Ahsan-ut-Tafaseer - Az-Zumar : 53
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ
قُلْ : فرمادیں يٰعِبَادِيَ : اے میرے بندو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے اَسْرَفُوْا : زیادتی کی عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں لَا تَقْنَطُوْا : مایوس نہ ہو تم مِنْ : سے رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کی رحمت اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَغْفِرُ : بخش دیتا ہے الذُّنُوْبَ : گناہ (جمع) جَمِيْعًا ۭ : سب اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہی الْغَفُوْرُ : بخشنے والا الرَّحِيْمُ : مہربان
(اے پیغمبر ﷺ میری طرف سے لوگوں سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہونا خدا تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے (اور) وہ تو بخشنے والا مہربان ہے
53۔ 58۔ اس آیت کی تفسیر میں علمائے مفسرین نے بڑا اختلاف کیا ہے اکثر مفسر تو یہ کہتے ہیں کہ جس زیادتی کا ذکر اس آیت میں ہے اس میں شرک اور کفر بھی داخل ہے اور جس رحمت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے وہ رحمت بدون توبہ کی قید کے حامل نہیں ہوسکتی کیونکہ ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ سے معلوم ہوچکا ہے کہ کفر اور شرک بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوسکتا اور بعضے مفسر یہ کہتے ہیں کہ جس زیادتی کا ذکر اس آیت میں ہے اس میں شرک و کفر داخل نہیں ہے اس لئے جس رحمت کا ذکر اس آیت میں ہے وہ رحمت بدون توبہ کی قید کے ہے۔ صحیح بخاری 1 ؎ صحیح مسلم ابودائود اور نسائی میں حضرت عبد ؓ اللہ بن عباس کی روایت سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ کچھ مشرک لوگ آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ جس دین کی آپ ہم لوگوں کو رغبت دلاتے ہیں وہ دین تو اچھا ہے مگر جو ہم نے آج تک کیا ہے اس کی پکڑ نہ ہو تو ہم کو اس دین کے قبول کرنے میں کچھ عذر نہیں ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اس صحیح شان نزول سے معلوم ہوا کہ مشرکین کے مباحثہ پر یہ آیت نازل ہوئی ہے اور جس زیادتی کا ذکر اس آیت میں ہے اس میں کفر و شرک داخل ہے اور جس رحمت کا ذکر اس آیت میں ہے وہ کفر و شرک والے شخص کو بدون توبہ کے ہرگز حاصل نہیں ہوسکتی ہاں یغفر مادون ذالک لمن یشاء کے وعدہ کے موافق سوا کفر اور شرک کے اور سب کبیرہ گناہ اللہ تعالیٰ چاہے تو معاف کرسکتا ہے اس میں کسی کو اختلاف بھی نہیں اس شان نزول کا بعضے مفسروں نے یہ جواب جو دیا ہے کہ شان نزول ہمیشہ خاص ہوا کرتی ہے اور آیت کا حکم عام ہوا کرتا ہے یہ جواب اس موقع پر صحیح نہیں ہے کیونکہ آیت کا حکم عام ہونے کے یہ معنی ہیں کہ جن لوگوں کے حق میں یہ آیت اتری ہے وہ لوگ اور قیامت تک کے اس قسم کے اور سب لوگ آیت کے حکم میں شریک ہیں یہ معنی عام کے کیوں کر ہوسکتے ہیں کہ جن لوگوں کے حق میں آیت اتری ہے خود ان کو آیت کے حکم میں سے خارج کردیا جائے غرض صحیح شان نزول سے جب یہ معلوم ہوگیا کہ مشرکوں کے مباحثہ پر یہ آیت نازل ہوئی ہے تو کسی طرح یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جس زیادتی کا ذکر اس آیت میں ہے اس میں شرک و کفر داخل نہیں ہے اور جب یہ نہیں کہا جاسکتا تو یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ آیت میں تو بہ کی قید نہیں ہے اور علاوہ اس شان نزول کے اور حدیثوں سے بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں جو زیادتی کا ذکر ہے اس میں شرک داخل ہے چناچہ معتبر سند سے اوسط طبرانی اور مسند امام احمد 2 ؎ میں آنحضرت ﷺ کے پروردہ ثوبان کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ آیت قل یعبادی الذین اسرفوا۔ تمام دنیا سے زیادہ مجھ کو عزیز ہے کسی شخص نے پوچھا حضرت اس آیت کے حکم میں مشرک لوگ بھی شریک ہیں تو آنحضرت ﷺ نے تین دفعہ فرمایا کہ ہاں شریک ہیں اب خود صاحب وحی ﷺ کی تفسیر سے یہ معلوم ہوگیا کہ آیت کے حکم میں مشرک شریک ہیں اور آیت ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ سے یہ مفسر یہ کہتے ہیں کہ شرک بدون توبہ کے معاف نہیں ہوسکتا تو اوپر مفسروں کا جو اختلاف تھا وہ بالکل رفع ہوگیا کیونکہ ثوبان کی معتبر روایت کے موافق جب یہ معلوم ہوگیا کہ پہلی آیت میں جس زیادتی کا ذکر ہے اس میں شرک بھی شریک اور آیت ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ۔ سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ شرک بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوسکتا تو اب آیت میں توبہ کی قید لگانے نہ لگانے کا جو اختلاف تھا اس کا کوئی موقع باقی نہیں رہا۔ حاصل مطلب آیتوں کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی غفور رحیمی کی صفت کے آگے کسی گناہ کی اگرچہ حقیقت نہیں لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ شرک بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوسکتا اس لئے ہر مشرک کو عذاب کے آجانے کی بےبسی سے پہلے شرک کو چھوڑنا اور اس سے آئندہ کے لئے توبہ کرنی چاہئے اور شرک سے کم گناہوں کی معافی کی توقع بغیر توبہ کے بھی اللہ کی ذات سے رکھنی چاہے ہاں جو مشرک شرک کی حالت میں بغیر توبہ کے مرجائے گا اور قیامت کے دن یہ افسوس کرے گا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں کیوں کوتاہی کی اور دین کی باتوں کو مسخرا پن کیوں سمجھتا رہا یا یہ افسوس کرے گا کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو بھی دنیا میں راہ راست پر آجانے اور نیک کام کرنے کی توفیق دیتا تو کیا اچھا ہوتا یا نیک کام کرنے کے لئے افسوس کے طور پر دنیا میں دوبارہ پیدا ہونے کی تمنا کرے گا تو بےوقت کا افسوس کسی کے کچھ وہاں کام نہ آئے گا۔ جو علما پہلی آیت میں توبہ کی قید نہیں لگاتے وہ یہ کہتے ہیں کہ جن لوگوں کی شان میں یہ آیتیں نازل ہوئی ہیں وہ لوگ حضرت عبد ؓ اللہ بن عباس کی شان نزول کی روایت کے موافق شرک سے توبہ کرنے کو تو خود تیار تھے مگر اور گناہوں کی شرمندگی سے اپنے ارادہ پر نہیں جمتے تھے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے پہلی آیت میں ان کو اور گناہوں کی معافی کی خوش خبری سنا کر وانیبوا الی ربکم و اسلمو الہ سے انہیں شرک سے توبہ کرنے اور دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی طرف رغبت دلائی صحیح مسلم 1 ؎ کے حوالہ سے عمرو بن العاص کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ دائرہ اسلام میں داخل ہوتے ہی آدمی کے پچھلے گناہ اس طرح مٹ جاتے ہیں جس طرح کوئی عمارت گر پڑتی ہے جس سے اس کا نام نشان کچھ باقی نہیں رہتا۔ جو علما آخری قول کے قائل ہیں ان کی تفسیر کی تائید اس حدیث سے ہوسکتی ہے اس تائید کا خلاصہ یہ ہے کہ اے میرے بندوں اسلام کے ارادہ پر جم جاؤ اسلام کے دائرہ میں داخل ہوتے ہی شرک سے کم رتبہ کے سب گناہ خود بخود اللہ کی رحمت سے مٹ جائیں گے اب نتیجہ اختلاف کا فقط اس قدر باقی ہے کہ دوسری آیت میں توبہ کا خاص حکم ہے اس لئے پہلی آیت میں توبہ کی قید ضروری نہیں ہے توبہ کے قبول ہونے کے لئے آئندہ گناہ سے باز رہنے کا اور نیک کام کرنے کا ارادہ ضرور ہے جس طرح فرعون نے ڈوبتے وقت توبہ کی یا جیسے موت کے وقت عذاب کے فرشتوں کے نظر آجانے کے بعد اب کوئی توبہ کرے تو ایسی بےبسی کے وقت توبہ قبول نہیں۔ چناچہ سورة النساء میں اس باب میں جو روایتیں ہیں وہ گزر چکی ہیں اس واسطے فرمایا کہ عذاب کی حالت سر پر آجانے سے پہلے توبہ کی جائے۔ قرآن میں جس کام کے کرنے کا حکم ہے اس کو کرنا اور مناہی کے کام سے بچنا آدمی کی بہتری کی بات ہے بچنے کام کو کوئی شخص کرنے لگے تو یہ بہتری کی بات نہیں اسی کو فرمایا چلو بہتر بات پر جو تمہارے اوپر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتری ہے۔ (1 ؎ صحیح بخاری باب قولہ یعبادی الذین اسر فوا علی انفسھم الایۃ ص 710 ج 2۔ ) (2 ؎ بحوالہ تفسیر ابن کثیر ص 58 ج 4۔ ) (1 ؎ تفسیر ہذا جلد ہذا ص 53۔ )
Top