Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hadid : 12
یَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ یَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ بِاَیْمَانِهِمْ بُشْرٰىكُمُ الْیَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُۚ
يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِيْنَ : جس دن تم دیکھو گے مومن مردوں کو وَالْمُؤْمِنٰتِ : اور مومن عورتوں کو يَسْعٰى نُوْرُهُمْ : دوڑتا ہے نور ان کا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ : ان کے آگے وَبِاَيْمَانِهِمْ : اور ان کے دائیں ہاتھ بُشْرٰىكُمُ الْيَوْمَ : (کہا جائے گا) خوشخبری ہی ہے تم کو آج کے دن جَنّٰتٌ : باغات ہیں تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ : ان کے نیچے سے نہریں خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۭ : ہمیشہ رہنے والے ہیں اس میں ذٰلِكَ : یہی هُوَ الْفَوْزُ : وہ کامیابی ہے الْعَظِيْمُ : بڑی
جس دن تم مومن مردوں اور مومن عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کے (ایمان) کا نور ان کے آگے آگے اور داہنی طرف چل رہا ہے (تو ان سے کہا جائے گا کہ) تم کو بشارت ہو (کہ آج تمہارے لئے) باغ ہیں جن کے تلے نہریں بہہ رہی ہیں ان میں ہمیشہ رہو گے یہی بڑی کامیابی ہے
12۔ 15۔ معتبر سند 3 ؎ سے طبرانی اور مستدرک حاکم میں عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا پل صراط پر گزرنے کے وقت اندھیرا ہوگا اس لئے ہر ایماندار مرد اور ورت کو ان کے عملوں کے موافق میدان محشر نور دے کر پل صراط پر گزرنے کا حکم ہوگا اور فرشتے ان کو پل صراط سے گزرتے ہی جنت میں داخل ہونے خوش خبری دیں گے۔ غرض اسی نور کا ذکر ان آیتوں میں ہے اور یہ حدیث اس کی تفسیر ہے۔ منافقوں کے دل میں نور ایمان نہیں ہے۔ اسی واسطے ان کو یا تو سرے سے نور نہ دیا جائے گا یا دیا جائے گا تو ایسا کہ جلدی سے بجھ جائے گا اس لئے کچھ دور تک تو یہ منافق لوگ ایماندار لوگوں کے نور کی جھلک میں راستہ چلیں گے۔ پھر ایمانداروں کے سواریوں پر اور ان کے پیدل ہونے کے سبب سے جب یہ منافق لوگ اندھیرے میں پیچھے رہ جائیں گے تو اس وقت یہ منافق لوگ ایمانداروں سے کہیں گے ذرا ٹھہر جاؤ تاکہ تمہاری روشنی سے بھی کچھ جھلک پا کر اس اندھیرے کو طے کرلیں فرشتے ان منافقوں کو جھڑک کر جواب دیں گے کہ پیچھے پلٹ جاؤ اور وہاں روشنی تلاش کرو۔ فرشتوں کے اس جواب کے دو مطلب ہیں۔ ایک تو یہ کہ پلٹ کر میدان محشر میں جاؤ۔ جہاں سب کو نور ملا ہے۔ دوسرا مطلب یہ کہ پلٹ کر دنیا میں جاؤ اور نفاق سے توبہ کرو جب کچھ نور ملے۔ فرشتوں کا یہ جواب ایک جھڑکی کے طور پر ہوگا ورنہ انکو معلوم ہے کہ میدان محشر میں اب کچھ نور مل سکتا ہے نہ دوبارہ دنیا میں جانا ہوسکتا ہے۔ یہ باتیں ہو ہی رہی ہوں گی کہ اتنے میں ایماندار لوگوں اور منافقوں کے درمیان میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے دیوار کھڑی کردی جائے گی۔ جس کے پرلی طرف جنت ہوگی اور ورلی طرف جہنم بعض سلف کا قول ہے کہ یہ دیوار وہی اعراف ہے جس کا ذکر سورة اعراف میں گزرا۔ اس دیوار کے حائل ہوجانے کے وقت منافق لوگ ایماندار لوگوں سے پکار کر کہیں گے کہ اس وقت ہمارا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہئے کیونکہ دنیا میں تم ہمارے ساتھی تھے۔ اس کے جواب میں ایماندار لوگ کہیں گے کہ تم اوپری طور پر ہمارے ساتھ تھے دل سے تو تم بچلے ہوئے تھے اور اہل اسلام کی برائی چاہتے تھے۔ اور دین کی باتوں کی طرف سے ایک شک کی حالت میں پڑے ہوئے تھے اور طرح طرح کی بےاصل آرزؤں میں اپنی عمر گزارتے تھے مثلاً یہ خیال کرتے تھے کہ اہل اسلام کو کافروں کے ہاتھ سے کچھ ضرور بھی پہنچا تو ہم امن میں رہیں گے کیونکہ ہمارا میل جول دونوں جانب سے ہے یہاں تک کہ اسی شیطانی بہکاوے میں تم مرگئے اس لئے آج تمہارا ٹھکانا دوزخ ہے جو بہت برا ٹھکانا ہے جس سے کچھ بدلہ دے کر بھی تمہارا چھٹکارا نہیں ہوسکتا۔ سورة آل عمران میں گزر چکا ہے کہ قیامت کے دن ساری زمین بھر کے برابر سونا بھی نجات کے لئے کافی نہ ہوگا مسند امام احمد صحیح بخاری 1 ؎ و مسلم وغیرہ میں صحابہ کی ایک جماعت سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ کلمہ گو آدمی خالص نیت سے ایک کھجور بھی اللہ کے نام پردے گا تو قیامت کے دن دوزخ کی آگ سے نجات پانے کے لئے تھوڑی سی خیرات بھی اس کے کام آئے گی۔ اس کا حاصل یہ نکلا کہ شرک و نفاق ایسی چیز ہے کہ اس کے سبب سے قیامت کے دن زمین بھر کے سونا بھی نجات کے لئے کارآمد نہیں اور توحید ایسی چیز ہے جس کے سبب سے قیامت کے دن ایک کھجور بھی نجات کے لئے کارآمد ہے۔ صحیح 1 ؎ حدیثوں میں آنحضرت ﷺ نے ریا کاری کو چھوٹا شرک فرمایا ہے اس لئے جس طرح آدمی کو شرک و نفاق سے بچنا چاہئے۔ اسی طرح ریا کاری سے بھی اسے بچنا چاہئے۔ (3 ؎ الترغیب و الترہیب فصل فی الحشر وغیرہ ص 748 ج 4۔ ) (1 ؎ صحیح بخاری باب اتقوا النار و لوبش ثمرۃ ص 190 ج 1 و صحیح مسلم باب الحث علی الصدقۃ ولو بشق تمرۃ ص 326 ج 1۔ ) (1 ؎ مشکوۃ شریف باب فی الریاء والسمعۃ فصل ثالث ص 456۔ )
Top