بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - An-Najm : 1
وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰىۙ
وَالنَّجْمِ : قسم ہے تارے کی اِذَا هَوٰى : جب وہ گرا
تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے
1۔ 30۔ تاروں کے ڈوبنے کے وقت کی قسم میں جو کچھ قدرت کا بھید ہے وہ تو اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے لیکن اتنا تو ظاہر ہے کہ جس طرح انسان کا سونا جاگنا ‘ ہر سال کھیتیکا کٹ جانا اور اسی بیج سے دوسرے سال پھر پیداوار کا ہوجانا وغیرہ ‘ جہاں یہ سب چیزیں اللہ کی قدرت اور حشر کا نمونہ ہیں اسی طرح تاروں کا وقت مقررہ پر نکلنا اور وقت مقررہ پر چھپ جانا یہ بھی اسی کی قدرت اور حشر کا ایک نمونہ ہے۔ چناچہ سورة انعام میں گزر چکا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اسی نمونہ سے اللہ تعالیٰ کو پہنچانا۔ ضال وہ شخص ہے جو جہل کے سبب سی بہکا ہوا ہو بےراہ وہ جو جان بوجھ کے حق بات کو چھوڑ دے۔ آنحضرت ﷺ ان ہی اہل مکہ میں پلے ‘ بڑے ہوئے اور نبوت سے پہلے اہل مکہ آپ پر دیوانگی یا جھوٹ کا کوئی الزام نہیں لگاتے تھے۔ اسی واسطے فرمایا کہ ہی اللہ کے رسول ﷺ جو تم لوگوں کے ہمیشہ کے رفیق ہیں اور تم کو ان کا حال ہر طرح سے خوف معلوم ہے۔ نہ وہ دیوانے ہیں نہ ملت ابراہیمی سے کچھ بےراہ ہوئے ہیں نہ اپنی ذاتی غرض سے انہوں نے خود یہ قرآن بنایا ہے بلکہ آسمانی وحی کے ذریعہ سے اللہ کا جو حکم ان کو پہنچا ہے وہی تم کو وہ سنا دیتے ہیں۔ اب بعد اس کے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کا حال فرمایا کہ وہ بڑے صاحب قوت ہیں۔ ان کی قوت کے سبب سے وحی کے لانے اور اللہ کے رسول تک پہنانے میں شیطان کا کچھ دخل نہیں ہے کیونکہ جبرئیل (علیہ السلام) کی قوت سے شیطان ڈرتا ہے۔ چناچہ سورة انفال میں گزر چکا ہے کہ بدر کی لڑائی کے وقت پہلے تو شیطان سراقہ بن مالک کی صورت میں مشرکین کے لشکر میں موجود رہا۔ جب لشکر اسلام کی مدد کو فرشتے آئے اور شیطان نے جبرئیل ﷺ کو پہچانا تو بھاگ گیا۔ قوم لوط کے قصے میں حضرت جبرئیل ﷺ (علیہ السلام) کی قوت کا ذکر گزر چکا ہے کہ انہوں نے قوم لوط کے لاکھوں آدمیوں کے رہنے کی چار بستیاں اپنے ایک پر پر اٹھا کر آسمان تک ان کو بلند کیا اور پھر ان کو الٹ دیا۔ آنحضرت ﷺ نے جبرئیل ﷺ (علیہ السلام) کو ان کی اصلی صورت میں دو دفعہ دیکھا ہے۔ ایک دفعہ شروع نبوت میں جو وحی کے رک جانے کا زمانہ تھا اور دوسری دفعہ معراج کی رات سدرۃ المنتہیٰ کے پاس ان دونوں دفعہ کا ذکر ان آیتوں میں ہے پہلی دفعہ کے دیکھنے اور دوسری دفعہ کے دیکھنے میں دس برس کے قریب کا آگا پیچھا ہے۔ اذا الشمس کورت معراج سے پہلے نازل ہوئی ہے اسی لئے اس میں فقط پہلی دفعہ کے دیکھنے کا مختصر قصہ یہ ہے کہ اقراء کی اول آیتیں مالم یعلم تک نازل ہونے کے بعد تین برس کے قریب تک وحی بند رہی جس کا آنحضرت ﷺ کو بڑا رنج تھا۔ اس رنج کے زمانہ میں آپ نے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کو اصلی صورت میں آسمان کے مشرقی کنارے پر دیکھا۔ مشرقی کنارہ آسمان کا وہ ہے جہاں سے سورج نکلتا ہے۔ یہ کنارہ اس کنارے سے بلند ہے جہاں سورج غروب ہوتا ہے اس لئے اس کو اونچا کنارہ فرمایا۔ صحیح 1 ؎ مسلم میں جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے وحی کے رک جانے کے تذکرہ میں فرمایا کہ اسی زمانہ میں پہلے جو فرشتہ میرے پاس مقام حرا میں آیا تھا اسی کو میں نے زمین اور آسمان کے مابین میں ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے دیکھا جس سے میں ڈر کر زمین پر گر پڑا۔ ایک دفعہ دو تین دن کے لئے وحی اور بھی رک گئی ہے جس کے بعد سورة والضحیٰ نازل ہوئی ہے وہ وحی کا رکاؤ اس کے علاوہ ہے بعض راویوں کو ان دونوں رکاؤ میں دھوکا ہوگیا ہے۔ صحیح 2 ؎ بخاری و مسلم میں عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے جبرئیل (علیہ السلام) کو اصلی صورت میں دیکھا تو حضرت جبرئیل کے چھ سو پر تھے۔ فاستویٰ وھو بالافق الاعلیٰ کا مطلب وہی ہے جو جابر بن عبد اللہ کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے زمین و آبمان کے مابین میں آسمان کے مشرقی کنارہ پر جبرئیل (علیہ السلام) کو ایک کرسی پر سیدھا بیٹھے دیکھا۔ ثم دنی فتدلی فکان قاب قوسین ادادنی فاوحی الی عبدہ ما اوحی کا مطلب قتادہ وغیرہ مفسرین 3 ؎ کے مشہور قول کے موافق یہ ہے کہ جبرئیل (علیہ السلام) آدمی کی صورت میں اس آسمان کے مشرقی کنارہ سے اتر آئے اور زمین پر اتر کر آنحضرت ﷺ کے ایسے نزدیک آگئے کہ فقط دو گز یا اس سے بھی کم کا فرق رہ گیا اور پھر آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق وحی پہنچائی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کے قول کے موافق جس کو ابن مردویہ 1 ؎ نے اپنی تفسیر میں معتبر سند سے روایت کیا ہے۔ یہاں قاب کے معنی مقدار کے ہیں اور قوس کے معنی گزر کے۔ بعض مفسروں نے آیت کی تفسیر یوں کی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ سے ایسا نزدیک ہوا کہ فقط دو گز یا اس سے بھی کم کا فرق رہ گیا۔ یہ تفسیر ابن مالک کی اس حدیث کی بنا پر ہے۔ جو صحیح بخاری 2 ؎ و مسلم میں شریک بن عبد اللہ کی روایت سے ہے لیکن زہری قتادہ وغیرہ ثقہ لوگوں نے انس بن مالک کی شریک بن عبد اللہ کی روایت کے برخلاف روایت کیا ہے اس لئے شریک بن عبد اللہ کی روایت کی صحت میں علماء کو کلام ہے ماکذب الفواد مارای کا مطلب حضرت 3 ؎ عبد اللہ بن عباس کے قول کے موافق یہ ہے کہ جس طرح آنحضرت ﷺ نے ظاہری آنکھوں سے دو دفعہ جبرئیل (علیہ السلام) کو دیکھا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے دل میں ایک قوت بصارت جو پیدا کی تھی اس دل کی بصارت سے آپ نے اللہ تعالیٰ کو دو دفعہ دیکھا اب تم کیا اس سے جھگڑتے ہو اس پر جو اس نے دیکھا اس کا مطلب یہ ہے کہ معراج سے پہلے آنحضرت ﷺ نے جو جبرئیل (علیہ السلام) کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا تھا اس کا اور معراج کا مشرکین مکہ انکار کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے ان مشرکین کی تنبیہ فرمائی کہ بیت المقدس کی جن چیزوں کا حال تم لوگوں نے پوچھا اللہ کے رسول نے وہ سب حال تم سے صحیح صحیح بیان کردیا جس کو تم لوگ جھٹلا نہ سکے۔ پھر اللہ کے رسول اللہ کی قدرت سے عادت کے خلاف جس طرح ایک دم میں بیت المقدس پہنچ گئے اور بیت المقدس کی سب چیزوں کو دیکھا اسی طرح اس رات میں آسمان کے عجائبات بھی انہوں نے دیکھے۔ ان کی دیکھی ہوئی چیزوں کو اوپری باتوں کے جھگڑے نکال کر جو تم لوگ جھٹلاتے ہو یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ بیت المقدس کی حالت نے تمہاری سب اوپری باتوں کی جڑ اوکھیڑ دی ہے اب تمہارا کیا منہ ہے کہ تم دیکھی ہوئی باتوں کے مقابلہ میں اوپری باتوں سے جھگڑا نکال سکو صحیح مسلم 4 ؎ میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا معراج کی اور باتوں کی تصدیق کے لئے اپنی دیکھی ہوئی بیت المقدس کی چند چیزوں کا حال جب قریش نے مجھ سے پوچھا تو مجھ کو اس بات کا خیال ہوا کہ صرف معراج کی رات ایک ہی دفعہ میں نے بیت المقدس کو دیکھا ہے اور یہ لوگ بارہا ادھر کا سفر کرچکے ہیں ایسا نہ ہو کہ میری یاد میں اور ان کے دیکھنے میں اختلاف پڑجائے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے اس وقت بیت المقدس کو مرنی نظروں کے سامنے کردیا اور میں نے قریش کی سب باتوں کا جواب اس طرح دے دیا کہ وہ کسی بات کو جھٹلا نہ سکے۔ اس آیت میں قریش کے قائل کرنے کا مختصر جو ذکر ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے۔ بیت المقدس کی حالت کی تصدیق کے بعد اہل مکہ کو معراج کی باتوں کے جھٹلانے کا موقع باقی نہ رہا تھا اس لئے معراج کی رات آنحضرت ﷺ نے سدرۃ المنتہیٰ کے پاس جبرئیل (علیہ السلام) کو ان کی اصلی صورت میں جو دیکھا تھا اس کا ذکر فرمایا تاکہ اہل مکہ جان لیں کہ جس طرح معراج کی رات کا جبرئیل (علیہ السلام) کا دیکھنا ہے ویسا ہی اس سے پہلے کا ہے۔ سدرۃ المنتہیٰ کا یہ نام پرلی حد کی بیری اس لئے قرار پایا کہ اس بیری کی پرلی طرف کا حال کسی کو معلوم نہیں۔ فرشتوں کی معلومات کی یہ بیری کا پیڑ گویا حد ہے اکثر روایتوں کے موافق یہ بیری کا پیڑ ساتویں آسمان پر ہے۔ بعضی روایتوں میں چھٹے آسمان پر جو اس کا ذکر ہے۔ بعض علماء نے تو اس کو راوی کا سہو بتایا ہے۔ بعضوں نے دونوں روایتوں میں یوں مطابقت کی ہے کہ اس کی جڑ چھٹے آسمان پر ہے اور ٹہنیاں ساتویں آسمان پر ہیں۔ ماویٰ رہنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس جو جنت ہے وہ جبرئیل (علیہ السلام) کے رہنے کی جگہ ہے اور شہیدوں کی روحیں بھی اسی میں رہتی ہیں اس لئے اس جنت کا نام جنت الماوی ہے اس بیری کے پیڑ پر طرح طرح کے رنگ تھے ان کو تو آپ نے فرمایا مجھے معلوم نہیں وہ کیا رنگ اور کس چیز کے تھے۔ اس بیری پر جو کچھ چھا رہا تھا اس کو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ ایک طرح کے سنہری جانور اور فرشتے تھے پھر فرمایا اللہ کے حکم سے جن چیزوں نے اس بیری کے درخت کو ڈھانک رکھا ہے اور اس ڈھانکنے سے جو زینت اور خوبی اس بیری کے پیڑ میں پیدا ہوگئی ہے اس کا بیان کرنا انسان کی طاقت سے باہر ہے یہ سب باتیں اس بیری کے متعلق صحیح 1 ؎ حدیثوں میں ہیں اور وہ حدیثیں آیت کی گویا تفسیر ہیں آگے آنحضرت ﷺ کے استقلال کا ذکر فرمایا ہے کہ اگرچہ آپ ﷺ نے آسمانوں پر جنت و دوزخ اور بہت سے عجائبات دیکھے مگر اصلی خیال آپ ﷺ کا رسالت کے کام کی طرف متوجہ رہا۔ اس لئے ان عجائبات کی طرف آپ ﷺ کی نظر زیادہ مائل نہیں ہوئی۔ چناچہ جو توجہ آپ ﷺ نے 45 نمازوں کے معاف کرانے میں حضرت موسیٰ کے مشورہ کے موافق مصروف کی وہ توجہ عجائبات کے دیکھنے میں نہیں کی اب جن مفسروں نے یہ لکھا ہے کہ معراج کی رات آنحضرت ﷺ نے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا ‘ یہ حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے لیکن حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت اس کے مخالف ہے وہ یہ فرماتے ہیں کہ اس سورة میں خود اللہ تعالیٰ کے دیکھنے کا ذکر ہے۔ امام نووی 1 ؎ اور امام حافظ ابن حزیمہ ؓ وغیرہ نے حضرت عائشہ ؓ کے قول پر یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے کوئی مرفوع حدیث اس باب میں اپنے قول کی تائید میں ذکر نہیں کی۔ اسی واسطے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے قول کے مقابلہ میں حضرت عائشہ ؓ کا قول مقبول نہیں ہوسکتا کیونکہ تفسیر کے باب میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے قول کا زیادہ اعتبار ہے۔ حافظ ابن حجرنے فتح الباری میں امام نووی کے اس اعتراض پر بڑا تعجب ظاہر کیا ہے اور حقیقت میں تعجب کی بات ہے کہ خود صحیح مسلم میں حضرت عائشہ ؓ کی روایت کی مرفوع حدیث موجود ہے اور امام نووی نے اس حدیث کی شرح بھی کی ہے جس حدیث کا حاصل 3 ؎ یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں امت کے سب لوگوں سے پہلے میں نے ہی آنحضرت ﷺ سے اس مسئلہ کو پوچھا اور آنحضرت نے فرمایا کہ حضرت جبرئیل کو جو میں نے اصلی صورت میں دیکھا سورة نجم میں اسی کا ذکر ہے پھر باوجود اس کے امام نووی نے حضرت عائشہ ؓ کے قول پر یہ اعتراض کیا ہے کہ حضرت عائشہ سے کوئی مرفوع روایت اس باب میں نہیں ہے۔ یہی وجہ حافظ ابن حجر کے تعجب کی ہے۔ حافظ ابن حجر نے حضرت عائشہ اور حضرت عبد اللہ بن عباس کے قولوں کے اخلاف کو یوں رفع کردیا ہے کہ صحیح 4 ؎ مسلم وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے جو روایتیں ہیں۔ ان میں انہوں نے صاف بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے دل میں ایک قوت بصارت پیدا کی تھی اس سے آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا اس سے معلوم ہوا کہ دنیا کی معمولی آنکھوں سے آنحضرت ﷺ کے اللہ تعالیٰ کے نہ دیکھنے میں حضرت عائشہ ؓ اور عبد اللہ بن عباس ؓ دونوں متفق ہیں۔ رہا خاص معراج کی رات آنحضرت ﷺ کا اللہ تعالیٰ کو ظاہری آنکھوں سے دیکھنا ‘ یہ اکثر سلف کی روایتوں سے نہیں پایا جاتا۔ حافظ ابن قیم نے زادا المعاد میں اس مسئلہ کا یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس سورة میں جبرئیل (علیہ السلام) کی قربت اور رویت کا ذکر ہے لیکن معراج کی حدیثوں میں اللہ تعالیٰ کی قربت اور رویت کا ذکر ہے۔ معراج کی حدیثیں سورة بنی اسرائیل میں گزر چکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے معراج کا اور معراج کی رات آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی طرح طرح کی نشانیاں جو دیکھیں اس کا ذکر فرمایا اور پھر قریش میں کے بت پرست لوگوں کی بتوں کی مذمت فرمائی اور فرمایا اللہ کے رسول جو نصیحت کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی وحی اور اللہ کے حکم کے موافق ہے۔ اللہ کے حکم میں کہیں بت پرستی کی اجازت نہیں ہے۔ شیطان کے بہکانے سے ان بت پرستوں نے یہ بت پرستی اپنی طرف سے تراش لی ہے۔ پھر آخر کو نتیجہ کے طور پر یہ فرمایا کہ ان لوگوں کی دانائی کا یہ حال ہے کہ اللہ کے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتاتے ہیں اور جس خدا نے سب کچھ پیدا کیا اس خدا کی عبادت میں اپنے ہاتھ کے بنائے ہوئے بتوں کو شریک کرتے ہیں اور اگرچہ آسمانوں کا حال ان کو معلوم نہیں لیکن جب اللہ کے رسول ﷺ نے تفصیلی حال معراج اور آسمانوں کا بیان کیا تھا تو ان کو عقل دوڑانی چاہئے تھی کہ بغیر تائید غیبی کے اس طرح غیب کا حال کون بیان کرسکتا ہے لیکن بجائے اس عقل دوڑانے کے انہوں نے یہ کیا کہ ملک شام اور مسجدیت المقدس کی جو چیزیں ان لوگوں کی دیکھی ہوئی تھیں اور اللہ کے رسول نے معراج کے سفر میں سے ان چیزوں کا مفصل حال ان لوگوں سے بیان کردیا جب بھی ان لوگوں نے نافہمی سے معراج کو سچا نہ جانا اور طرح طرح کے وہم اور گمان کے شبہات اس میں نکالتے رہے آخر کو فرمایا کہ راہ پر آنے والوں کو اور گمراہ ہونے والوں کو اللہ خوب جانتا ہے یہ لچھن ان لوگوں کی گمراہی کے ہیں۔ اے رسول اللہ کے تم کو ان لوگوں کی باتوں کا کچھ خیال نہ کرنا چاہئے۔ یوں تو مکہ میں کچھ اوپر تین سو بت تھے جن کی پوجا ہوتی تھی لیکن جن تین بتوں کا نام ان آیتوں میں ہے یہ زیادہ مشہور تھے اس لئے ان ہی کا ذکر فرمایا جس میں یہ تنبیہ ہے کہ اللہ کی قدرت کی تو سینکڑوں نشانیاں اللہ کے رسول ﷺ نے آسمانوں پر معراج میں دیکھیں اور ہزاروں نشانیاں زمین پر سب کی آنکھوں پر سب کی آنکھوں کے سامنے ہیں۔ ان بتوں نے کیا پیدا کیا جو یہ بت پرست لوگ ان بتوں کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں اول تو مشرکین مکہ قیامت کے قائل ہی نہ تھے لیکن قیامت کا قدیم ہونا فرضی طور پر مان کر یہ کہتے تھے کہ اگر قیامت قائم ہوئی بھی تو جن بتوں کو ہم پوجتے ہیں یہ نیک لوگوں کی مورتیں ہیں وہ نیک لوگ ہماری شفاعت کرکے ہم کو دوزخ کے عذاب سے چھڑا لیں گے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا انسان تو انسان اللہ کے فرشتے جو ہر وقت اللہ کی جناب میں حاضر رہتے ہیں ‘ وہ بھی مشرک کی شفاعت نہیں کرسکتے کیونکہ شفاعت کے لئے اللہ کی اجازت ضروری ہے۔ مشرک کی شفاعت کے لئے اللہ کی اجازت ممکن نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ صاف فرما چکا ہے کہ جو مشرک بغیر توبہ کے مرجائے گا اس کی بخشش نہ ہوگی۔ (1 ؎ صحیح بخاری باب قتل ابی جھل ص 566 ج 2۔ ) (1 ؎ صحیح مسلم باب بدا الوحی الی رسول اللہ ﷺ ص 90 ج 1۔ ) (2 ؎ صحیح مسلم باب ولقد راہ نزلۃ اخری الخ ص 97 ج 1 و صحیح بخاری تفسیر سورة النجم ص 730 ج 2۔ ) (3 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 249 ج 4۔ ) (1 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 123 ج 6۔ ) (2 ؎ صحیح بخاری باب قول اللہ وکلم اللہ موسیٰ تکلیما ص 1120 ج 2۔ ) (3 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 249 ج 4 و صحیح مسلم باب ولقد راہ نزلۃ اخریٰ ص 98 ج 1۔ ) (4 ؎ صحیح مسلم باب الاسرا برسول اللہ ﷺ الخ ص 96 ج 1۔ ) (1 ؎ صحیح مسلم باب الاسراء برسول اللہ ﷺ ص 91 ج 1 و باب ولقد راہ نزلۃ اخری ص 197 ج 1 و صحیح بخاری باب المعراج ص 549 ج 1۔ ) (1 ؎ صحیح مسلم مع شرح نودی ص 97 ج 1۔ ) (3 ؎ صحیح مسلم باب ولقد راہ نزلۃ اخری ص 98 ج 1۔ ) (4 ؎ صحیح مسلم باب ولقد راہ نزلۃ اخری ص 98 ج 1۔ )
Top