Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ahzaab : 36
وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ١ؕ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاؕ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے لِمُؤْمِنٍ : کسی مومن مرد کے لیے وَّلَا مُؤْمِنَةٍ : اور نہ کسی مومن عورت کے لیے اِذَا : جب قَضَى : فیصلہ کردیں اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗٓ : اور اس کا رسول اَمْرًا : کسی کام کا اَنْ يَّكُوْنَ : کہ (باقی) ہو لَهُمُ : ان کے لیے الْخِيَرَةُ : کوئی اختیار مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ : ان کے کام میں وَمَنْ : اور جو يَّعْصِ : نافرمانی کرے گا اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول فَقَدْ ضَلَّ : تو البتہ وہ گمراہی میں جا پڑا ضَلٰلًا : گمراہی مُّبِيْنًا : صریح
اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں اور جو کوئی خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا
36 تا 40۔ تفسیر سدی تفسیر ابن جریر اور تفسیر ابن مردو یہ وغیرہ میں جو شان نزول ان آیتوں کی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت 2 ؎ سے بیان کی گئی ہے (2 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 2037201 ج 5۔ ) اس کا حاصل وہی ہے جو شاہ صاحب نے موضح القران میں بیان کیا ہے کہ حضرت زنیب ؓ اور ان کے راضی نہیں تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی مختصر طور پر یہ شان نزول صحیح بخاری 3 ؎ میں بھی انس بن مالک ؓ کی روایت سے ہے (3 ؎ صفحہ 706 ج 2 کتاب التفسیر۔ ) اب اس زنیب ؓ کے قصہ میں اللہ تعالیٰ نے خفگی سے آنحضرت ﷺ کو یہ جو فرمایا ہے کہ اے نبی جس چیز کو اللہ دنیا میں ظاہر کرنا چاہتا ہے اس کو تم اپنے دل ہی دل میں کیوں چھپاتے ہو اگرچہ مفسرین نے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے طرح طرح کے معنے بیان کئے ہیں اور کچھ آثار بھی اپنے معنوں کی تائید میں ذکر کئے ہیں مگر حافظ ابن حجر (رح) نے فتح الباری 1 ؎ میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی روایت اور کوئی معنے صحیح نہیں ہیں جو تفسیر سدی اور تفسیر ابن ابی حاتم میں بیان کئے گئے ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ جس وقت آنحضرت ﷺ نے زید ؓ اور حضرت زنیب ؓ کا نکاح کیا اسی وقت اللہ تعالیٰ نے وحی خفی کے طور پر آنحضرت ﷺ کے دل میں یہ بات ڈال دی تھی کہ زمانہ جاہلیت کی یہ رسم اب آئندہ قائم نہ ہونے گی کہ متبنبیٰ بیٹا اور اصلی بیٹا شریعت میں برابر گنا جاوے اور متبنی کی بیوی متبنی لینے والے کو حلال نہ ہو اور اس رسم کو اللہ تعالیٰ زید ؓ اور زنیب ؓ کے نکاح کے برس ہی دن کے بعد یوں موقوف فرما دیوے گا کہ زید ؓ اور زنیب ؓ کے تمہارے نکاح میں آویں گی لیکن یہ رسم عرب میں ایک بڑی قدیمی رسم تھی اس واسطے آنحضرت ﷺ نے اس وحق خفی کی بات کو صریح آیت کے نازل ہونے سے پہلے اس خیال سے لوگوں پر ظاہر نہیں فرمایا کہ ایک قدیم رسم کے ٹوٹنے سے لوگوں میں ایک کھل بلی مچ جاوے گی اسی پر اللہ تعالیٰ کی خفگی ہوئی اس کے سوا جو کچھ مفسروں نے لکھا ہے اس سب کو حافظ 2 ؎ ابن کثیر (رح) اور حافظ ابن حجر (رح) نے ضعیف 3 ؎ ٹھہرایا ہے اور خود قرآن شریف سے بھی اس تفسیر کی پوری تائید ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا