Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Maaida : 100
قُلْ لَّا یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَ الطَّیِّبُ وَ لَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِیْثِ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۠   ۧ
قُلْ : کہدیجئے لَّا يَسْتَوِي : برابر نہیں الْخَبِيْثُ : ناپاک وَالطَّيِّبُ : اور پاک وَلَوْ : خواہ اَعْجَبَكَ : تمہیں اچھی لگے كَثْرَةُ : کثرت الْخَبِيْثِ : ناپاک فَاتَّقُوا : سو ڈرو اللّٰهَ : اللہ يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ : اے عقل والو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : تم فلاح پاؤ
کہہ دو کہ ناپاک چیزیں اور پاک چیزیں برابر نہیں ہوتیں گو ناپاک چیزوں کی کثرت تمہیں خوش ہی لگے۔ تو عقل والو خدا سے ڈرتے رہو تاکہ رستگاری حاصل کرو
تفسیر مقاتل بن سلیمان وغیرہ میں اس آیت کی شان نزول کی جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ قبیلہ ربیعہ میں کا ایک شخص شریح بن ہند آنحضرت ﷺ کے پاس مدینہ میں آیا اور آپ کی نصیحت سن کر کہنے لگا کہ آپ کی نصیحت تو اچھی ہے لیکن میری قوم میں کچھ رودار لوگ ہیں جن کے مشورہ کے بغیر میں کوئی کام نہیں کرتا میں اپنے وطن پہنچ کر ان سے مشورہ لوں گا اور ان کو بھی اسلام پر آمادہ کروں گا اور شاید تھوڑے دنوں کے بعد ہم سب آن کر داخل اسلام ہوجاویں گے۔ حدیث کی روایت میں اگرچہ ان مقاتل بن سلیمان کو بعض علماء نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن ایک جگہ اس تفسیر میں گذرچکا ہے کہ ان مقاتل کی تفسیر کو امام شافعی (رح) نے معتبر ٹھہرایا ہے۔ یہ تشریح آنحضرت ﷺ سے رخصت ہو کر جب اپنے وطن کو جانے لگا تو مدینہ کے جنگل میں سے مسلمان کے کچھ اونٹ ہانک کر اپنے ساتھ لے گیا اونٹوں کے لے جانے کی خبر سن کر اگرچہ چند صحابہ نے اس کا پیچھا کیا لیکن یہ ہاتھ نہ لگا۔ اس قصہ کے ایک سال کے بعد اس نے حج کے ارادہ سے سفر کیا اس کے ساتھ تجارت کا بہت سا مال تھا اور قربانی کے جانور بھی تھے۔ یہ ایک جگہ گذر چکا ہے کہ اسلام سے پہلے حج کے مشرک لوگ بھی پابند تھے شریح کے اس سفر کا حال سن کر مسلمانوں نے شریح پر حملہ کرنے اور اس کا مال لوٹ لینے کی درخواست آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کی آپ نے یہ جواب دیا کہ جبکہ شریح کا قصد حج کا ہے اور قربانی کے جانور بھی اس کے ساتھ ہیں تو اس پر حملہ کرنا جائز نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے اس جواب کی تائید میں یہ آیت نازل فرمائی 3 ؎۔ حاصل معنی آیت کے ہیں کہ یہ طریقہ مال کے ناجائز طور پر کمانے کا ہے اور ناجائز بہت سا مال جائز طور کے تھوڑے سے مال کی بھی برابری نہیں کرسکتا۔ صحیح بخاری مسلم نسائی ترمذی وغیرہ میں ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ ناجائز طریقہ سے کمائے ہوئے مال میں سے جو شخص کچھ صدقہ خیرات کرے وہ صدقہ بار گاہ الٰہی میں بالکل نامقبول ہے 1 ؎۔ صحیح مسلم ترمذی میں ابوہریرہ ؓ کی دوسری حدیث ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ جو کوئی ناجائز طور پر کسی کا کچھ مال دنیا میں لے لیوے گا تو عقبیٰ میں اس کی اسی قدر نیکیوں سے اس مال کا معاوضہ مالک کو دلوایا جاوے گا 2 ؎۔ یہ حدیثیں گویا اس آیت کی تفسیر ہیں کیونکہ ان حدیث سے یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ بہت سا ناجائز طریقہ کا کمایا ہوا مال جائز طور کے کمائے ہوئے تھوڑے سے مال کی برابر اس سبب سے نہیں کرسکتا کہ دنیا میں یہ ناجائز مال کی نیک کام میں کار آمد نہیں ہوسکتا اور عقبیٰ میں اسی مال کی بدولت بہت سی نیکیاں برباد ہوجاویں گی اس واسطے پہلے فرمایا کہ ہر ایماندار شخص کو ناجائز کمائی سے بچنا اور خدا سے ڈرنا چاہیے کہ ایماندار شخص کی نجات کی صورت یہی ہے۔
Top