Al-Quran-al-Kareem - Al-Ghaafir : 60
وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۠   ۧ
وَقَالَ : اور کہا رَبُّكُمُ : تمہارے رب نے ادْعُوْنِيْٓ : تم دعا کرو مجھ سے اَسْتَجِبْ : میں قبول کروں گا لَكُمْ ۭ : تمہاری اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ يَسْتَكْبِرُوْنَ : تکبر کرتے ہیں عَنْ عِبَادَتِيْ : میری عبادت سے سَيَدْخُلُوْنَ : عنقریب وہ داخل ہوں گے جَهَنَّمَ : جہنم دٰخِرِيْنَ : خوار ہوکر
اور تمہارے رب نے فرمایا مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ بیشک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔
(1) وقال ربکم ادعونی استجب لکم …: آخرت کی یاد دہانی کیساتھ ہی توحید کی تاکید فرمائی، جو رسول اللہ ﷺ اور کفار کے درمیان جھگڑے کی سب سیب ڑی وجہ تھی۔ آیت کے آخر میں جہنم کے ذکر ک صورت میں آخرت کا تذکرہ بھی فرما دیا۔ (2) ”’ عا“ کا واحد حق دار ہونے کی دلیل کے طور پر اپنا تعارف ”ربکم“ (تمہارا رب) کے لفظ کے ساتھ کروایا کہ ”اعونی“ (مجھے پکارو) کا حکم تمہیں وہ دے رہا ہے جو ہر لمحے کسی کی شرکت کیب غیر تمہاری پرورش کر رہا ہے اور تمہاری ہر ضرورت پوری کر رہا ہے۔ (3) تمہارے رب نے فرمایا : تم مجھے پکارو ، مجھ سے مانگو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا، میں تمہیں دوں گا۔ نہ مجھ سے بدگمان ہو ، نہ کسی اور کو پکارتے یا اس سے مانگتے پھرو، یہ سمجھ کر کہ وہ تمہیں کچھ دے گا، یا تمہاری درخواستیں میرے دربار سے منظور کروا دے گا۔ (4) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مطلقاً دعا قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، مگر دوسری جگہ قبولیت کے وعدے کے ساتھ کچھ شرطیں بھی ذکر فرمائیں، فرمایا :(واذا سالک عبادی عنی فانی قریب، اجیب دعوۃ الداع اذا دعان فلین تجیب وا لی ولیومنوا بی لعلھم یرشدون) (البقرہ : 186) ”اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں تو بیشک میں قریب ہوں، میں پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے، تو لازم ہے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ وہ ہدایت پائیں۔“ اور رسول اللہ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ دعا تین صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں ضرور قبول ہوتی ہے، یا تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا جلد قبول کرل یتا ہے، یا آخرت میں اس کا ذخیرہ کرلیتا ہے، یا اس سے اتنی برائی ٹال دیتا ہے۔ (دیکھیے مسند احمد : 318، ح : 1139، صحیح) دعا کی قبولیت کی شرطوں اور صورتوں کی تفصیل کے لئے دیکھئے سورة بقرہ (186) کی تفسیر 5۔ ان الذین یستکبرون عن عبادتی : یہ جملہ دلیل ہے کہ دعا ہی عبادت اور پکارنا ہی بندگی ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے، اس سے مانگتا ہے اور اس سے فریاد کرتا ہے وہ اس کی عبادت کرتا ہے اور جو مافوق الاسباب اشیاء کے لیے اس کے سوا کسی اور کو پکارتا ہے، یعنی ”یا علی مدد“ کہتا ہے، یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئا للہ کہتا ہے، بہاؤالحق یا کسی خود ساختہ داتا، دستگیر گنج بخش یا غریب نواز کو پکارتا ہے اور ڈوبتی کشتی کو کنارے لگانے کی درخواست کرتا ہے، درحقیقت وہ اس کی عبادت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کے جرم کا ارتکاب کرتا ہے، جو اس کے ہاں ناقابل معافی ہے۔ یہ کہنا کہ ہم ان بزرگ ہستیوں کو صرف پکارتے ہیں، ان کی عبادت نہیں کرتے، سراسر دھوکا ہے، جو مشرک اپنے آپ کو اور اللہ کے بندوں کو دے رہے ہیں، کیونکہ پکارنا ہی تو عبادت ہے۔ نعمان بن بشیر ؓ نے اللہ تعالیٰ کے فرمان وقال ربکم ادعونی استجب لکم کے متعلق نبی ﷺ سے روایت کی کہ آپ ﷺ نے فرمایا : الدعاء مخ العبادۃ، پکارنا ہی بندگی ہے۔ اور آپ نے یہ آیت پڑھی وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ (ترمذی، تفسیر القرآن، باب و من سورة البقرۃ : 2969، وقال الالبانی صحیح) 6۔ ان الذین یستکبرون عن عبادتی : اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات کے منکروں کے جھگڑے اور کج بحثی کا سبب بیان فرمایا تھا کہ وہ محض ان کے دلوں کا کبر اور جھوٹی بڑائی ہے جو انہیں کبھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اب فرمایا کہ جو لوگ اس کبر میں مبتلا ہیں، میری آیات اور میرے رسولوں پر ایمان نہیں لاتے اور مجھ سے دعا نہیں کرتے وہ ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ دنیا میں وہ جس قدر اونچے بنتے تھے قیامت کے دن اتنے ہی ذلیل و حقیر ہوں گے۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں : بندگی کی شرط ہے اپنے رب سے مانگنا، نہ مانگننا غرور ہے۔ اگر دنیا نہ مانگے تو مغفرت ہی مانگے۔ (موضح) عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا یحشر المتکبرون یوم القیامۃ امثال الدر فی صور الرجال یغشاہم الذل من کل مکان فیساقون الی سجن فی جہنم یسمع بولس تعلوھم نار الانیار یسقون من عصارۃ اھل النار طینۃ الخبار۔ (ترمذی، صفۃ القیامۃ ولرقائق، باب ماجاء فی شدۃ الوعید للمتکبرین : 2492، وقال البانی حسن) تکبر کرنے والوں کو قیامت کے دن چیونٹیوں کی طرح آدمیوں کی شکل میں اٹھایا جائے گا، ہر طرف سے ذلت انہیں ڈھانک رہی ہوگی، پھر انہیں جہنم میں ایک قید خانے کی طرف ہانک کرلے جایا جائے گا، جس کا نام ”بولس“ ہے۔ ان پر آگوں کی آگ چڑھ رہی ہوگی، انہیں جہنمیوں کے جسموں سے نکلنے والا لہو اور پیپ پلائی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے کہ اس سے مانگا جائے، ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا انہ من لم یسال اللہ یغضب علیہ (ترمذی، الدعوات، باب منہ : 3373، وحسنہ الالبانی) جو اللہ تعالیٰ سے نہ مانگے اللہ تعالیٰ اس پر غصے ہوجاتا ہے، کیا خوب کہا ہے کہنے والے نے اللہ یغضب ان ترکت سوالہ وتری ابن ادم حین یسال یغضب اللہ تعالیٰ غصے ہوتا ہے اگر تو اس سے مانگنا چھوڑ دے اور تو ابن آدم کو دیکھے گا کہ جب اس سے مانگا جائے تو غصے ہوتا ہے۔
Top