Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Maaida : 15
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَكُمْ كَثِیْرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ١ؕ۬ قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ
يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب قَدْ جَآءَكُمْ : یقیناً تمہارے پاس آگئے رَسُوْلُنَا : ہمارے رسول يُبَيِّنُ : وہ ظاہر کرتے ہیں لَكُمْ : تمہارے لیے كَثِيْرًا مِّمَّا : بہت سی باتیں جو كُنْتُمْ : تم تھے تُخْفُوْنَ : چھپاتے مِنَ الْكِتٰبِ : کتاب سے وَيَعْفُوْا : اور وہ درگزر کرتا ہے عَنْ كَثِيْرٍ : بہت امور سے قَدْ جَآءَكُمْ : تحقیق تمہارے پاس آگیا مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے نُوْرٌ : نور وَّ : اور كِتٰبٌ : کتاب مُّبِيْنٌ : روشن
اے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارے پیغمبر (آخرالزّماں) آگئے ہیں کہ جو کچھ تم کتاب (الہٰی) میں سے چھپاتے تھے وہ اس میں سے بہت کچھ تمہیں کھول کھول کر بتا دیتے ہیں اور تمہارے بہت سے قصور معاف کردیتے ہیں۔ بیشک تمہارے پاس خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے۔
(15 ۔ 16) ۔ ابن جریر نے اپنی تفسیر میں عکرمہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے رجم کی آیت تورات میں ہے جب یہود کو بتلائی جس کو وہ چھپاتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی 1 ؎۔ صحیح بخاری و مسلم اور مسند امام احمد میں عبد اللہ بن عمر ؓ وغیرہ سے اس قصہ کے باب میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ یہود بیا ہے ہوئے ایک عورت اور مرد کو آنحضرت ﷺ کے پاس لائے جس مرد و عورت نے بدکاری کی تھی آپ نے ان یہودیوں سے پوچھا کہ تورات میں ایسے مرد و عورت کے لئے کیا حکم ہے ان یہودیوں نے جواب دیا کہ تورات کے حکم کے موافق ہم تو ایسے مردو عورت کا کالامنہ کر کے انہیں بستی میں پھراتے ہیں آپ نے فرمایا یہ سزا تو رات کے حکم کے موافق نہیں ہے تم جھوٹے ہو۔ لاؤ تورات اس میں تو ایسے لوگوں کے سنگ سار کرنے کا حکم ہے۔ آخر تورات لائی گئی اور ایک شخص ابن صوریا تورات پڑھنے کے لئے آیا ابن صوریا نے پہلے تو رجم کی آیت کو اپنے ہاتھ کے نیچے ڈھانک لیا پھر جب اس کا ہاتھ اٹھایا گیا تو وہ رجم کی آیت نکلی اور اس مردو عورت کو کو سنگسار کیا گیا 2 ؎۔ رجم کے معنی سنگ سار کرنے کے ہیں۔ اس قصہ میں آنحضرت ﷺ کا یہ بڑا معجزہ ہے کہ آپ نے تورات کے بغیر پڑھے تورات کا وہ صحیح مسئلہ بتلادیا جس کہ یہود نے بد ل ڈالا تھا ویعفوعن کثیر اس کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ خود بدکار مرد اور عورت کو اللہ کے رسول کے روبرولائے تو اللہ کے رسول نے جو حق بات تھی وہ بتلا دی ورنہ تم رشوت لے کر روز اپنی قوم کے جاہل لوگوں کو غلط مسئلے بتلاتے ہو تو اللہ کے رسول اس کا حال سن کر بلا ضرورت تم سے اس میں کچھ بحث نہیں کرتے اب آگے فرمایا کہ اسلام کی روشنی دے کر اور قرآن کو راہبر ٹھہرا کر نبی آخر الزمان کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے بھیجا کہ ملت ابراہیمی میں مشرکین مکہ نے اور شریعت موسوی اور عیسوی میں اہل کتاب نے ایام جاہلیت کا جو اندھیرا پھیلا رکھا ہے اسلام کی روشنی کی مدد سے لوگ اس اندہیرے سے نکل کر نجات کے کے سیدھے راستہ پر آجائیں کیوں کہ دنیا کے ہر ایک دور کے لئے اللہ تعالیٰ نے نجات کا ایک طریقہ ٹھیرایا ہے اس آخری دور کیلئے سو اس طریقہ کے جو بیان کیا گیا اور کوئی طریقہ دنیا میں نہیں ہے۔ اگرچہ اہل کتاب کی کتابوں میں بھی اس طریقہ کا ذکر ہے لیکن ان لوگوں نے اپنی کتابوں کی اس قسم کی آیتوں کے لفظ اور معنوں کو بدل ڈلا ہے۔ اس واسطے قرآن کے ذریعے سے انہیں ان کے کرتوت جتلائے گئے ہیں۔ اگر یہ لوگ قرآن کی نصیحت مان لیویں گے تو اس میں ان کا ہی بھلا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کی ابوہریرہ ؓ کی حدیث گزر چکی ہے۔ جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں لوگوں کو دوزخ کی آگ سے بچانے کی کوشش کرتا ہوں لیکن لوگ اس میں گرنے کی ایسی کوشش کرتے ہیں جس طرح کیڑے پتنگے روشنی پر گرتے ہیں 1 ؎۔ یہ حدیث آیت کے آخری ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے۔
Top