کہ اے نبی ﷺ جو بات تمہارے دل میں ہے اللہ تعالیٰ اس کو ظاہر کرنے والا ہے پھر آگے اللہ تعالیٰ نے جو ظاہر فرمایا وہ یہی ہے کہ جاہلیت کی رسم موقوف اور متبنی کی بی بی کا نکاح متبنے لینے والے کو جائز ہے اگر اس کے سوا کوئی اور بات آنحضرت ﷺ کے دل میں ہوتی مثلا نکاح سے پہلے حضرت زنیب ؓ کے نکاح کی خواہش یا ان کی الفت یا ان کی خوبصورتی کی عظمت تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے موافق ضرور اس کا ذکر قرآن شریف میں فرمایا ‘ زنیب ؓ کی ماں کا نام امیمہ بنت عبدالمطلب اور زنیب ؓ کے بھائی کا نام عبداللہ بن حجش ہے جب اللہ کے رسول ﷺ نے ان لوگوں سے یہ درخواست کی کہ زنیب ؓ کا نکاح زید ؓ بن حارثہ سے کردیا جاوے تو ان لوگوں نے اس درخواست کے منظور کرنے سے انکار کیا اس پر اللہ تعالیٰ پہلی آیت نازل فرمائی اور فرمایا کہ امیمہ ؓ بنت کسی کام کا کرنا ٹھہراویں تو یہ لوگ اس کام کے پورا ہونے میں خلل ڈالیں کیوں کہ یہ خلل گناہ ہے اور جو شخص ایسا رشتہ دار زنیب ؓ کا نکاح زید بن حادثہ ؓ کے ساتھ کردینے کو راضی ہوگئے اور نکاح ہوگیا اور پھر اس نکاح کے بعد زید ؓ اور زنیب ؓ کی جب موافقت نہ ہوئی اور زید ؓ نے زینب ؓ کی بد زبانی کی شکایت اللہ کے رسول ﷺ کے روبرو پیش کرکے زنیب ؓ کو چھوڑ دینا چاہا تو اللہ کے رسول نے یہ خیال سے آپ ﷺ نے زید ؓ کو وہ نصیحت کی جس کا ذکر آگے کی آیت میں ہے کہ اے رسول اللہ کے تم اپنا قدم درمیان میں ہونے کے کے طور پر جو بات اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل میں ڈال دی ہے اسی اندیشہ سے اس کو زبان پر نہیں لاتے کہ لے پالک منظور ہے جس طرح اس نے ساتھ کے ساتھ دو بہنوں کے نکاح میں رکھنے کی رسم کو مٹایا پھر فرمایا زید ؓ نے جب کہ زنیب ؓ کو چھوڑ دیا ہے اور عدت کی مدت بھی گزر چکی ہے تو اللہ تعالیٰ نے زنیب ؓ کو تمہارے نکاح میں اس لیے دیا کہ مسلمان ہو کر رہتا ہے اس کے ارادہ کو کوئی روک نہیں سکتا پھر فرمایا جو بات اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم سے ٹھہرادی اے نبی نہ کیا کرتے تھے پھر فرمایا نیکوں کے فرما نبرداری اور بدوں کی بدگوئی کے حساب و کتاب کے لیے اللہ کا علم کافی ہے ایک دن ان سب باتوں کا حساب و کتاب ہو کر جزاوسزا کا فیصلہ ہوجاوے گا پھر فرمایا لوگوں کے زید بن محمد کہنے سے محمد ﷺ کی اولاد کے باپ نہیں ہوسکتے وہ تو غیروں کے حق میں اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں پھر فرمایا اللہ کا علم نکاح پر بعضے عیسائیوں نے اور ان کے دیکھا دیکھی بعضے آریوں نے اللہ کے رسول ﷺ کی شان میں طرح طرح کو بدگوئی جو کے ہے واللہ احق ان تخشاہ سے اس بدگوئی کا فیصلہ خود اللہ تعالیٰ نے یہ کردیا ہے کہ اے رسول اللہ نے یہ کردیا ہے کہ اے رسول اللہ کے تم کو لوگوں کی بدگوئی سے کچھ نہ ڈرنا چاہئے بلکہ تم اللہ سے ڈرو اور جس طرح اللہ کو منظور ہے کہ شرک کے زمانہ کے ایک رسم آئندہ قائم نہ رہے اس کے موافق تم کو بلاتا مل عمل کرنا چاہئے قصہ زید ؓ آریوں اور عیسائیوں کے جو بات ‘ اس فیصلہ قرآنی کے بعد اگرچہ مسلمانوں کو کسی بدگو کی بدگوئی کا کچھ اندیشہ نہیں لیکن مخالفوں کے قائل کرنے کے لیے بعضے مسلمانوں نے اس بدگوئی کا جو جواب دیا ہے اس کا خلاصہ ذیل میں بیان کیا جاتا ہے۔ (1) ملت ابراہیمی میں ساتھ کے ساتھ دو بہنوں سے نکاح کر جائز تھا اس لیے یعقوب (علیہ السلام) کے نکاح میں لیا اور راحیل یہ دو بہنیں ساتھ کے ساتھ موجود تھیں جس کا ذکر تورات کے حصہ سفر التکوین باب 29 میں ہے ‘ شریعت موسوی میں ملت ابراہیمی کا یہ مسئلہ منسوخ ہوگیا جس کا ذکر توراۃ کے حصہ سفر الاحبار کے باب 18 میں ہے۔ (2) صحیح بخاری کے حوالہ سے حضرت عائشہ ؓ کی روایت اوپر گزر چکی ہے کہ لے پالک کو اصلی بیٹا قرار دینے کا طریقہ زمانہ شرک کا ایک طریقہ تھا پہلی کسی شریعت میں اس کا کوئی حکم نہیں ہے۔ (3) لے پالک کو اصلی بیٹا قرار دینے کا طریقہ اگر پہلے کی شریعت کے حکم سے ہوتا اور قرآن سے وہ حکم منسوخ ہوجاتا تو اس صورت میں بھی عیسائی لوگ اسلام پر کچھ اعتراض نہیں کرسکتے تھے کیوں کہ مسلمان لوگ عیسائیوں کو یوں قائل کردیتے کہ جس طرح تو رات نے ملت ابرہیمی کے ایک مسئلہ کو منسوخ کیا اسی طرح قرآن نے بھی پہلے کی شریعت کے ایک مسئلہ کو منسوخ کردیا یہاں تو عیسائی لوگوں کی یہ ہٹ دھرمی ہے کہ زمانہ شرک کی ایک رسم کو قرآن نے مٹایا ہے جس سے قرآن ان کے نزدیک قابل اعتراض ہے اگرچہ اس ہٹ دھرمی کے جواب میں مسلمانوں نے بارہا تحریری اور تقریری مناظرے کر کے عیسائیوں کو یہ جتلایا کہ اگر کسی آسمانی کتبا میں اس اعتراض کی تائید کا کوئی مسئلہ ہو تو پیش کیا جائے لیکن سوا قدیمی بدگوئی کے آج تک مسلمانوں کو کوئی جواب نہیں ملا جس نتیجہ یہ ہے کہ زمانہ شرک کی ایک رسم کے مٹا دینے کا الزام عیسائیوں کی طرف سے اگر نبی آخر الزمان اور قرآن پر قائم ہوسکتا ہے تو اس سے بڑھ کر یہ الزام مسلمانوں کی طرف سے حضرت موسیٰ اور تو رات پر قائم ہوسکتا ہے کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اور تو رات نے ملت ابراہیمی کے ایک مسئلہ کو مٹا دیا۔ فرقہ آریہ کی بدگوئی کا جواب اہل اسلام نے دیا ہے اس کا خلاصہ بھی ذیل میں بیان کیا جاتا ہے۔ (1) جس طرح محمد ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق واوحی الی ھذا القرآن سے یہ جتلایا ہے کہ قرآن وہ الہامی کتاب ہے جو محمد ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور الہام کے نازل ہوئی ہے اس طرح رشیوں نے کسی وید میں یہ نہیں جتلایا کہ وید الہام کے ذریعہ رشیوں پر نازل ہوئے ہیں پھر جو فرقہ اپنی کتاب کو آسمانی کتاب نہیں ثابت کرسکتا اس کو اسمانی کتاب پر بدگوئی کا حق کیوں کر حاصل ہوسکتا ہے۔ (2) عیسائیوں سے تو آج تک یہ نہیں ہوسکا کہ وہ اپنی بدگوئی کی بنیاد پر کسی آسمانی کتاب سے کوئی سند قائم کرتے آریہ لوگ اس بدگوائی میں اگر عیسائیوں کے مددگار بنے ہیں تو جو کام عیسائیوں سے پورا نہ ہوسکا اس کو آریہ لوگ ہی پورا کر کے دکھا دیں۔ (3) اہل اسلام کی بعض ضعیف روایتوں کے بھروسہ پر یہ جو کہا جاتا ہے کہ نکاح سے پہلے محمد ﷺ نے زنیب ؓ کو دیکھا جس سے زنیب ؓ کی الفت محمد ﷺ کے دل میں پیدا ہوگئی اس لیے باطن میں تو محمد ﷺ یہ چاہتے تھے کہ زید ؓ زنیب ؓ کو طلاق دے دیویں تو خود زنیب ؓ سے نکاح کرلیں اور ظاہر میں زید ؓ کو ولی رادہ کے برخلاف نصیحت کرتے تھے حالانکہ دل میں کچھ اور زبان پر کچھ یہ بات نبوت کی شان سے بہت بعید ہے اس کا جواب اوپر گزر چکا کہ معتبر علماء اسلام کے نزدیک یہ روایتیں صحت کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتی ہیں عیسائی فرقوں میں جس طرح مثلا پر ولسیٹنٹ فرقہ باقی عیسائیوں کی روایتوں کو ضعیف ٹھہرا کر نہیں مانتے اسی طرح