Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 65
قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰۤى اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ یَلْبِسَكُمْ شِیَعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ١ؕ اُنْظُرْ كَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّهُمْ یَفْقَهُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں هُوَ : وہ الْقَادِرُ : قادر عَلٰٓي : پر اَنْ : کہ يَّبْعَثَ : بھیجے عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابًا : عذاب مِّنْ : سے فَوْقِكُمْ : تمہارے اوپر اَوْ : یا مِنْ : سے تَحْتِ : نیچے اَرْجُلِكُمْ : تمہارے پاؤں اَوْ يَلْبِسَكُمْ : یا بھڑا دے تمہیں شِيَعًا : فرقہ فرقہ وَّيُذِيْقَ : اور چکھائے بَعْضَكُمْ : تم میں سے ایک بَاْسَ : لڑائی بَعْضٍ : دوسرا اُنْظُرْ : دیکھو كَيْفَ : کس طرح نُصَرِّفُ : ہم پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیات لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَفْقَهُوْنَ : سمجھ جائیں
کہ دو کہ وہ (اس پر بھی) قدرت رکھتا یے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے یا تمہیں فرقہ فرقہ کر دے اور ایک کو دوسرے (سے لڑا کر آپس) کی لڑائی کا مزا چکھا دے دیکھو ہم اپنی آیتوں کو کس کس طرح بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ سمجھیں
معتبر سند سے مسند امام احمد نسائی تفسیر ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ میں ابی بن عبد ؓ وغیرہ سے روایت ہے کہ اوپر کے عذاب سے مراد آسمان سے پتھر برسنا ہے جس طرح مثال اصحاب فیل پر برسے اور نیچے کے عذاب سے مراد و زمین کا دھنسنا 2 ؎ ہے 2 ؎ تفسیر الدر المنثورج 3 ص 17 روایت کے لفظ یہ ہیں الخف والہجم و تفسیر ابن کثیر ج 2 ص 142 و تفسیر ابن جریرج 7 ص 135۔ جس طرح مثلا قارون دھنس گیا اور ابن مردویہ نے اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ نے اللہ سے دعا کی کہ میری امت سے یہ تینوں قسم کے عذاب جن کا ذکر اس آیت میں ہے اٹھ جاویں تو اللہ تعالیٰ نے پتھروں کے برسنے کا عذاب اور زمین میں دھنسنے کا عذاب تو اٹھالیا مگر آپس کی پھوٹ اور آپس کی خانہ جنگی یہ عذاب باقی ہے 1 ؎ اس حدیث سے بعضے بعضے علماء نے یہ مطلب نکالا ہے 1 ؎ تفسیر الدر المنثور ج 3 ص 16 و تفسیر ابن کثیرج 2 ص 142 کہ اس امت میں پتھر برسنے کا عذاب اور زمین کے دھنسنے کا عذاب قیامت تک واقع نہ ہوگا۔ مگر علامہ حافط ابن حجر (رح) نے اس مطلب پر اعتراض کیا ہے اور اپنے اعتراض کی تائید میں مسند امام احمد کی وہ حدیثیں ذکر کی ہیں جن میں قیامت سے پہلے زمین کے دھسنے کا ذکر ہے اور رفع اس اختلاف کا وہی ہے جس کی صراحت طبرانی کی حسن بصری کی مرسل روایت میں ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حبیب میت اتری اور آنحضرت نے آیت میں تینوں عذابوں کے امت محمد یہ پر سے اٹھ جانے کی دعا کی تو حضرت جبرئیل آئے اور فرمایا کہ پہلی امتوں کی طرح عام طور سے اس امت کی ہلاکت پتھر برسنے اور زمین دھسنے سے نہ ہوگی ان دونوں باتوں میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اب حاصل کلام یہ ٹھہرا کہ پچھلی امتوں کی طوح ساری امت ان دونوں عذابوں سے ہلاک نہ ہوگا علامت قیامت کے طور پر بعضی بستیوں میں پتھر برسیں یا زمین دھنسے اور اس سے کچھ لوگ ہلاک ہوں تو وہ عام عذاب نہیں ہے اوپر کی آیتوں میں آخرت کے عذاب کا ذکر فرما کر اس آیت میں ارشاد ہے کہ آخرت کے عذاب کا موقع تو وقت مقررہ آوے گا لیکن اللہ کی قدرت سے کچھ یہ بھی بعید نہیں کہ ایسے سرکش لوگوں پر دنیا میں بھی کوئی عذاب آجاوے۔ ملک شام اور یمن کے سفر میں ان لوگوں کو ایسے سرکش لوگوں کی اجڑی ہوئی بستیاں نظر آئی ہوں گی جو عذاب دنیوی سے ہلاک ہوچکی ہیں اس سے ان لوگوں کو عبرت پکڑنی چاہئے ورنہ وہی انجام ان کا ہوگا جو ان لوگوں کا ہوا۔ اس نصیحت کے بعد فرمایا کہ قرآن کی آیتوں میں طرح طرح کی تنبیہ بار بار اس لیے ان لوگوں کو کی جاتی ہے کہ یہ لوگ شرک سے بازآویں اور اپنے بھلے برے کو سمجھیں۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں کو لی بھر بھر کے لوگوں کو دوزخ کی آگ سے بچانے کی کوشش کرتا ہوں مگر لوگ اس طرح دوزخ کی آگ میں گرنے کا کام کرتے ہیں جس طرح کیڑے پتنگے روشنی پر گرنے اور مرجانے کی جرأت کرتے ہیں 2 ؎۔ 2 ؎ صحیح بخاری ج 1 ص 487 کتاب الانبیاء و صحیح مسلم ج 2 ص 248 باب شفقۃ صلے اللہ ﷺ علی امتہ الخ یہ حدیث آیت کی گویا تفسیر ہے کیونکہ آیت اور حدیث کو ملانے سے یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی آیتوں میں ہیر پھیر کر طرح طرح سے ان لوگوں کو سمجھایا تاکہ یہ لوگ دوزخ کی آگ سے بچنے کا راستہ چلیں اور اللہ کے رسول بھی اسی کوشش میں لگے رہے لیکن جو لوگ ان میں سے اللہ تعالیٰ کے علم ازلی کے موافق دوزخ کا ایندھن ٹھہر چکے تھے ان کو کسی نصیحت سے کچھ فائدہ نہ ہوا اور آخر اسی حالت کفرو شرک میں بدر کی لڑائی کے وقت وہ لوگ دنیا سے اٹھ کر سیدھے جہنم کو چلے گئے بغیر ذکر صحابہ کے کوئی تابعی آنحضرت ﷺ سے کسی حدیث کی روایت کرے تو اس حدیث کو مرسل کہتے ہیں۔ مرسل روایت کو کسی اور روایت سے تقویت ہوجاوے تو یہ مرسل روایت بالا تفاق قابل اعتبار ہوجاتی ہے۔ حسن بصری کی جس مرسل روایت کا ذکر اوپر گذرا اس کو اور روایتوں سے تقویت حاصل ہوگئی ہے اس لیے یہ مرسل روایت قابل اعتبار ہے :۔
Top