Ahsan-ut-Tafaseer - Ash-Shu'araa : 36
قَالُوْۤا اَرْجِهْ وَ اَخَاهُ وَ ابْعَثْ فِی الْمَدَآئِنِ حٰشِرِیْنَۙ
قَالُوْٓا : وہ بولے اَرْجِهْ : مہلت دے اسے وَاَخَاهُ : اور اس کے بھائی کو وَابْعَثْ : اور بھیج فِي : میں الْمَدَآئِنِ : شہروں (جمع) حٰشِرِيْنَ : اکٹھا کرنے والے (نقیب)
انہوں نے کہا کہ اسکے اور اسکے بھائی (کے بارے) میں کچھ توقف کیجئے اور شہروں میں نقیب بھیج دیجئے
36 تا 49: جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے اوصاف بیان کر کے فوعون کو باتوں سے قائل کیا اور عصا اور یدبیضاء کا معجزہ دکھا کر بھی اس کو قائل کیا تو فرعون نے اپنے سرداروں کو ابھارا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ دو شخص بڑے جادوگر معلوم ہوتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور سے یہ تمہاری بادشاہت تمہارا ملک چھین لیویں ان کے جادو سے بچنے کی تمہاری کیا صلاح اور مصلحت ہے بیان کرو انہوں نے فرعون کی عملداری کی سب بستیوں کے بڑے بڑے جادوگروں کو بلوانے کی صلاح دی اور وہ جادوگر آئے اور مقابلہ ہو کر آخر کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) غالب رہے یہاں بعضے مفسروں نے یہ جو لکھا ہے کہ فرعون نے حضرت موسیٰ کے قتل کا ارادہ کیا تھا اس پر اس کے سرداروں نے اس کو قتل سے منع کیا اور کہا قتل سے لوگوں کے دل میں یہ شبہ پیدا ہوجاوے گا کہ ان جادوگروں میں بادشاہ نے کوئی ایسی ہی زبردست غلبہ کی بات دیکھی تھی جو ان دونوں جادوگروں کو زندہ رکھنا بادشاہ نے مناسب نہیں خیال کیا اس لیے ان دونوں جادوگروں کا یہاں کے بڑے بڑے جادوگروں سے مقابلہ کرانا اور سب کے سامنے ان دونوں کو ہرانا مناسب ہے ان کے قتل کا ارادہ مناسب نہیں ہے یہ قول کسی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے بلکہ ایک طرح سے یہ قول قرآن کے مضمون کے مخالف ہے کیونکہ جب حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے فرعون کے سامنے جانے سے اپنا یہ ڈر ظاہر کیا کہ وہ اس کو دیکھے گا تو قبطی کے خون کے معاوضہ میں قتل کر ڈالے گا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے قتل کا ارادہ بھی نہ آنے دیا ہوگا ‘ ان آیتوں میں موسیٰ (علیہ السلام) اور جادوگروں کے مقابلہ کا جو قصہ ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ فرعون کے نقیب بڑے بڑے جادوگروں کو جگہ جگہ سے بلا کر مصر میں لائے۔ تفسیر مقاتل اور تفسیر سدی میں روایتیں ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جادوگر اسی کے قریب تھے اور کئی سو اونٹ جادو کے اثر کی لکڑیوں اور رسیوں سے لدے ہوئے ان کے ساتھ تھے ‘ پہلے ان جادوگروں نے فرعون سے پوچھا کہ اگر ہم غالب آویں گے تو ہم کو کچھ انعام ملے گا فرعون نے جواب دیا اگر تم غالب آئے تو تمہیں نقد انعام بھی ملے گا اور تم فرعونی دربار کے مصاحب مقرر ہوجاؤگے غرض فرعون مصر کی رعایا کے بڑی بھیڑ جادوگر اور موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) یہ سب میدان میں آئے اور جادوگروں نے فرعون کے اقبال کو اپنا حمایتی ٹھہرا کر اپنی وہ لکڑیاں اور رسیاں میدان میں ڈالیں سب طرح طرح کے سانپ ہوگئے جن سے تمام میدان بھر گیا موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی عصا ڈالا جب وہ بہت بڑا سانپ بن کر جادوگروں کے سب سانپوں کو نگل گیا۔ جادوگر تو اپنے فن کے استاد تھے فورا سمجھ گئے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا کارخانہ جادو کا نہیں ہے کیونکہ ہم سے بڑا جادوگر یہی کرسکتا تھا کہ ہمارے جادو کے اٹر کو مٹا دیتا جس سے اصل لکڑیاں اور رسیاں باقی رہ جاتیں جب موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا کا سانپ اصل لکڑیوں اور رسیوں کو بھی نگل گیا تو یہ جادو نہیں بلکہ تائید آسمانی ہے اس بھید کو سمجھ کر سب جادوگر شریعت موسوی کے تابع ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو مان کر سجدہ میں گر پڑے یہ حال دیکھ کر فرعون نے جادوگروں کو دھمکایا کہ بغیر میرے حکم کے تم نے جو یہ کام کیا ہے اس کی سزا جو کچھ ہوگی اس کا حال تمہیں معلوم ہوجائے گا اور یہ بھی کہا کہ موسیٰ گویا تمہارے استاد ہیں جن کے جادو کو تم نے اپنے جادو سے بڑا جان لیا۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی کی حدیث جو اوپر گذر چکی 1 ؎ ہے اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب جادوگر جو اس فن کے استاد ہو کر اس بات کے قائل ہوگئے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا کارخانہ جادو کا نہیں ہے بلکہ یہ کارخانہ تائید آسمانی ہے تو فرعون اور اس کے ساتھیوں کو بھی اسی طرح قائل ہوجانا چاہیے تھا لیکن یہ لوگ علم الٰہی میں دوزخی قرار پاچکے تھے اس لیے اتنی ظاہر بات ان کی سمجھ میں نہیں آئی اس قصہ سے جادو اور معجزہ کا یہ فرق اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ جادو کے ہزاروں سانپ معجزے کے ایک سانپ کے مقابلے میں بالکل پست ہوگئے اس قصے سے قریش کو یہ جتلایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ غیب سے اپنے رسولوں کی اس طرح مدد کر کے مخالفوں پر ان کو یوں غلبہ دیتا ہے “ (1 ؎ یعنی جلد ہذا کے صفحہ 18 پر )
Top