باقی کے فرقوں کہ لوگ اس فرقہ کو نہیں مانتے یا مثلا آریہ دید کی تفسیروں میں سوائے دیا نند کی تفسیر کے اور قدیمی مفسروں کی تفسیروں کو نہیں ماننے اسی طرح اہل اسلام میں صحیح روایتوں کے پابند مسلمان ان ضعیف روایتوں کو نہیں مانتے پھر یہ کیا زبردستی ہے کہ یہ لوگ اپنے مذہبوں میں تو صحیح اور ضعیف روایتوں میں فرق پیدا کرتے ہیں اور مسلمانوں کو ضعیف روایتوں کے حوالہ سے قائل کرنا چاہتے ہیں ان لوگوں کو چاہئے کہ مسلمانوں کے قواعد کے موافق پہلے ان ضعیف روایتوں کی صحت کو ثابت کر کے یہ بحث کریں (4) یہ جو کہا جاتا ہے کہ بغیر شرائط نکاح کے زینب ؓ کا یہ نکاح شرعی نکاح کیوں کر ہوسکتا ہے اس کا جواب اہل اسلام نے یہ دیا ہے کہ آدم اور بنی آدم سب اللہ تعالیٰ کے لونڈی غلام ہیں اور شرعی محمدی کا یہ ایک مسئلہ ہے کہ عورت کے رشتہ داروں میں سے کوئی رشتہ دار کسی عورت کو یا لونڈی کے مالکوں میں سے کوئی مالک اپنی لونڈی کو زوجنا کھا کہہ کر کسی مرد کو سونپ سہل بن سعد کی حدیث کے موافق صحیح بخاری میں اس مسئلہ کا خاص ایک باب 1 ؎ ٹھہرا کر امام بخاری نے اس مسئلہ کا ذکر کیا ہے (1 ؎ باب اذا قال الخاطب للولی زوجنی فلاتۃ فقال قد زوجتک بکذاوکذ اجازا لنکاح الخ۔ ) حاصل کلام یہ ہے کہ دنیا کے مالکھوں کی زبان سے جس لفظ کے نکلنے سے شرعی نکاح صحیح ہوجاتا ہے روبرو یہ آیت نازل ہوئی یا جتنے مسلمان اس نکاح کے ولیمہ میں شریک ہوئے جس کا ذکر انس بن مالک ؓ کی صحیح بخاری کو الزام دینے کے لیے شرع محمدی کے موافق تو کسی بحث کی گنجائش ہرگز باقی نے رہی اور عقلی بحث کا ہر مسلمان یہ جواب دے سکتا ہے کہ دینی بحث اگر محض عقل سے طے ہوسکتی ہے تو عیسائی لوگ تو رات وانجیل پر اور آریہ لوگ اپنے ویدوں پر اپنی مذہبی باتوں کا دارو مدار کیوں رکھتے ہیں۔ (5) یہ جو کہا جاتا ہے کہ اسلام میں اس بدگوئی کے قابل نکاح کی ضرورت ہی کیا تھی اس کا جواب اوپر گذر چکا ہے کہ جس طرح تو ریت انجیل قرآن شرک کی رسمیں مٹانے کی ضرورت سے نازل ہوئے اسی طرح زمانہ شرک کی ایک رسم مٹانے کے لیے یہ آیتیں نازل ہوئیں جس میں اس نکاح کی تاکید ہے جو عیسائی اس ضرورت کا قائل نہ ہوگا اس سے پوچھا جاوے گا کہ تو رات و انجیل کس ضرورت سے نازل ہوئیں اسی طرح فرقہ آریہ کے لوگ اگر مذہبی ضرورتوں کے قائل نہ ہوں گے تو ان کے وید بلا ضرورت قرار پاویں گے اگرچہ آریوں کے گرو سوا میں دیا نند نے سیتارتھ پر کاش میں لکھا ہے کہ خاندان کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے آریہ لوگ اپنی ذات والے کا لڑکا گود میں لے کرلے پالک بنا سکتے ہیں ‘ اب یہ تو ظاہر ہے کہ مثلا ایک فقیر اپنے آپکو بادشاہ کہوے تو قانون قدرت کے موافق وہ بادشاہ نہیں ہوسکتا اسی طرح قانون قدرت کے موافق خاندان کا سلسلہ تو اسی شخص کا جاری رہے گا جس کے نطفہ سے وہ لے پالک لڑکا پیدا ہوا ہے لیکن آریہ مذہب میں یہ لے پالک کا مسئلہ ایک خیالی مسئلہ ہے جو جاری ہے اور تعجب یہ ہے کہ باوجود اس خیالی مسئلہ کی پابندی کے اس آریہ فرقہ کا دعویٰ اکثر بحثوں میں یہ ہے کہ جو مسئلہ قانون قدرت کے خلاف ہو وہ غلط ہے ‘ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ جب بےاولاد آریوں کے خاندان کا سلسلہ لے پالک سے جاری رہ سکتا ہے تو پھر نیگ 1 ؎ کے مسئلہ کی کیا ضرورت ہے۔ نیوگ کے مسئلہ کا ذکر سورة طلاق آوے گا۔ (1 ؎ آریوں کا ایک مشہور مسئلہ (ع ‘ ح )
Top