Ahsan-ut-Tafaseer - An-Naml : 74
وَ اِنَّ رَبَّكَ لَیَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُوْرُهُمْ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ
وَاِنَّ : اور بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب لَيَعْلَمُ : خوب جانتا ہے مَا تُكِنُّ : جو چھپی ہوئی ہے صُدُوْرُهُمْ : ان کے دل وَمَا : اور جو يُعْلِنُوْنَ : وہ ظاہر کرتے ہیں
اور جو باتیں ان کے سینوں میں پوشیدہ ہوتی ہیں اور جو کام وہ ظاہر کرتے ہیں تمہارا پروردگار ان (سب) کو جانتا ہے
74 تا 81۔ ان آیتوں میں مشرکوں کو فرمایا جو قیامت کو دور جانتے ہیں اوپر کی آیتوں میں ان کے حق میں یہ فرمایا تھا کہ قیامت کے آنے کی یہ لوگ جلدی کرتے ہیں شاید وہ ان کی پیٹھ کی پیچھے آ لگی ہو اور قریب ہو پھر فرمایا کہ تیر ارب لوگوں پر اپنا فضل رکھتا ہے اور نعمتیں دیتا ہے اور لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں اور خدا کا شکر نہیں بجالاتے اب ان آیتوں میں فرمایا کہ وہ ایسا عالم الغیب ہے کہ جن باتوں کو یہ لوگ چھپا رہے ہیں ان کو بھی جنتا ہے اور جو ظاہر کرتے ہیں وہ بھی جانتا ہے چناچہ سورة طہ میں فرمایا فانہ یعلم السر واخفی پھر فرمایا کوئی چیز لائق نہیں آسمان اور زمین میں مگر وہ موجود ہے کھلی کتاب میں یہ آیت مثل سورة حج کی اس آیت کے ہے الم تعلم ان اللہ یعلم مافی السماء والارض ‘ ان ذالک فی کتاب ‘ ان ذالک علی اللہ یسیر (آیت 70) مطلب یہ ہے اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ جو کچھ آسمان یا زمین میں ہے اس لیے اس کو اپنے علم ازلی کے موافق یہ سب کچھ لوح محفوظ میں لکھ لینا دشوار نہیں تھا پھر فرمایا کہ یہ قرآن بنی اسرائیل کے لیے اکثر وہ قصے بیان کرتا ہے جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں جیسے حضرت عیسیٰ اور عزیر کے باب میں یہود نصاریٰ مختلف القول ہیں لیکن یہ قرآن شریف سراسر ہدایت اور رحمت ہے ایمانداروں کے حق میں اس سراسر ہدایت کو چھوڑ کر اب جو لوگ اختلاف میں پڑے ہیں ان کے اس اختلاف کا پورا فیصلہ قیامت کے دن ہوجائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے علم اور فیصلہ میں بڑا زبردست ہے پھر فرمایا اے رسول اللہ کے تم کھلے راستے پر ہو اللہ پر بھروسہ کر کے لوگوں کو اس راستہ پر بلانے میں لگے رہو پھر اس کھلے راستے پر جو نہ آوے تو وہ مثل مردہ کے ہے اور تم مردوں کی نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو سنا سکتے ہو اور نہ تم اندھوں کو راستہ بتاسکتے ہو جب وہ راہ سے بچلیں تو ان ہی کو نصیحت کرسکتے ہو جو اللہ کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں کیونکہ وہی لوگ حکم بردار ہیں صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمروبن العاص ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے رکھتے ہیں کیونکہ وہی لوگ حکم بر دار ہیں صحیح مسلم میں حوالہ سے عبداللہ بن عمروبن العاص ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پچاس ہزار برس پہلے جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے اپنے علم ازلی کے موافق وہ سب اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے یہ حدیث ومامن غائبتہ فی السماء والارض الافی کتاب مبین کی گویا تفسیر ہے بہروں کے ذکر میں پیٹھ کے پھیر لینے کا لینے کے بعد یہ موقع بھی باقی نہیں رہتا صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے قابل کام کریں گے اور کتنے آدمی دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری ؓ کی حدیث بھی ایک اچھی بری زمین کی بیان فرمائی ہے۔ ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں جو دل ہے اس کے حاصل یہ ہے کہ جس قسم کی یہ آیتیں ہیں ایسی آیتوں کے نازل ہونے سے پہلے اللہ کے رسول ﷺ کو اس بات کا بڑا رنج تھا کہ تمام اہل مکہ دائرہ اسلام میں کیوں نہیں داخل ہوجاتے لیکن جب اس قسم کی آیتوں سے یہ بات کھل گئی کہ جو لوگ علم الٰہی میں بد قرار پاچکے ہیں ان کے حق میں قرآن کی نصیحت ایسی ہی فائدہ مند ہے جیسے اچھی زمین میں مینہ کا پانی فائدہ مند ہوتا نے ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے انس بن مالک ؓ کی حدیث جو ایک جگہ گزر چکی ہے۔ کہ بدر کی لڑائی کے وقت اللہ کے رسول ﷺ نے مشرکوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ کے وعدے کہ سچا پا لیا اس حدیث کے معنے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے شاگردوں میں سے قتادہ نے یہ بیان کئے ہیں کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان لاشوں میں روح پھونک دی گئی تھی ان لاشوں نے اللہ کے رسول ﷺ کی باتوں کو سن لیا امام احمد اور ابودا ؤد میں براء بن عازب ؓ کے صحیح حدیث 1 ؎ منکر نکیر کے سوال جواب کے باب میں جو ہے اس سے قتادہ کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے کس لیے کہ اس حدیث میں صاف طور پر یہ ذکر ہے کہ منکر نکیر کے سوال و جواب کے وقت مردہ کے جسم میں روح پھونک دی جاتی ہے حاصل کلام یہ ہے کہ آیت انک لاتسمع الموتیٰ میں اور انس بن مالک ؓ کی اس مضمون کی حدیثوں میں کچھ اختلاف نہیں ہے کیونکہ حدیثوں میں مردہ کی خاص حاص حالتوں کا ذکر ہے اور آیت میں مردہ کی ان خاص خاص روح کے پھونکے جانے کی حالتوں کے علاوہ عام حالت کا ذکر ہے۔ (1 ؎ مشکوۃ باب اثبات عذاب القبر۔ )
Top