Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 142
وَ مِنَ الْاَنْعَامِ حَمُوْلَةً وَّ فَرْشًا١ؕ كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌۙ
وَ : اور مِنَ : سے الْاَنْعَامِ : چوپائے حَمُوْلَةً : بار بردار (بڑے بڑے) وَّفَرْشًا : چھوٹے قد کے / زمین سے لگے ہوئے كُلُوْا : کھاؤ مِمَّا : اس سے جو رَزَقَكُمُ : دیا تمہیں اللّٰهُ : اللہ وَلَا تَتَّبِعُوْا : اور نہ پیروی کرو خُطُوٰتِ : قدم (جمع) الشَّيْطٰنِ : شیطان اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكُمْ : تمہارا عَدُوٌّ : دشمن مُّبِيْنٌ : کھلا
اور چارپایوں میں بوجھ اٹھانے والے (یعنی بڑے بڑے) بھی پیدا کیے اور زمین سے لگے ہوئے (یعنی چھوٹے چھوٹے) بھی۔ (پس) خدا کا دیا ہوا رزوق کھاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو۔ وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔
سورة یسٰ میں آویگا اَوَ لم یَرَوُاَ نَّا خَلَقْنَا لَھُمِْ ممَّاعَمِلَتْ اَیْدِیْنَا اَنْعَامًا فَھُمْ لَھَا مَا لِکُوْنَ وَذَلَّلْنٰہَا لَھُمْ فَمِنْھَا رَکُوْ بُھُمْ وَ مِنْہَا یَاکلُوْنُ (36: 71۔ 72) سورة یس کی یہ آیت گویا اس میت کی تفسیر ہے حاصل مطلب ان دونوں آیتوں کا یہ ہے کہ بغیر کسی مدد اور شراکت کے اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر کے جانور دو فائدوں کے لئے پیدا کئے ہیں بعضے جانوروں سے سواری اور اسباب کی بار برداری کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور بعضوں کو ذبح کر کے ان کا گوشت کھایا جاتا ہے ذبح کرنے کے جانوروں کو زمین پر لٹا کر ذبح کیا جاتا ہے اس لیے ان کو فرش کی طرح دبے اور بچھے ہوئے جانور فرمایا حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن فائدوں کے لئے جانوروں کو پیدا کیا ہے ان مشرکوں نے ان فائدوں کو چھوڑ کر بعضے جانوروں کی سواری کو اور بعضوں کے گوشت کو اپنی طرف سے جو حرام ٹھہرایا ہے یہ شیطان کا بہکاوا ہے جس سے ہر آدمی کو پچنا چاہئے کیونکہ شیطان ہر آدمی کا کھلا کھلا بڑا دشمن ہے اور دشمن کے فریب سے بچنا ہر عقل مند کا کام ہے۔ صحیح مسلم میں جابر ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ شیاطین طرح طرح سے انسان کو بہکاتے ہیں اور ان میں سے جو شیاطین انسان کے بہکانے نئی نئی باتیں نکالتے ہیں ان سے شیطان بہت خوش ہوتا ہے یہ حدیث آیت کی گویا تفسیر ہے جس سے شیطان کے نئے نئے طریقوں سے بہکانے اور انسان کی دشمنی میں لگے رہنے کا حال اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے :۔
Top