Bayan-ul-Quran - Al-Ghaafir : 60
وَ اِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَیْكَ اِعْرَاضُهُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاْتِیَهُمْ بِاٰیَةٍ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدٰى فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ
وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہے كَبُرَ : گراں عَلَيْكَ : آپ پر اِعْرَاضُهُمْ : ان کا منہ پھیرنا فَاِنِ : تو اگر اسْتَطَعْتَ : تم سے ہوسکے اَنْ : کہ تَبْتَغِيَ : ڈھونڈ لو نَفَقًا : کوئی سرنگ فِي الْاَرْضِ : زمین میں اَوْ : یا سُلَّمًا : کوئی سیڑھی فِي السَّمَآءِ : آسمان میں فَتَاْتِيَهُمْ : پھر لے آؤ ان کے پاس بِاٰيَةٍ : کوئی نشانی وَلَوْ : اور اگر شَآءَ اللّٰهُ : چاہتا اللہ لَجَمَعَهُمْ : تو انہیں جمع کردیتا عَلَي الْهُدٰي : ہدایت پر فَلَا تَكُوْنَنَّ : سو آپ نہ ہوں مِنَ : سے الْجٰهِلِيْنَ : بیخبر (جمع)
اور اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے تو اگر طاقت ہو تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈھ نکالو یا آسمان میں سیڑھی (تلاش کرو) پھر ان کے پاس کوئی معجزہ لاؤ۔ اور اگر خدا چاہتا تو سب کو ہدایت پر جمع کردیتا۔ پس تم ہرگز نادانوں میں نہ ہونا۔
(35 ۔ 36) ۔ ابو صالح کی روایت سے ابن جوزی نے اپنی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے دل میں اس بات کی بڑی آرزو تھی کہ آپ کی ہجرت سے پہلے مکہ میں تشریف رکھنے کے زمانہ میں ہی سب قریش ایمان لے آویں اس آرزو کے سبب سے جو معجزے قریش چاہتے تھے آپ کا دل چاہتا تھا کہ فورًا اس معجزہ کا ظہور خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوجاوے لیکن علم الٰہی میں ہر کام کا وقت مقرر ہے وقت سے پہلے کوئی کام نہیں ہوتا ازلی قرار دادیوں تھی کہ فتح مکہ کے بعد مکہ میں اسلام عام طور پر پھیلے اور اس بائیس برس کے عرصہ میں جو زمانہ آپ کی نبوت اور فتح مکہ کا ہے قریش میں سے جتنے آدمی علم ازلی میں شقی ٹھیر چکے ہیں وہ مکہ میں عام اسلام پھینلے سے پہلے بدر کی لڑائی میں کفر کی حالت میں مارے جاویں اس لئے بعض معجزوں کا ظہور اس وقت خلاف مصلحت الٰہی تھا چناچہ حارث بن عامر اور چند قریش نے ایک روز اکٹھے ہو کر آپ سے چند معجزوں کا ظہور چاہا اور آپ کے دل میں شوق پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فور ًا ان معجزوں کا ظہور ہوجاوے تو شاید یہ لوگ اسلام لے آویں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی 1 ؎ حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ وقت سے پہلے اگر تم سے ہو سکے تو تم ان کے ایمان لانے کے لئے زمین آسمان کو ایک کر دو اور زمدین کے اندر کی اور آسمان کے اوپر کی سب نشانیاں معجزہ کے طور پر لے آؤ تو ہوگا وہ ی کہ ازل میں جن لوگوں کا حق بات کی طرف کان لگانا اور اسلام لانا ٹھہر چکا ہے وہی اسلام لاویں گے اور جن کا حالت کفر میں مرنا ٹھہر چکا ہے وہ اس یحال میں مر کر قیامت کے دن وہ اسی حالت میں اللہ کے روبرو آویں گے ہاں اگر اللہ چاہے تو ان سب کو ابھی ہدایت آسکتی ہے مگر قرار داد ازلی کے موافق نہ اللہ چاہے گا نہ ایسا ہوگا صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے کے پچاس ہزر برس پہلے جو کچھ دنیا میں ہونے وال ہے اس سب کا اندازہ کر کے اللہ تعالیٰ نے وہ سب کچھ لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے 2 ؎ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے سب چیزوں کا اندازہ جو اللہ تعالیٰ نے کیا ہے اس کو علم الٰہی کا نتیجہ کہتے ہیں اور یہ علم الٰہی کے موافق دنیا کا حال لوح محفوظ میں جو لکھا گیا ہے اس کو قضاو قدر کہتے ہیں اسی قضا وقدر کے موافق دنیا بھر کے قیامت تک کے کام چلیت ہیں اور قیامت کے قائم ہونے پر اسی کے موافق جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں جائیں گے اس کے مخالف اب کچھ نہیں ہوسکتا اسی واسطے صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں حضرت نے فرمایا کہ جو لکھا جانا تھا وہ لکھا جا کر اب تو قلم خشک بھی ہوچکا 1 ؎ اس قضاوقدر کے مسئلہ میں صحابہ کو شبہ ہوابھی پڑا چناچہ موطا، ترمذدی اور ابوداؤد میں حضرت عمر ؓ کی روایت ہے کہ آنحضرت نے جب یوم میثاق کا ذکر فرما کر یہ فرمایا کہ اسی روز اہل جنت اور اہل دوزخ کی ارواحیں قضاوقدر کے موافق چھٹ چکی ہیں تو بعض صحابہ نے کہا کہ حضرت پھر ہم عمل کس لئے کریں قضاو قدر میں ہمارا جنت میں جانا لکھا ہوگا تو بغیر عمل کے ہم جنت میں جاسکتے ہیں آپ نے فرمایا جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اہل جنت پیدا کیا ہے ان سے خود اللہ تعالیٰ اسی طرح کے کام کرالیتا ہے 2 ؎ اتنی بات اور جان لینے کے قابل ہے کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے جو اللہ تعالیٰ نے مثلاً ابو جہل کے کفر اور ابو سفیان کے اسلام کا اندازہ کیا ہے اس وقت ان دونوں روحوں کو کچھ مجبور کر کے انداز نہیں کیا بلکہ یہ اندازہ ہے کہ دنیا جب پیدا کی جاوے گی اجسام جسیں گے اور روحوں کا تعلق اجسام سے ہوگا اور ان کو ہر طرح کے کے نیک و بد عمل کرنے کا اختیار دیا جاوے گا تو ابو جہل سے کفر کے کام ہوں گے اور ابوسفیان سے کچھ دنوں کفر کے کام اور کچھ دنوں اسلام کے کام ہوں گے اسی کے موافق لوح محفوظ میں لرھا گیا ہے غرض لکھنے سے پہلے کچھ مجبور نہ تھی اور اب لکھنے کے مخالف کچھ ہو نہیں سکتا امور تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے چند روایتیں ہیں اور ان میں بعض ضعیف بھی ہیں اس لئے ابن جوزی سے یہ شان نزول کی روایت جو لی گئی ہے اس میں ابو صالح کا پتہ دے دیا ہے تاکہ ضعیف روایت کا شبہ نہ پڑے کیونکہ ابو صالح کے سلسلہ میں جب تک محمد بن مروان سدی صغیر شریک نہ ہو ابو صالح کی روایت مقول ہے اور اس میں محمد بن مروان شریک نہیں ہے۔{ وَلَوْ شَآئَ اللّٰہُ لَجَمَعَہُمْ عَلَی الْھُدٰی فَلاَ تَکُوْنَنَّ مِنَ الجْاَھِلِیْنَ } اس کا مطلب یہ ہے کہ ارادہ علم کا تابع ہے کیونکہ ہر کام کے کرنے نہ کرنے کا خیال پہلے دل میں پیدا ہوتا ہے پھر اس کام کے کرنے نہ کرنے کا ارادہ کیا جاتا ہے اس لئے علم ازلی الٰہی میں جو لوگ دوزخ کے قابل قرار پاچکے ہیں ان کو مجبور کر کے راجہ راست پر لانے کا اللہ تعالیٰ کا ارادہ نہیں ہے کس لئے کہ یہ بات اللہ کے علم ازلی کے برخلاف ہے اس واسطے اے رسو اللہ کے بعض اہل مکہ تمہاری نصیحت کو نہ مانیں تو نہ اس کا کچھ رنج کرنا نہ اسرے اہ لم کہ کو ان کی خواہش کے موافق معجزات دکھاکر راہ راست پر لانے کی کوشش کی جاوے یہ امر علم اور ارادہ الٰہی کے برخلاف ہے غرض اس طرح کی کوشش نادانوں کا کام ہے اس سے اے رسول اللہ کے تم کو بچنا چاہیے بعض علماء نے اللہ تعالیٰ کے ارادہ کی دو قسمیں ٹھہرائی ہیں ایک ارادہ شرعی ہے دوسرا ارادہ تقدیری۔ ارادہ شرعی فقط خلقت کی فرمانبرداری اور نافرمانی سے متعلق ہے اور ارادہ تقدیری خلقت کی ہر حالت سے متعلق ہے۔ اس قول کے موافق معنی آیت کے یہ ہیں کہ علم ازلی کے موافق جو لوگ اللہ کے ارادہ تقدیر میں نیک نہیں قرار پائیں گے وہ ارادہ شرعی کی فرمانبرداری کے راستہ سے ہمیشہ دور بھاگتے رہیں گے ان کے حق میں راہ راست پر لانے کی کوشش بےسود ہے صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری کی حدیث ایک جگہ گذرچ کی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے اپنی نصیحت کی مثال مینہ کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی فرمائی ہے 1 ؎۔ یہ حدیث گویا اس آیت کی تفسیر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح بری زمین میں مینہ رائگاں ہے اس طرح ازلی بد لوگوں کے حق میں نصیحت رائگاں ہے۔
Top