Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 66
وَ كَذَّبَ بِهٖ قَوْمُكَ وَ هُوَ الْحَقُّ١ؕ قُلْ لَّسْتُ عَلَیْكُمْ بِوَكِیْلٍؕ
وَكَذَّبَ : اور جھٹلایا بِهٖ : اس کو قَوْمُكَ : تمہاری قوم وَهُوَ : حالانکہ وہ الْحَقُّ : حق قُلْ : آپ کہ دیں لَّسْتُ : میں نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر بِوَكِيْلٍ : داروغہ
اور اس (قرآن) کو تمہاری قوم نے جھٹلایا حالانکہ وہ سراسر حق ہے کہہ دو کہ میں تمہارا داروغہ نہیں ہوں
(66 ۔ 67) ۔ اوپر کی آیت میں ذکر تھا کہ قرآنی آیتوں میں طرح طرح کی تنبیہ اس لیے ان لوگوں کو کی جاتی ہے کہ یہ لوگ شرک سے بازآویں اور اپنے بھلے برے کو سمجھیں اس آیت میں ارشاد ہے کہ ان لوگوں کے سر پر تو وہ ازلی کم بختی سوار ہے کہ جن آیتوں میں ان کے خلاف مرضی کوئی مضمون ہوتا ہے تو یہ لوگ پھر ان آیتوں کے جھٹلانے پر مستعد ہوجاتے ہیں حالانکہ قرآن کی آیتوں میں وہ سیدھے سچے مضمون ہیں کہ کوئی صاحب عقل ان کو جھٹلا نہیں سکتا۔ مثلا ان لوگوں کے شرک سے باز آنے کے لیے ان کو یوں سمجھایا گیا ہے کہ جب آسمان زمین انسان اور اس کی سب ضرورت کی چیزوں کو اللہ نے پیدا کیا تو پھر کسی دوسرے کو اللہ کی تعظیم اور عبادت میں شریک ٹھہرانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یا مثلا شرک کے وبال میں پچھلی قوموں پر جو عذاب آیا ہے شام اور یمن کے سفر میں ان لوگوں کو ان اجڑی ہوئی بستیوں کو دیکھ کر عبرت پکڑنے کی فہمائش کی گئی ہے یہ باتیں ہر صاحب عقل کے ماننے کے قابل ہیں اس پر ازلی کم بختی کے سبب سے جب یہ لوگ کلام الٰہی کو جھٹلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر یہ قرآن اللہ کا کلام ہے تو اس کے کھٹلانے کی سزا میں ہم پر کوئی عذاب کیوں نہیں آتا تو ان کی اس بات کے جواب میں اے رسول اللہ کے تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں اللہ کی طرف سے تمہاری سزا کے لیے داروغہ مقرر ہو کر نہیں آیا بلکہ میں وقت مقررہ کی سزا سے تمہیں ڈرانے آیا ہوں اگر اس ڈر کو تم لوگ نہ مانو گے تو بہت جلد وقت مقررہ آنے پر خود تمہیں اس سزا کا حال معلوم ہوجاوے گا اور یہ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہر کام کا وقت مقررہ ہے وقت مقررہ کے آنے پر پھر اس کے حکم کو کوئی ٹال نہیں سکتا اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے وقت مقررہ آتے ہی بدر کی لڑائی کے زمانہ میں یہ بڑے بڑے آیات قرآنی کے جھٹلانے والے بڑی ذلت سے مارے گئے اور مرتے ہی عذاب میں گرفتار ہوگئے اس لیے اس عذاب کے جھٹلانے کی غرض سے آنحضرت ﷺ نے ان لوگوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ کا وعدہ سچا پایا۔ صحیح بخاری 1 ؎ ومسلم کے حوالہ سے انس بن مالک ؓ کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں یہ بدر کا قصہ ہے۔ مشرکوں کی سزا کا وعدہ جو اس آیت میں ہے یہ حدیث اس وعدہ کے ظہور کی گویا تفسیر ہے :۔ 1 ؎ صحیح بخاری ج 2 ص 566 باب قتل بی جہل و صحیح مسلم ح 2 ص 387 باب عرض مقعدالمیت من الجنۃ والسنار الخ
Top