Ahsan-ut-Tafaseer - Az-Zumar : 4
لَوْ اَرَادَ اللّٰهُ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفٰى مِمَّا یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ١ۙ سُبْحٰنَهٗ١ؕ هُوَ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ
لَوْ : اگر اَرَادَ اللّٰهُ : چاہتا اللہ اَنْ يَّتَّخِذَ : کہ بنائے وَلَدًا : اولاد لَّاصْطَفٰى : البتہ وہ چن لیتا مِمَّا : اس سے جو يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ ۙ : وہ پیدا کرتا ہے (مخلوق) جسے وہ چاہتا ہے سُبْحٰنَهٗ ۭ : وہ پاک ہے هُوَ اللّٰهُ : وہی اللہ الْوَاحِدُ : واحد (یکتا) الْقَهَّارُ : زبردست
اگر خدا کسی کو اپنا بیٹا بنانا چاہتا تو اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا انتخاب کرلیتا وہ پاک ہے وہی تو خدا یکتا (اور) غالب ہے
4۔ 5۔ اوپر ذکر تھا کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں جو لوگ دوزخی قرار پا چکے ہیں وہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد ویسے ہی کام کرتے ہیں۔ ان آیتوں میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ اس طرح کے جھوٹے منکر لوگوں کو زبردستی راہ راست پر لانا نہیں چاہتا۔ کیونکہ دنیا کو اس نے نیک و بد کے امتحان کے لئے پیدا کیا ہے زبردستی میں وہ امتحان کی حالت باقی نہیں رہتی۔ جھوٹ تو ان مشرکوں کا یہ ہے کہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہہ کر یہ لوگ اللہ کو صاحب اولاد ٹھہراتے ہیں اور ناشکری ان لوگوں کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کی سب ضرورت کی چیزوں کو پیدا کیا لیکن یہ لوگ اللہ کی تعظیم اور عبادت میں بلا سبب دوسروں کو شریک کرتے ہیں آگے فرمایا آسمان و زمین اور جو چیز آسمان و زمین میں ہے سب اللہ کا پیدا کیا ہوا ہے پھر خالق کو اپنی مخلوقات میں سے کسی کو اولاد بنانے کے لئے چننا اور اپنے برابر ٹھہرانا مناسب نہیں ہے کیونکہ وہ خالق تو اپنی ذات سے اکیلا ہے اور سب پر اس کی حکومت اور اس کا دباؤ ہے جب رات کا اندھیرا پھیلتا ہے تو دن کا اجالا اس طرح سمٹ جاتا ہے جس طرح کسی چیز کو لپیٹ لیا جاتا ہے اور یہی حال دن کے اجالے کا ہے یکور الیل علی النھار ویکور النھار علی الیل کا یہی مطلب ہے سورج دن کی نشانی ہے اور چاند رات کی اس لئے دن اور رات کے ذکر کے ساتھ سورج اور چاند کا ذکر فرمایا زبردست وہ ایسا ہے کہ پہلی جن قوموں نے اس کی نافرمانی کی ان کو اس نے طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کردیا اور کوئی اس کے عذاب کو ٹال نہ سکا بخشش کی صفت اس میں ایسی ہے کہ فرمانبردار لوگوں کی پچھلی سب خطاؤں کے معاف کرنے کا وعدہ ہے صحیح 1 ؎ مسلم کے حوالہ سے عمرو بن العاص ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کا عہد کرلیوے تو اس کی نافرمانی کے زمانہ کے سب گناہ اس طرح مٹ جاتے ہیں۔ جس طرح کوئی عمارت گر پڑتی ہے۔ اور پھر اس کا نام و نشان باقی نہیں رہتا۔ پچھلی قوموں کی بربادی کے سب قصے اور یہ حدیث ھو العزیز الغفار کی گویا تفسیر ہیں۔ (1 ؎ صحیح مسلم باب کون الاسلام یھدم ماکان قبلہ وکذا الحج والھجرۃ ص 76 ج 1)
Top