Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Fath : 19
وَّ مَغَانِمَ كَثِیْرَةً یَّاْخُذُوْنَهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا
وَّمَغَانِمَ : اور غنیمتیں كَثِيْرَةً : بہت سی يَّاْخُذُوْنَهَا ۭ : انہوں نے وہ حاصل کیں وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَزِيْزًا : غالب حَكِيْمًا : حکمت والا
اور بہت سی غنیمتیں جو انہوں نے حاصل کیں اور خدا غالب حکمت والا ہے
19۔ اللہ کے نزدیک اس صلح میں بڑی مصلحتیں تھیں جن مصلحتوں کے سمجھنے سے انسان کی عقل قاصر ہے علاوہ اور مصلحتوں کے یہ کتنی بڑی مصلحت تھی کہ اس صلح کی جو باتیں ظاہر میں مسلمانوں کو شاق اور گراں معلوم ہوئیں آخر کو انجام ان باتوں کا مسلمانوں کے حق میں بہت اچھا ہوا چناچہ صلح حدیبیہ کی یہ شرط کہ جو شخص مشرکوں کی طرف سے صلح کی مدت کے اندر مسلمان ہو کر مسلمانوں کی طرف چلا آئے گا وہ مشرکوں کے حوالہ کردیا جائے گا بڑی سخت اور ناگوار شرط مسلمانوں کو معلوم ہوتی تھی اور اس شرط کے موافق ابو جندل اور ابو بصیر کا مشرکوں کے حوالہ کرنا مسلمانوں کو ابتدا میں شاق گزرا لیکن جب ابو بصیر اور ابو جندل نے کچھ لوگ جمع کرکے مکہ اور شام کے راستہ میں ایک جنگل میں اپنا مقام ٹھہرا لیا اور قریش کے ملک شام جانے آنے والے قافلہ کو لوٹنا شروع کیا تو قریش بہت تنگ ہوئے اور ایک مدت تک ان کی تجارت بند ہوگئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس طرح ابتدا میں مسلمان اپنے حق میں اس شرط کو سخت گنتے تھے اس طرح قریش نے اپنے حق میں اس شرط کو سخت اور مضر گنا اور بڑی منت سے اس شرط کو منسوخ کیا اسی طرح اس صلح کی اور مصلحتیں بھی ہیں جن کی تفصیل حدیث کی کتابوں میں ہے انہیں مصلحتوں میں سے ایک یہ مصلحت تھی کہ اس صلح کے سفر میں بیعت رضوان کا موقع پیش آیا جس بیعت سے اللہ تعالیٰ خوش ہوا اور اللہ کے رسول نے بیعت کرنے والے لوگوں کو جتنی فرمایا۔ صحیح 4 ؎ مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر ہمیشہ آدمی کے دل پر رہتی ہے اگر خالص دل سے نیک کام کیا جائے تو وہ قابل اجر ٹھہرتا ہے ورنہ نہیں اس حدیث کو آیت کے ساتھ ملانے سے یہ تفسیر قرار پائی کہ بیعت کرنے والوں کے دلوں میں خالص دین کی مدد کا جوش تھا اس واسطے اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ مدد کی کہ ان کے دلوں میں تحمل پیدا کردیا جس سے وہ خلاف طبیعت شرائط صلح پر راضی ہوگئے اور ان کو اس صلح میں کچھ مال نہیں ملا تھا اس لئے اس کے معاوضہ میں خیبر کی فتح ہوجانے اور وہاں سے بہت سا لوٹ کا مال آنے کی تدبیر نکال دی ‘ آخر کو فرمایا اللہ اپنی حکمت اور تدبیر میں ایسا زبردست ہے جس سے تمام جہان کا کام چلتا ہے۔ اور کوئی اس کی تدبیر کے برخلاف کچھ کام نہیں کرسکتا۔ (4 ؎ صحیح مسلم باب تحریم ظلم المسلم الخ ص 317 ج 2۔ ) (4 ؎ صحیح مسلم باب تحریم ظلم المسلم الخ ص 317 ج 2۔ )
Top