گا ‘ عاصم ؓ نے آنحضرت ﷺ سے وہ مسئلہ پوچھا لیکن آپ ﷺ نے کچھ جواب نہ دیا ‘ عویمر ؓ نے جب عاصم ؓ کی معرفت اپنے مسئلہ کا جواب نہ پایا تو خود آن کر آنحضرت ﷺ سے وہ مسئلہ پوچھا ‘ اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کے حق میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائی ہیں ‘ حافظ ابن حجر (رح) نے ان دونوں قصوں کے ذکر کرنے کے بعد کہا 1 ؎ ہے کہ عاصم ؓ کے آنحضرت ﷺ کے پاس آنے کے وقت تک کوئی حکم اس باب میں نازل نہیں ہوا تھا اسی واسطے آپ ﷺ نے عاصم ؓ کے جواب میں سکوت فرمایا اتنے میں ہلال ؓ بن امیہ کا قصہ پیش آیا اور اسی پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس عرصہ میں خود عویمر اپنی ذات سے مسئلہ پوچھنے آئے اس لیے ہلال بن امیہ اور عویمر ؓ دونوں کے قصوں کی روایت میں آیتوں کے نازل ہونے کا ذکر ہے اور دونوں قصوں کو شان نزول کہنا مناسب حال ہے بعضے علماء نے جو یہ شبہ پیدا کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت کے لفظ پریشان ہیں کہیں ہلال بن امیہ کے قصہ کا ذکر ہے ‘ کہیں عویمر ؓ کے قصہ کا ‘ اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے دونوں قصوں کو بیان کیا ہے ایک روایت عکرمہ کی سند سے ہے جس کو امام بخاری نے کتاب التفسیر میں روایت کیا ہے ‘ اس سند میں ہلال بن امیہ کے قصہ کا ذکر ہے دوسری روایت قاسم بن محمد کی سند سے ہے جس کو امام بخاری (رح) نے بغیر گواہی کے سنگسار نہ کرنے کے باب میں روایت کیا 2 ؎ ہے دونوں سندوں کو ایک خیال کرنے سے شبہ پیدا ہوتا ہے ورنہ حقیقت میں کوئی شہ نہیں۔ مسئلہ لعان : اس مسئلہ کو جس کا ذکر آیتوں میں ہے ‘ لعان کا مسئلہ کہتے ہیں کیونکہ اس مسئلہ میں خاوند اور بی بی دونوں اپنے اپنے سچے ہونے کے لیے جھوٹے پر لعنت کرتے ہیں ‘ اب اس لعان کے حکم میں علماء کا اختلاف ہے ‘ امام مالک اور شافعی کے نزدیک فقط لعان سے طلاق ہوجاتی ہے اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک لعان کے بعد حاکم کے طلاق دلوانے کی ضرورت ہے اور امام احمد سے اس باب میں دونوں طرح روایتیں ہیں ‘ تفصیل اس کی فقہ کی کتابوں 3 ؎ میں ہے ‘ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ جب میاں اپنی بی بی کے پاس غیر شخص کو دیکھتا ہے تو ایسی حالت میں اور کوئی نہیں ہوتا ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مرد کے لعان کو عورت کی بدکاری کی شہادت قرار دیا ہے تاکہ مرد کے ذمہ سے زبردستی کی بدکاری کے الزام کی سزا اٹھ جاوے ‘ مرد کی اس گواہی کے بعد عورت کو سنگساری کی سزا دی جاوے گی لیکن اگر وہ اس سزا کو اپنے ذمہ سے ساقط کرنا چاہے تو لعان کی وہ صورت اختیار کرے جس کا ذکر آیتوں میں ہے ‘ آخر کو فرمایا یہ اللہ کا فضل اور اس کی حکمت ہے کہ اس نے لعان کا حکم نازل فرما کر میاں بی بی دونوں کو بدکاری کے الزام کی سزا سے بچا دیا اور بدکاری کے چرچا پر کوئی عذاب نہیں بھیجا اور ان دونوں لعان والوں میں جو جھوٹا ہے اس کو توبہ کی رغبت بھی دلائی۔ (3 ؎ ص 262 ج 4 تفسیر سورة نور ) (5 ؎ صحیح بخاری ص 695 ج 2۔ ) (1 ؎ فتح الباری ص 209 ج 5 باب اللعان ومن طلق بعد اللعان ) (2 ؎ باب قول النبی ﷺ لوکنت راجما بغیر بینتہ ص 211 صحیح بخاری مع الفتح جلد 5 ) (3 ؎ فتح الباری ص 207 ج 5 باب العان ومن طلق بد اللعان وص 213 ج 5 باب التفریق بین المتلاعنین )
Top