Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 33
قَدْ نَعْلَمُ اِنَّهٗ لَیَحْزُنُكَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ فَاِنَّهُمْ لَا یُكَذِّبُوْنَكَ وَ لٰكِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ
قَدْ نَعْلَمُ : بیشک ہم جانتے ہیں اِنَّهٗ : کہ وہ لَيَحْزُنُكَ : آپ کو ضرور رنجیدہ کرتی ہے الَّذِيْ : وہ جو يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں فَاِنَّهُمْ : سو وہ یقینا لَا يُكَذِّبُوْنَكَ : نہیں جھٹلاتے آپ کو وَلٰكِنَّ : اور لیکن (بلکہ) الظّٰلِمِيْنَ : ظالم لوگ بِاٰيٰتِ : آیتوں کو اللّٰهِ : اللہ يَجْحَدُوْنَ : انکار کرتے ہیں
ہم کو معلوم ہے کہ ان (کافروں) کی باتیں تمہیں رنج پہنچاتی ہیں (مگر) یہ تمہاری تکذیب نہیں کرتے بلکہ ظالم خدا کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں۔
(33 ۔ 34) ۔ ترمذی اور حاکم نے حضرت علی ؓ سے روایت کی ہے اور ترمذی نے اس روایت کو صحیح بتلایا ہے اور حاکم نے اس کو شرط شیخین پر صحیح کہا ہے کہ ابوجہل نے آنحضرت ﷺ سے کہا کہ معاملات دنیا میں ہم تم کو سچا اور امانت دار جانتے ہیں لکن جس کلام کو تم اپنے اوپر خدا کی طرف سے اترنا بتلاتے ہو اس کی تصدیق ہم نہیں کرسکتے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی 1 ؎ اور آنحضرت جو مشرکین کے جھٹلانے پر رنجیدہ ہوتے تھے اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو یوں تسکین دی کہ تمہاری ذات خاص سے ان مشرکین کو کچھ بحث نہیں ہے بلکہ وہ ذات سے تم کو اچھا گنتے ہیں وہ تو اس سبب سے تم کو جھٹلاتے ہیں کہ تم ان کو خد کے احکام سنا کر انکا قدیم کا رواج بت پرستی چھڑانا چاہتے ہو سو اس طرح کا جھٹلانا کچھ رنج کرنے کے اور غم کھانے کے لائق نہیں ہے اب آگے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی یہ تسلی فرمائی کہ اے رسول اللہ کے قرآن میں تم کو پچھلے انبیاء اور ان کی امتوں کے حالات جو سنائے گئے ان سے تم کو یہ معلوم ہوگیا ہوگا کہ ان لوگوں کا تمہیں جھٹلانا کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ پچھلی امتیں بھی اسی طرح رسولوں کو جھٹلاتی اور طرح طرح کی ایذا دیتی رہی ہیں جس پر انہوں نے صبر کیا اور اس صبر کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق اپنے رسولوں کی مدد کی جس سے وہ سرکش قومیں غارت ہوگئیں اور آخری غلبہ اللہ کے رسولوں کو ہی ہوا تم بھی ذرا صبر کرو یہی انجام تمہارا ہونے والا ہے۔ اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے ہجرت کے بعد رفتہ رفتہ اس وعدہ کا کچھ ظہور ہوا اس کے ثبوت کے لئے فقط ایک مکہ کی نظیر کافی ہے کہ ان آیتوں کے نازل ہونے کے وقت مکہ کا کیا حال تھا اور اب کیا ہے۔ صحیح بخاری میں خباب بن الارت ؓ کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہجرت سے پہلے ایک دن صحابہ نے مشرکین مکہ کے ظلم و زیادتی کی شکایت آنحضرت ﷺ کے روبرو پیش کی جس پر آپ نے فرمایا کہ تم سے پہلے ایماندار لوگ اس سے زیادہ ظلم و زیادتی اٹھا چکے ہیں ان سے بعضوں کو جتنازمین میں گاڑ دیا گیا ہے اور بعضوں کو آرے سے چیرا گیا ہے اور پھر بھی وہ الگ اپنے دین پر قائم رہے جلدی نہ کرو رفتہ رفتہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کو پورا کرے گا اس ظلم اور زیادتی کا نام باقی نہ رہے گا 2 ؎۔ یہ حدیث ان آیتوں کی گویا تفسیر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کی تسلی کی آیتوں سے آنحضرت ﷺ کی ایسی کامل تسلی ہجرت سے پہلے ہی ہوگئیں تھی کہ جس سے آپ صحابہ کی بھی تسلی فرمایا کرتے تھے۔
Top