بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Mazhari - An-Najm : 1
وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰىۙ
وَالنَّجْمِ : قسم ہے تارے کی اِذَا هَوٰى : جب وہ گرا
تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے
و النجم اذا ھوٰی . قسم ہے (مطلق) ستارے کی جب وہ غروب ہونے لگے۔ والبی اور عوفی کی روایت ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : جب ثریا گرجائے (غائب ہوجائے) ھوٰی کا معنی ہے غائب ہوجانا۔ عرب ثریا کو النجم کہتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ کی مرفوع روایت ہے (کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا) زمین پر جو آفت ارضی (کیڑے مکوڑے وغیرہ) ہوتی ہے۔ نجم یعنی ثریا کے نکلنے ہی وہ جاتی رہتی ہے۔ (رواہ البغوی) امام احمد کی روایت میں ہے ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی (ارضی) آفت برپا ہو اور نجم صبح کو نکلے اور وہ آفت دور نہ کردی گئی ہو یا ہلکی نہ کردی گئی ہو۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ مجاہد نے کہا آسمان کے سب ستارے مراد ہیں۔ النجم میں الف لام جنسی ہے (نجم کا معنی ہے برآمد ہونا) برآمد ہونے کی وجہ سے ہی ستاروں کو نجم کہا جاتا ہے۔ ہر برآمد ہونے والی چیز نجم ہے۔ کہا جاتا ہے : نجم السن دانت برآمد ہوا۔ قرآن اور سنت کے بھی نجوم ہوتے ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : رجوم الشیٰطین : یعنی شیطان جو عالم بالا کی باتیں سننے کے لیے اوپر جاتے ہیں ان پر ا (نگاروں کی طرح پڑنے والے) تارے ہی ہوتے ہیں۔ ابو حمزہ ؓ نے کہا : آیت میں وہ ستارے مراد ہیں جو قیامت کے دن جھڑ جائیں گے ‘ بکھر جائیں گے۔ عطاء کی روایت میں حضرت ابن عباس کا قول آیا ہے کہ النجم سے قرآن مراد ہے کیونکہ 23 برس میں قرآن تھوڑا تھوڑا کر کے اتارا گیا۔ تَنْجِیْم کا معنی ہے تفریق۔ کلبی نے کہا : ھوٰی کا معنی ہے اوپر سے نیچے اترنا۔ اخفش نے کہا : نجم اس پودے کو کہتے ہیں جس میں تنہ نہ ہو یعنی بیل۔ اللہ نے فرمایا ہے : وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدَان اور ھوٰی کا معنی ہے زمین پر گرنا۔ امام جعفر صادق نے فرمایا : آیت میں رسول اللہ ﷺ مراد ہیں جب شب معراج میں آسمان سے نیچے اترے تھے۔ ھوٰی کا معنی ہے اترنا۔ بعض علماء نے کہا : النجم سے مراد ہے مسلمان اور ھوٰی سے مراد ہے اس کا قبر میں دفن ہونا۔ نجم کے وقت ہو یٰ کو قسم کے لیے اس وجہ سے مخصوص کیا کہ یہ وقت نجم کے اوقات میں سب سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے ‘ جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ 1) اگر نجم سے مراد ثریا یا عام ستارے ہوں اور ہویٰ سے مراد ہو ستاروں سے شعلہ نکلنا اور شیطانوں پر انگارے پڑنا تو ظاہر ہے کہ نجوم کی پیدائش کی اصل غرض رجم الشیطان ہی ہوگی اور اگر ہویٰ سے مراد قیامت کے دن ستاروں کا بکھرنا اور جھڑنا مراد ہو تو تکمیل مقصد یعنی ستاروں کے گرنے کا وہی وقت ہوگا اور اگر ہویٰ سے غروب نجم مراد ہو تو ظاہر ہے کہ ستاروں کا چھپنا اور غروب ہونا وجود صانع کا واضح ثبوت ہے۔ اسی وجہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ستاروں کے ڈوبنے اور چاند ‘ سورج کے غروب ہونے سے صانع برتر کی ہستی پر استدلال کیا تھا اور کہا تھا : لَا اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ ۔ 2) اور اگر نجم سے نجم القرآن اور ہویٰ سے نزول مراد ہو تو یقینی امر ہے کہ نزول قرآن لوگوں کی ہدایت کے لیے ہوا اور اگر نجم سے رسول اللہ ﷺ کی مبارک شخصیت اور ہویٰ سے مراد شب معراج میں آپ ﷺ کا آسمان سے نیچے اترنا ہو تو ناقابل شک ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ عروج کے بعد آپ ﷺ کا ہدایت خلق کے لیے نیچے اترنا اللہ کا بڑا احسان اور انعام ہے ‘ جس کی کوئی مثال نہیں۔ 3) اور اگر نجم سے مسلمان اور ہویٰ سے مراد قبر میں دفن کیا جانا ہو تو بلاشبہ ایمان اور اعمال صالحہ کے ساتھ شیطانی اغواء اور نفسانی وسوسہ سے محفوظ رہ کر مسلمان کا مرنا اور دفن ہونا عظیم الشان نعمت خداوندی ہے۔
Top